امراض قلب سے بچنے کیلیے بالغ افراد کو 7 سے 9 گھنٹے نیند ضروری ہے، تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انسانی جسم کی صحت اور لمبی عمر کے راز جاننے کے لیے دنیا بھر میں بے شمار تحقیق جاری ہے، مگر ان تمام عوامل میں سب سے بنیادی عنصر جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، وہ ہے نیند۔
ماہرین کے مطابق دل کی بیماریوں سے لے کر مٹاپے، بلڈ پریشر، ذہنی تناؤ اور فالج تک، انسانی جسم کا ہر نظام براہِ راست اُس آرام پر منحصر ہے جو ہمیں رات کے وقت میسر آتا ہے۔ حیران کن طور پر دنیا بھر میں امراضِ قلب سب سے زیادہ اموات کا باعث بنتے ہیں اور طبی ماہرین اس حوالے سے نیند کی اہمیت پر بار بار زور دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہر رات 7 سے 9 گھنٹے کی پُرسکون نیند لیتے ہیں، تو نہ صرف دل مضبوط رہتا ہے بلکہ جسمانی وزن بھی قابو میں رہتا ہے، ذہنی سکون بحال ہوتا ہے اور فالج یا ہارٹ اٹیک جیسے خطرات میں نمایاں کمی آتی ہے۔
نیند کے دورانیے سے زیادہ ضروری اس کا معیار ہے۔ یعنی سونا ایک مقررہ وقت پر اور جاگنا بھی ایک ہی روٹین کے مطابق ہونا چاہیے۔ بے ترتیبی کی صورت میں جسم کا اندرونی نظام متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہارمونز کا بگاڑ، موڈ میں اتار چڑھاؤ اور بھوک میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
طبی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ جو افراد معمول سے کم سوتے ہیں، خصوصاً وہ جو 5 گھنٹے سے بھی کم نیند لیتے ہیں، اُن میں وزن بڑھنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بارہا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کم سونے والے افراد زیادہ کیلوری والی غذائیں پسند کرنے لگتے ہیں اور بھوک پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وزن میں اضافہ بعد میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، شریانوں کی تنگی اور دل کے دورے جیسے امراض کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
دوسری جانب حد سے زیادہ نیند بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 9 گھنٹے سے زیادہ سونے کی عادت کو بھی دل کے امراض، مٹاپے اور دیگر مسائل سے جوڑا گیا ہے، لہٰذا توازن برقرار رکھنا ہی صحت مندی کی اصل کنجی ہے۔
بہت سے افراد کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ رات کو کتنی دیر سوتے ہیں، کیونکہ بستر پر لیٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ فوراً نیند آ جائے۔ ایسے لوگوں کے لیے چند علامات مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر دن بھر چکر آنا، بیداری کے دوران غنودگی چھائے رہنا، چھوٹی چھوٹی باتیں بھول جانا، یا معمولی بات پر جھنجھلاہٹ محسوس کرنا روز کا معمول بن جائے تو یہ نیند کی کمی کا واضح اشارہ ہے۔
اسی طرح کام میں دل نہ لگنا، توجہ برقرار نہ رکھ پانا اور بے وجہ بےچینی بھی اسی مسئلے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ روزانہ کے معمول میں صرف 15 منٹ اضافی نیند بھی جسم پر حیرت انگیز مثبت اثرات ڈال سکتی ہے۔ نیند کی کمی جہاں دل کو کمزور بناتی ہے، وہیں ذہنی سکون بھی متاثر کرتی ہے، جس سے انزائٹی اور ڈپریشن جیسے مسائل جنم لیتے ہیں اور یہی کیفیت جسمانی صحت کو مزید بگاڑ دیتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سے زیادہ
پڑھیں:
دنیا بھر میں گردوں کے بڑھتے امراض عالمی بحران کی شکل اختیار کر گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے مختلف خطوں میں صحت کے نظام اس وقت ایک ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس کی جانب ماہرین برسوں سے توجہ دلا رہے تھے۔
نئی سائنسی رپورٹ کے مطابق گردوں کے دائمی امراض کی شرح ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اموات کا سبب بننے والی بڑی بیماریوں میں مسلسل اوپر جا رہے ہیں۔ اس مشترکہ تحقیق کو امریکا اور برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوں اور ہیلتھ میٹرکس کے اداروں نے مل کر تیار کیا ہے، جس میں تین دہائیوں کے اعدادوشمار کا نہایت باریک تجزیہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر میں تقریباً 38 کروڑ افراد گردوں کے امراض کا شکار تھے، مگر آبادی میں اضافے، طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور طبی سہولیات تک عدم رسائی جیسے عوامل کے باعث یہ تعداد 2023 تک بڑھ کر تقریباً اناسی کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ یعنی گزشتہ 30 برس میں گردوں کے مسائل دوگنے سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور یہ اضافہ نہ صرف انتہائی تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک بڑے بحران کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد حصہ کسی نہ کسی درجے کے گردوں کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا، کیونکہ گردوں کے بیشتر مسائل ابتدائی مراحل میں کوئی نمایاں علامات ظاہر نہیں کرتے۔
تحقیق کاروں نے بتایا کہ جب تک مریض کو اپنے اندر کچھ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے، تب تک بیماری اکثر اس سطح پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں علاج پیچیدہ تر ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ صرف سال 2023 میں گردوں کے امراض کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 15 لاکھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔
تحقیق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گردوں کی کارکردگی کمزور ہونے سے دل کے مریض بننے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ جسم میں زہریلا مواد جمع ہونا شریانوں اور اعصاب پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس مرض کو ایک خاموش قاتل قرار دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرتا ہے۔
رپورٹ میں عام علامات کی تفصیل بھی دی گئی ہے جنہیں نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً مسلسل تھکاوٹ، نیند میں خلل، جلد پر خارش اور دانوں کا ظاہر ہونا، ہاتھوں، چہرے یا پیروں میں سوجن، مسلز میں کھچاؤ، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، بھوک میں کمی اور وزن کا تیزی سے گھٹ جانا وہ علامات ہیں جو گردوں کے خراب ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے 133 ممالک کے طبی ڈیٹا اور 2230 تحقیقی مقالہ جات کا تجزیہ کیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ گردوں کے امراض اب ان مسائل میں شامل ہیں جن کے علاج اور احتیاط دونوں پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے سرطان، دل کے امراض اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ دی جاتی ہے ویسے ہی گردوں کی صحت کو بھی عالمی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا، ورنہ آنے والے برسوں میں اس بیماری کا بوجھ صحت کے نظام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔