UrduPoint:
2025-10-14@16:09:59 GMT

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اکتوبر2025ء) سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت بدھ15اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو درخواستوں پر سماعت کی ،بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے ۔

سماعت کے آغاز پر انٹرنیٹ کی خرابی کے باعث ویڈیو لنک براہِ راست نشر نہ ہو سکا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’’آج انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے، لائیو اسٹریم نہیں ہوسکے گی۔‘‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’’لائیو اسٹریمنگ کا لنک ڈاؤن ہے، چیک کرتے ہیں اگر لائیو ہوجائے۔

(جاری ہے)

‘‘دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے ۔

عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ آئینی ترمیم سے پہلے موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے تاکہ فیصلہ اجتماعی دانش (Collective Wisdom) کی بنیاد پر ہو۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئےکہ ایک جانب آپ سولہ ججز کا کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب کلیکٹو وزڈم کی بات کر رہے ہیں، پہلے اپنی استدعا تو واضح کریں کہ ہے کیا۔جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہمارے سامنے آرٹیکل 191-اے موجود ہے جو آئین کا حصہ ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں اسے سائیڈ پر رکھ دیں لیکن آئین کے کسی آرٹیکل کو کیسے سائیڈ پر رکھا جا سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ سیدھا سیدھا عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، اپیل کا حق دینا یا نہ دینا اب جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں ہے، اگر کمیشن چاہے تو اضافی ججز نامزد کرکے اپیل کا حق دے سکتا ہے۔

سپریم کورٹ رولز 2025 پر بھی بینچ کے ارکان کے درمیان تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 24 ججز کے سامنے بنائے گئے تھے، میٹنگ منٹس منگوائے جائیں تاکہ واضح ہو کہ کون سی شقیں کمیٹی کو بھیجی گئی تھیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سب کے سامنے رولز نہیں بنے،اس حوالے سے میرا نوٹ موجود ہے۔اٹارنی جنرل نے اس معاملے کو عدالت کے اندرونی امور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے اس فورم پر ڈسکس نہ کیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کمیٹی کے پاس بینچز بنانے کا اختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں۔ کمیٹی کے اختیارات کو چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہا جا سکتا۔عابد زبیری نے فل کورٹ اور ریگولر بنچ بارے آئینی نکات بھی پیش کیے اور کہاکہ فل کورٹ آئینی بنچ نہیں ہوتا ۔انہوں نے اس ضمن میں مخصوص نشستوں کے کیس کا حوالہ بھی پیش کیا گیا اور موقف اپنایا کہ چیف جسٹس کے پاس اب بھی فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار موجود ہے، عدالت فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ 15اکتوبر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔\932.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ فل کورٹ نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرے گا؟ .جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اکتوبر ۔2025 ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرے گا؟ آج کی سماعت میں پاکستان بار کونسل کے 6 سابق صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل نہ ہوسکے، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ پسند کریں یا نہ کریں، آرٹیکل 191 موجود ہے، فل کورٹ کا لفظ آرٹیکل 191 میں موجود نہیں، آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آئینی بینچ کے ججز ہی فل کورٹ کو مکمل کرتے ہیں؟ .

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی پاکستان بار کونسل کے 6 سابق صدور کے وکیل عابد زبیری عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے دلائل دیے دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا کسی جماعت کا حق ہوتا ہے کہ بینچ کو ہٹا کر دوسرا بینچ بنا دیا جائے؟ کیا ہم پابند ہیں کہ بینچ تبدیل کریں؟ کیا جماعت چاہتی ہے کہ ہمیں مخصوص بینچ، یا ججز دیے جائیں؟.

وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ کسی جماعت کا حق نہیں کہ مخصوص بینچ منتخب کریں، میں نے ہمیشہ فل کورٹ بنانے کا کہا جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیوں چاہتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا جائے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا آپ کے اپنے فیصلے ہیں کہ فل کورٹ ہونا چاہیے جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میں کتنے ججز ہیں؟ فل کورٹ ہو تو کیا ہوگا؟ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 24 ججز موجود ہیں، میں کسی جج کو غلط نہیں کہہ رہا، سب ججز عزت کے قابل ہیں.

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا آپ کی درخواست کیا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل موجود ججز کو ہی کیس سننا چاہیے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ کیوں چاہتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل ججز پر مبنی فل کورٹ بنے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو خود چیلنج کیا گیا ہے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا چیف جسٹس کا کیا ہوگا؟ کیا چیف جسٹس بینچ میں نہیں بیٹھیں گے؟ عابد زبیری نے کہا چیف جسٹس کو بینچ میں بیٹھنے کا خود فیصلہ کرنا ہوگا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بنے ہیں اگر 26 ویں آئینی ترمیم نہ ہوتی تو یحییٰ آفریدی چیف جسٹس نہ بنتے کیونکہ وقت مقرر تھا سینیئر پیونی کو چیف جسٹس ہونا تھا لیکن نہیں بن سکے ہم اگر بینیفیشری ہیں تو کیا ہم بینچ میں بیٹھ سکتے ہیں؟.

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا تو پھر کیس کو سنے گا کون؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا میں نے تو نہیں کہا کہ آپ 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفشری ہیں جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یعنی آپ کہہ رہے کہ 8 ججز بیٹھ کر کیس کا فیصلہ کریں گے تو غلط ہوگا، ہم 8 یہاں بیٹھیں یا فل کورٹ میں بیٹھیں، بات تو ایک ہی ہوگی نا، آپ کو لگتاہے کہ آئینی بینچ میں ابھی 8 ججز بیٹھ کر متعصب ہوجائیں گے؟ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرئے گا؟ جو بھی آیا مخصوص ججز کا نہیں بتایا، بس فل کورٹ کا کہتے ہیں وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا فل کورٹ بیٹھتا ہے تو سب کا اجتماعی ذہن ہوتا ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کے ماتحت ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ پر بات نہیں کرتا، بینچ پر بات کرتاہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا فل کورٹ کو بھی بینچ ہی کہاجاتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کو بینچ نہیں کہا جاسکتا.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آرٹیکل 191 اے صرف آئینی بینچ سے متعلق ہے آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نامزد کرتا ہے، کیا ہم ایسے ججز کو شامل کرسکتے ہیں جو آئینی بینچ کا حصہ نہ ہوں، کیا آئینی بینچ فل کورٹ تشکیل دے سکتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرسکتا ہے، بات صرف آئینی بینچ کی ہورہی ہے، فل کورٹ بینچ نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم آئینی بینچ ہیں، آپ ہم سے فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے اگر ہمارا دائرہ اختیار نہیں تو جوڈیشل آرڈر کیسے پاس کرسکتے ہیں ہم صاف کہیں گے کہ دائرہ اختیار نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے استسفار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر پاس کرنے پر قدغن ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ فل کورٹ کا معاملہ سینئر پیونی جج کو بھیجا جائے گا؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ کا معاملہ پہلے چیف جسٹس کو جائے گا اگر چیف جسٹس معاملے کو دیکھنے سے معذرت کریں گے تو سینئر پیونی جج کو بھیجا جائے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو کیسے بھیجا جائے گا؟ چیف جسٹس روسٹر کے سربراہ نہیں ہیں.

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ فل کورٹ اور بینچ میں فرق ہے؟ دونوں میں فرق واضح کریں؟ بینچز کا کانسیپٹ کہاں سے آیا؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ جو دستیاب ججز ہوں گے ان پر مشتمل فل کورٹ ہوگا، اگر آپکا اختیار نہیں تو فل کورٹ آج تک بنے کیسے؟ چیف جسٹس نہ نہیں کرسکتے، چیف جسٹس سے آرڈر لے لیے جاتے ہیں، جوڈیشل آرڈر کے بعد چیف جسٹس نہیں کہہ سکتےکہ ف±ل کورٹ نہیں بنا سکتا.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس ف±ل کورٹ بنانے کے پابند ہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ کہیں پابندی نہیں کہ فل کورٹ نہیں بن سکتا، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اعتراض اٹھایا جارہا کہ چیف جسٹس اور موجودہ آئینی بینچ 26 ویں آئینی ترمیم کا نتیجہ ہیں، کیا آئینی بینچ فل بینچ کا آرڈر کر سکتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرے گا، بینچ کی تشکیل ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہوتاہے، چیف جسٹس اب ماسٹر آف دا روسٹر نہیں ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ پر اعتراض ہے تو کیسے جوڈیشل آرڈر پاس کر سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ ہم بطور آئینی بینچ بیٹھے ہیں، آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچ بنایا گیا، کیا چیف جسٹس کو ڈائریکشن دے سکتے ہیں کہ مخصوص ججز کو لگا دیں اور مخصوص ججز کو بینچ میں نہ لگائیں؟.

وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ کے پاس فل کورٹ کی تشکیل کی ڈائریکشن پاس کرنے کا اختیار ہے، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر آئینی بینچ ہے جس کے سامنے ایک ریگولر کیس مقرر ہے، کیا ہم سن سکتے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئینی بینچ ریگولر کیس نہیں سن سکتا، ریگیولر بینچ کو کیس بھیجے گا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آئینی بینچ کیس سن تو سکتا ہے لیکن سننا نہیں چاہیے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اہم کیس ہے کبھی ترمیم کامیابی سے چیلنج نہیں ہوئی.

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پِک اینڈ چوز نہ کریں، اصول پر بات کریں جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فل کورٹ کی استدعا کرتے ہیں تو فل کورٹ کی تشکیل میں کہیں کوئی قدغن ہے؟ ماضی میں کئی بار فل کورٹ کی تشکیل ہوچکی ہے، فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں تھا، آپ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مبنی فل کورٹ چاہتے ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور کابینہ حکومت ہوتی ہے، چیف جسٹس اور ججز سپریم کورٹ ہوتے ہیں، آپ فل کورٹ چاہتے ہیں لیکن محدود کررہے ہیں، 24 ججز پر مبنی فل کورٹ کیوں نہیں کہہ رہے؟ آپ فلاں فلاں ججز پر مبنی فل کورٹ نہیں کہہ سکتے، آپ صرف فل کورٹ کی استدعا کریں، 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل والے ججز پر فل کورٹ چاہیے تو سپریم کورٹ سے کچھ ججز کو نکالنا ہوگا.

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہاکہ سپریم کورٹ سے ججز کو نکال دیں، دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے آپ چاہتے ہیں کہ چونکہ معاملہ آئینی ترمیم سے متعلق ہے اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ کے ذریعے معاملے پر تمام ججز کی اجتماعی دانش آجائے گی، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ بتائیں 17 ججز کا ہی فل کورٹ کیوں؟ 24 ججز کا کیوں نہیں؟ .

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ پسند کریں یا نہ کریں، آرٹیکل 191 موجود ہے، فل کورٹ کا لفظ آرٹیکل 191 میں موجود نہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو معاملہ بھیجیں کہ وہ فل کورٹ بنائیں، آرٹیکل 191 کے تحت اب چیف جسٹس کا اختیار ہی نہیں رہا جسٹس نعیم اختر افغان نے میزد کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 26 ویں ترمیم والے ججز کو فل کورٹ کا حصہ نہ بنائیں، آپ جن ججز کو فل کورٹ میں لانا چاہ رہے ہیں وہ ججز تو ہیں لیکن آئینی بینچ کے ججز نہیں، آرٹیکل 191 میں قدغن ہے، آئینی معاملات آئینی بینچ ہی سنے گا، آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آئینی بینچ کے ججز ہی فل کورٹ کو مکمل کرتے ہیں؟ آئندہ سماعت پر اس سوال کا جواب دیں بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی. 

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم،جسٹس جمال،جسٹس عائشہ میں نوک جھونک
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ: گلگت بلتستان میں ٹیکسز کی وصولی کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
  • گلگت بلتستان ٹیکس کیس: سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس: سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع
  • جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرے گا؟ .جسٹس جمال مندوخیل
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر ججز کے سخت سوالات
  • 26ویں آئینی ترمیم نہ ہوتی تو یحییٰ آفریدی چیف جسٹس نہ بنتے: جسٹس جمال مندوخیل
  • ‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت