وفاقی دارالحکومت کے 1400 تعلیمی اداروں میں انسداد منشیات کیلیے چیکنگ پر 3 افراد تعینات
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی دارالحکومت کے 1400 تعلیمی اداروں میں انسداد منشیات کے لیے چیکنگ پر صرف 3 افراد تعینات کیے گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ منشیات خاتمے کا فریم ورک بنانے کے لیے عدالتی حکم کے باوجود آئی جی اسلام آباد سے متعلقہ حکام کی میٹنگ نہیں ہو سکی ۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو 2 ہفتوں میں اے این ایف ، پرائیویٹ اسکول اتھارٹی و دیگر سے میٹنگ کی ہدایت کی۔ جسٹس راجا انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ جہاں امن وامان کا مسئلہ اہم ہے وہیں منشیات کے خاتمے کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ امن و امان کے اقدامات کے باوجود کچہری میں دھماکا ہوگیا ۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر آئی جی کی مصروفیت تھی ، جلد میٹنگ ہو جائے گی۔
جسٹس راجا انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کو کہیں ایک گھنٹے کا کام ہے متعلقہ حکام سے منشیات کے خاتمے کے لیے میٹنگ کریں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ منشیات کے خاتمے سے متعلق پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری اتھارٹی نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔
نمائندہ پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں تقریباً ٹوٹل 1400 تعلیمی ادارے ہیں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ 1400 تعلیمی اداروں کے لیے آپ نے کتنے بندے تعینات کیے ہیں جو چیکنگ کرتے ہیں، جس پر نمائندہ پیرا نے بتایا کہ ہمارے پاس 3 افراد ہیں جو ان تعلیمی اداروں میں منشیات کے خاتمے سے متعلق چیکنگ کرتے ہیں ۔
جسٹس راجا انعام امین منہاس نے کہا کہ 14 سو تعلیمی ادارے اور چیکنگ کے لیے بندے 3، پھر تو آپ کو 4 سال لگ جائیں گے۔ آئندہ سماعت سے قبل متعلقہ حکام اور آئی جی میٹنگ کرکے ایک فریم ورک بنائیں ۔ بعد ازاں عدالت نے ہدایات جاری کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منشیات کے خاتمے تعلیمی اداروں اسلام آباد عدالت نے کے لیے
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو کردی گئی
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیلِ نو کر دی گئی ہے۔
ان تبدیلیوں کے تحت سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے، جبکہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے جج جسٹس عامر فاروق کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں شامل کر لیا گیا ہے۔
تین اہم قانونی اداروں میں سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچز بنانے اور مقدمات مقرر کرنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کرتی ہے۔
ان اداروں کی تشکیل نو 27ویں ترمیم کے مطابق ضروری تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد ان اداروں کو نئے قواعد کے مطابق دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس جمال مندوخیل کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن نامزد کیا ہے۔
اب سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین میں چیف جسٹس آف پاکستان، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہوں گے۔
ترمیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان یا وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سینئر ترین جج کرے گا، اور اس صورت میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ہی اس کے سربراہ رہیں گے۔
مزید یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی جسٹس جمال مندوخیل کو شامل کر لیا گیا ہے، اب یہ کمیٹی چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل ہو گی۔
اسی طرح وفاقی آئینی عدالت کے دوسرے سینئر جج جسٹس عامر فاروق کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت نے مشترکہ طور پر جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا ہے۔
اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نمائندے احسن بھون، قومی اسمبلی کے 2 ارکان، سینیٹ کے 2 ارکان اور ایک خاتون یا غیر مسلم رکن (جسے اسپیکر نامزد کریں گے) شامل ہوں گے۔
پریس ریلیز کے مطابق یہ ادارے اب نئے آئینی ڈھانچے کے تحت احتساب، عدالتی تعیناتیوں اور عدالتی انتظامی امور میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
یہ تبدیلیاں اس پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا بڑا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے، اس ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا ہے، جس پر اپوزیشن اور کئی قانونی ماہرین نے تنقید کی ہے۔
ترمیم کے نافذ ہوتے ہی سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
آئی سی جے کا تحفظات کا اظہار
بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے بھی ترمیم، خصوصاً وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل، ججوں کی تقرری، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ترتیب، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے اور صدر اور عسکری قیادت کو دیے گئے استثنیٰ پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔
آئی سی جے کے مطابق اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ بنیادی طور پر اپیل کا فورم رہ جائے گی اور آئینی تشریح کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائے گا۔
آئی سی جے نے مزید کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے جج کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مقرر کریں گے جبکہ مستقبل کی تعیناتیاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر ہوں گی، لیکن ترمیم میں تعیناتی کے معیار یا اصول واضح نہیں کیے گئے۔