وٹامن ڈی کی کمی خاموش قاتل قرار! ابتدائی علامات اور حل کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
وٹامن ڈی جسے عام طور پر سَن شائن وٹامن کہا جاتا ہے، انسانی صحت کا ایک نہایت اہم جز ہے، یہ ناصرف ہڈیوں کی مضبوطی میں کردار ادا کرتا ہے بلکہ قوتِ مدافعت، دماغی صحت اور جذباتی توازن کو بھی برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
وٹامن ڈی کی کمی دنیا بھر میں عام ہے لیکن ماہرین کے مطابق زیادہ تر افراد اس کمی سے لاعلم رہتے ہیں۔
وٹامن ڈی کی اہمیت
وٹامن ڈی جسم کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد دیتا ہے جو ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے، اس کی کمی بچوں میں رکٹس (Rickets) اور بڑوں میں آسٹیوپوروسس (Osteoporosis) جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے، وٹامن ڈی مجموعی صحت اور مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتا ہے۔
ماہرین کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی عام طور پر ایشیائی باشندوں میں زیادہ پائی جاتی ہے جبکہ اس کی علامات بھی کم معلومات ہونے کے سبب واضح نہیں ہوتیں۔
وٹامن ڈی کی کمی اکثر تھکن، اداسی، اور بار بار ہونے والے انفیکشنز کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
دیگر ممکنہ علامات میں کمر یا ہڈیوں میں درد، زخموں کا دیر سے بھرنا، بالوں کا گرنا، پٹھوں میں درد، اضطراب کی کیفیت، ڈپریشن اور وزن میں اضافہ شامل ہے۔
وٹامن ڈی حاصل کرنے کے قدرتی ذرائع
ڈاکٹرز کے مطابق وٹامن ڈی کا بہترین ذریعہ سورج کی روشنی ہے، 10 سے 30 منٹ تک بازو اور ٹانگوں کو سورج کی روشنی میں رکھنے سے جسم خود بخود 1000 سے 2000 یونٹ وٹامن ڈی پیدا کر لیتا ہے۔
غذائی ذرائع
چربی والی مچھلیاں جیسے سالمن اور ٹونا، انڈے کی زردی اور مشروم میں وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔
وٹامن ڈی کا سپلیمنٹ کب لینا چاہیے؟
اگر کسی میں وٹامن ڈی کی شدید کمی پائی جائے تو ڈاکٹر کے مشورے سے سپلیمنٹس استعمال کیے جا سکتے ہیں تاہم اُنہوں نے خبردار کیا کہ زیادہ مقدار نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار گردوں کے مسائل پیدا کر سکتی ہے، بالغ افراد کے لیے روزانہ 600 سے 800 انٹرنیشنل یونٹ مقدار کافی ہے لیکن سپلیمنٹ لینے سے پہلے اپنے ڈاکٹر مشورہ ضرور کریں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
واٹس ایپ میں سنگین سیکیورٹی خامی، اربوں صارفین خطرے میں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائبر سیکیورٹی ماہرین نے مشہور انسٹنٹ میسجنگ ایپ واٹس ایپ میں ایک سنگین خامی کی نشاندہی کی ہے، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے 3 ارب سے زائد صارفین کے فون نمبرز افشا ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس خامی کا غلط استعمال کرنے والے سائبر مجرمان صارفین کی شناخت اور ان کے متعلق دیگر حساس معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جو بعد میں مخصوص اہداف کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہیں۔
اس پرائیویسی کی کمزوری کی نشاندہی یونیورسٹی آف ویانا اور ایس بی اے ریسرچ کی ٹیم نے کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ خامی واٹس ایپ کے کانٹیکٹ ڈسکوری میکانزم میں موجود ہے، جو صارف کے فون میں موجود نمبرز کو ایپ کے مرکزی ڈیٹا بیس سے ملانے کے لیے اجازت طلب کرتا ہے۔ ایک بار یہ اجازت مل جانے کے بعد ایپ یہ دیکھ سکتی ہے کہ کون سا کانٹیکٹ کس پلیٹ فارم کا استعمال کر رہا ہے۔
تاہم، سائبر مجرمان اس اینومریشن میکانزم کا فائدہ اٹھا کر ڈیوائسز سے صارفین کے فون نمبرز، پروفائل فوٹوز اور ‘اباؤٹ’ اسٹیٹس جیسے حساس ڈیٹا کو بھی نکال سکتے ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین نے صارفین کو محتاط رہنے اور اپنی پرائیویسی سیٹنگز کو اپ ڈیٹ رکھنے کی ہدایت کی ہے تاکہ اس قسم کے ڈیٹا افشا ہونے کے خطرے سے بچا جا سکے۔
یہ واقعہ واٹس ایپ جیسی بڑے پلیٹ فارم کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے اور ماہرین کی رائے میں فوری اقدامات اور سیکیورٹی اپ ڈیٹس کے ذریعے اس خامی کو جلد از جلد دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔