Jang News:
2025-11-22@11:01:30 GMT

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلاء کنونشن تنازع کا شکار

اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلاء کنونشن تنازع کا شکار

27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کنونشن تنازع کا شکار ہو گیا۔

کراچی بار اور سندھ ہائی کورٹ بار کے جنرل سیکریٹریز نے 27ویں ترمیم کے خلاف وکلاء کنونشن ہر صورت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری مرزا سرفراز کی جانب سے 22 نومبر کو بلایا گیا وکلاء کنونشن ہائی کورٹ بار کے صدر سرفراز میتلو اور مینجنگ کمیٹی کے ممبران نے یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ اعزازی سیکریٹری کو وکلاء کنونشن بلانے کا اختیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے لاہور ہائیکورٹ،27 ویں آئینی ترمیم کیخلاف ایک اور درخواست، فل بنچ تشکیل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4 ججز کا 27ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

دوسری جانب جنرل سیکریٹری اور کراچی بار نے ہر صورت آج وکلاء کنونشن کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ سندھ ہائی کورٹ کے سامنے سڑک پر منقعد کیا جا رہا ہے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ ہم کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے، وکلاء کنونشن سندھ ہائی کورٹ کے سامنے روڈ پر منعقد کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلے کنونشن سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ہال میں کرنے کا اعلان کیا تھا، ہال میں منع کیا گیا تو کنونشن سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں کرنے کا اعلان کیا، ہائی کورٹ کے احاطے میں بھی وکلاء کنونشن منعقد کرنے سے روکا گیا ہے۔

واضح رہے کہ صدر سندھ ہائی کورٹ بار نے آج بلایا گیا وکلاء کنونشن منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر نے اپنے بیان میں سیکریٹری ہائی کورٹ بار کی جانب سے بلایا گیا آج کا وکلاء کنونشن منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سندھ ہائی کورٹ بار کرنے کا اعلان کیا وکلاء کنونشن ہائی کورٹ کے

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بلائے گئے اہم فل کورٹ اجلاس میں ججوں نے ترمیم کے اثرات اور عدلیہ کے ادارہ جاتی ردِعمل پر تفصیلی غور کیا، تاہم اجلاس کے دوران پیش کی گئی اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہ آسکا۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے باعث سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو گئے اور اس کے اگلے ہی دن ایک درجن سے زیادہ جج چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع ہوئے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

گفتگو کے دوران جب ترمیم کے خلاف احتجاج میں سب کے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پیش کی گئی تو جج خاموش رہے اور کوئی اس پر راضی نظر نہ آیا۔

فل کورٹ کا یہ اجلاس 14 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا، اس وقت چار ججوں کو وفاقی آئینی عدالت میں بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی اور یہ اجلاس دو ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، کے استعفے کے ایک دن بعد بلایا گیا تھا۔

ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر 27ویں ترمیم پر بات کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی، تاکہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کی جا سکے۔

اجلاس کے بارے میں ایک ذریعے نے بتایا کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں ماحول کافی تناؤ کا شکار تھا اور سینئر جج اس صورتحال کو بہت افسوسناک دن قرار دے رہے تھے۔

اجلاس کا ماحول اس وقت مزید سنجیدہ ہو گیا جب ایک جج نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی یا آئینی ترمیم کرنے سے روک سکے؟

ترمیم کے اثرات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے افسوس ظاہر کیا کہ ججوں نے ان سے سیدھی بات کرنے کے بجائے خط لکھنا بہتر سمجھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ملنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

فل کورٹ اجلاس میں کم از کم 13 جج موجود تھے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک اجلاس میں نہیں آئے، جب کہ جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث شامل نہیں ہو سکیں۔

چار جج، امین الدین خان، حسن اظہر رضوی، عامر فاروق اور علی باقر نجافی کو پہلے ہی وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔

مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل
اجلاس میں ججوں نے اپنے دو ساتھیوں کے استعفوں پر افسوس کا اظہار کیا اور زور دیا کہ عدلیہ کو مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل سامنے لانا چاہیے۔

جب کچھ ججوں نے حکومت کو رسمی طور پر خط لکھنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ ججوں کو خط لکھنے کے بجائے پہلے ان سے براہِ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار موجود ہے تاکہ قانون سازی کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن یہ اختیار قانون بننے کے بعد استعمال ہوتا ہے، پہلے نہیں، لہٰذا عدالت پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔

جب ایک مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل پر اصرار کیا گیا تو ایک جج نے یہ تجویز دی کہ اگر جج عملی اور مؤثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں جو آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر ہو تو انہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس سمیت اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تاہم، یہ تجویز خاموشی کی نذر ہو گئی، جو اس بات کا اشارہ تھی کہ شرکا اس سے متفق نہیں تھے، چنانچہ اجلاس کسی متفقہ فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلا کنونشن تنازع کا شکار، صدر اور سیکرٹری سندھ ہائیکورٹ بار آمنے سامنے
  • 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلا کنونشن بار قیادت کے اختلافات کا شکار ہونے کے بعد سڑک پر منعقد
  • سندھ ہائیکورٹ کے باہر وکلاء اور پولیس اہلکار کے درمیان ہاتھا پائی
  • حیدرآباد: وکلاء 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاج کررہے ہیں
  • 27ویں آئینی ترمیم پر عدالتی کارروائی، 4 ججز سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو تیار
  • ہائیکورٹ ججز کی 27ویں ترمیم کیخلاف درخواست پر اعتراض عائد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4 ججز کا 27ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 ججز کا 27ویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا