لازوال عشق: ’اب یہ ترکی کو بدنام کروائیں گی‘
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
سوشل میڈیا ویڈیو پلیٹ فارم پر نشر ہونے والے متنازع شو لازوال عشق کی تشہیر پر ایک بار پھر عائشہ عمر کو صارفین کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق عائشہ عمر نے متنازع شو لازوال عشق کے حوالے سے ہونے والی تنقید کے بعد اس پروگرام کے حوالے سے معلومات شیئر کیں اور بتایا کہ یہ ترک پرڈیوسرز کی پیش کش ہے مگر اسے پاکستانی ناظرین کیلیے بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اس پروگرام میں حصہ لینے والی لڑکیوں کے سونے کیلیے علیحدہ کمرے مختص کیے گئے ہیں۔
عائشہ عمر نے لکھا کہ ’لازوال عشق پاکستانی پروڈکشن یا شو نہیں اور نہ ہی اس پروگرام پر کسی کورٹ کی طرف سے پابندی لگائی گئی ہے، یہ پاکستانی اور اردو بولنے یا سمجھنے والے ناظرین کیلیے بنایا جانے والا ایک شو ہے جسے کسی چینل نہیں بلکہ یوٹیوب پر نشر کیا جاتا ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’یہ ایک ریئلٹی شو ہے جس میں سیکھنے اور آپس میں گفتگو کرنے کے طریقوں، اپنے ساتھی کے ساتھ تعلقات اور سچی محبت کی تلاش کے حوالے سے چیزیں سکھائی جارہی ہیں‘۔
عائشہ عمر نے لکھا کہ اس پروگرام کو کسی پاکستانی پروڈکشن ہاؤس یا پروڈیوسر نے تخلیق نہیں کیا البتہ یہ ترکش پروڈکشن ہے اور وہاں کے ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس نے پروگرام بنایا ہے، جس نے یہ شو نہیں دیکھا اُس نے اپنے خیالات از خود پیدا کرلیے ہیں۔
پروگرام کی میزبان نے لکھا کہ لازوال عشق کے گھر میں آنے والی لڑکیوں کے رہنے اور سونے کیلیے علیحدہ کمرے ہیں جبکہ مرد بھی الگ کمروں میں سوتے اور علیحدہ ہی رہتے ہیں‘۔
عائشہ عمر کے اس پیغام کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ایک بار انہیں پھر سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اداکارہ خود بچنے کیلیے اب ترکیہ کو بدنام کررہی ہیں۔
ایک صارف مانو بٹ نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’عیب چھپانے کیلیے کمیونیکیشن کا نام اچھا دیا ہے‘۔ ڈی جی زبیر نامی صارف نے لکھا کہ ’یہ اب ترکیہ کو گندا کروائیں گی‘۔
بشریٰ نے لکھا کہ اگر ترکیہ کا پروگرام بھی ہے تو پاکستانی اداکاروں اور اس میں حصہ لینے والوں کو اپنی اخلاقی اقدار کو دیکھنا اور اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لازوال عشق اس پروگرام نے لکھا کہ
پڑھیں:
افغان دہشتگرد رحمان اللہ لکانوال امریکا کیسے پہنچا؟
افغان دہشتگرد رحمان اللہ لکانوال جو وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈ کے 2 ارکان پر فائرنگ کے واقعے میں مبینہ ملزم ہیں، 2021 میں امریکی بائیڈن انتظامیہ کے افغان ری سیٹلمنٹ پروگرام کے تحت امریکا منتقل ہوئے تھے۔
ریپبلکن قانون سازوں نے برسوں پہلے خبردار کیا تھا کہ اس پروگرام میں سکیورٹی خلا کے باعث امریکی شہری خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا امریکیوں پر حملہ آور افغان دہشتگرد سی آئی اے کے لیے خدمات انجام دیتا رہا؟
سالہ 29 لکنوال ’آپریشن الائز ویلکم‘ کے تحت ستمبر 2021 میں امریکا پہنچے اور بیلنگھم، واشنگٹن میں آباد ہوا۔ امریکی ذرائع کے مطابق یہ پروگرام افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران شروع کیا گیا اور تقریباً 90,000 افغان شہریوں کو امریکا منتقل کیا گیا، جن میں سے کچھ کو عارضی قانونی حیثیت دی گئی تاکہ وہ امریکا میں قانونی طور پر رہائش اختیار کر سکیں اور کام کر سکیں۔
ریپبلکن قانون سازوں نے اس پروگرام کے آغاز سے ہی سیکیورٹی اسکریننگ کے ناقص ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ سینیٹر جونی ارنسٹ نے 2021 میں لکھا تھا کہ افغان شہریوں کو امریکا لانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی سکیورٹی جانچ غیر واضح اور ناکافی ہے، اور ممکنہ دہشتگرد کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنے میں ناکام رہی۔
یہ بھی پڑھیں:وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ، امریکا نے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستیں معطل کر دیں
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکانوال کے حملے کو ’دہشتگردانہ کارروائی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام امریکی فوجیوں اور پوری قوم کے خلاف ایک جرم ہے۔
اس واقعے کے بعد ایف بی آئی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا حملہ بین الاقوامی دہشتگردی سے متعلق تھا اور یہ واقعہ بائیڈن دور کے افغان ری سیٹلمنٹ پروگرام میں موجود سیکیورٹی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان دہشتگرد امریکا حملہ رحمان اللہ لکنوال