اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کتنا ٹیکس نافذ ہو گا اسکا فیصلہ گزشتہ سال کے اثاثوں پر ہوتا ہے، وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس میں یہ تصور ہے کہ جیسے جیسے آمدن میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے ٹیکس بڑھے گا۔

26ویں آئینی ترمیم کیس؛کمیٹی کے پاس بنچز بنانے کااختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں،کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے،دونوں مختلف ہیں،جسٹس عائشہ ملک کے ریمارکس

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی آر کا مائنڈ سیٹ یہی ہے کہ آمدن کے حساب سے انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا، 1979 آرڈیننس میں ٹیکس سے متعلق دو تصور تھے، ایک تشخیصی ٹیکس اور دوسرا انکم ٹیکس ہوتا ہے، تشخیصی ٹیکس سالانہ ہوتا ہے اور انکم ٹیکس گزشتہ سال کے موازنے میں نافذ کیا جاتا یے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ تشخیصی ٹیکس کب نافذ ہو گا کب نہیں؟ فروغ نسیم نے کہا کہ آرڈیننس میں لکھا ہے کہ تشخیص ایک سال بعد ہو گی، آپ معزز جج صاحبان آئین کے محافظ ہیں، میں خود بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں اور وہاں بھی میں یہی کہتا رہا ہوں، پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔

کفیل کی شرط ختم، سعودی عرب میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا سنہری موقع

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں، فروغ نسیم نے کہا کہ بشر ہیں فیصلہ حق میں آئے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں، خلاف آئے تو برا کہتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے آپ کس طرح کے انصاف کی توقع رکھتے ہیں؟ فروغ نسیم نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 10 اے قدرتی انصاف کے برابر ہے، قدرتی انصاف سے مراد صرف یہ نہیں کہ سننے کا حق دیا جائے۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
 

بیوی قتل کرنے والے کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل خارج

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ٹیکس سے متعلق سپریم کورٹ انکم ٹیکس دیں تو نے کہا

پڑھیں:

26ویں آئینی ترمیم کیس: سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے، جسٹس عائشہ ملک  نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ جو شق چیلنج ہو اسے کیسے سائیڈ پر رکھا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ پارٹی جج پر اعتراض نہیں کرسکتی، مقدمہ سننے، نہ سننے کا اختیار جج کے پاس ہے، آئینی ترمیم سے پہلے موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے ایک جانب آپ کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں دوسری طرف کہتے ہیں صرف سولہ جج کیس سنیں، پہلے اپنی استدعا تو واضح کریں کہ ہے کیا۔

دوران سماعت عابد زبیری کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے کا حوالہ  دیتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ آٹھ رکنی بینچ میں ہمیں اپیل کا حق نہیں ملے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں یہ اب جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آ گیا ہے، یہ سیدھا سیدھا عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کچھ وکلاء نے تویہ بھی کہا ہے آرٹیکل 191 اے کو سائیڈ پر رکھ کر کیس سنا جائے، سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ جو شق چیلنج ہو اسے کیسے سائیڈ پر رکھا جاتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے رولز دو ہزار پچیس میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ بینچ چیف جسٹس بنائے گا۔

عابد زبیری نے موقف اپنایا فل کورٹ بینچ نہیں ہے۔ آج تک فل کورٹ کیسے بنے، آپ کی بھی ججمنٹ موجود ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے فل کورٹ کے حوالے سے رولز دو ہزار پچیس میں ہونا چاہیے تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کمیٹی کے پاس بینچز بنانے کا اختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں، کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جاسکتے، دونوں مختلف ہیں، ہم بینچز نہیں بلکہ فل کورٹ کی بات کررہے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس عائشہ ملک میں اہم ریمارکس کا تبادلہ ہوا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ رولز کے حوالے سے چوبیس ججز بیٹھے تھے، ان کے سامنے رولز بنے، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا سب کے سامنے نہیں بنے، میرا نوٹ موجود ہے۔

جسٹس جمال مندو کیل نے ریمارکس دیئے میٹنگ منٹس منگوائے جائیں، سب ججز کو ان پٹ دینے کا کہا گیا تھا۔ یہ کیس آگے نہیں چلے گا جب تک یہ کلیئر نہیں ہوتا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ ججز کا اندرونی معاملہ ہے، اس کو یہاں پر ڈسکس نہ کیا جائے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے یہاں مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان ٹیکس کیس: سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس: سمجھ نہیں آتا آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جائے، جج سپریم کورٹ
  • مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • سپرٹیکس کیس: مسئلہ یہ ہے حق میں فیصلہ دیں تو خوش، خلاف دیں تو ناراض ہوجاتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع
  • ‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
  • آئی ایم ایف کا مطالبہ، حکومت نے کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ شائع کرنے کیلئے مہلت مانگ لی
  • ورچوئل کورٹ کا مقصد اپر چترال جیسے علاقوں کے عوام کو انصاف کی سہولت دینا ہے: چیف جسٹس پاکستان