انکم ٹیکس ریٹرن کی تاریخ میں توسیع کی جائے، ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2025ء) فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)نے ایف بی آر سے مطالبہ کیا ہے کہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ میں توسیع کی جائے تاکہ ٹیکس دہندگان کو درپیش عملی مسائل کا حل نکل سکے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ ٹیکس سال 2025 کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی موجودہ آخری تاریخ 15 اکتوبر 2025 ہے، جسے 31 اکتوبر 2025 تک بڑھایا جانا ضروری ہے۔
اس ضمن میں ایف پی سی سی آئی نے چیئرمین ایف بی آر کو ایک باقاعدہ خط بھی ارسال کیا ہے جس میں ٹیکس دہندگان، کاروباری طبقے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے۔خط میں واضح کیا گیا ہے کہ بہت سے ٹیکس دہندگان کو اہم مالیاتی دستاویزات کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے، جبکہ ایف بی آر کے آن لائن پورٹل پر بار بار تکنیکی مسائل بھی ریٹرن جمع کروانے کے عمل کو سست کر رہے ہیں۔(جاری ہے)
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کو ان کے قانونی فرائض پورے کرنے، ذہنی دبا سے بچانے اور سہولت دینے کے لیے آخری تاریخ میں توسیع ناگزیر ہو چکی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایف بی آر فوری اقدامات کرے تاکہ نہ صرف ٹیکنیکل مسائل کا ازالہ ہو، بلکہ ٹیکس نظام میں اعتماد بھی بحال کیا جا سکے۔ایف پی سی سی آئی کے مطابق، اس وقت بڑی تعداد میں ٹیکس دہندگان ایف بی آر پورٹل کی سست روی اور عدم فعالیت کی وجہ سے بروقت ریٹرن فائل کرنے سے قاصر ہیں، جو کاروباری طبقے میں بے چینی پیدا کر رہی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایف پی سی سی آئی ٹیکس دہندگان ایف بی آر کہ ٹیکس
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا پاکستان سے ٹیکس کے استعمال میں شفافیت بڑھانے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آئی ایم ایف نے ایک بار پھر پاکستان کے مالیاتی نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے غلط اور غیر شفاف استعمال کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری ہونے والی گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سنگل ٹریژری اکاؤنٹ (ٹی ایس اے) کے تحت مالی نظم و ضبط ناکافی ہے، جبکہ بجٹ کے نفاذ میں مسلسل کمزوریاں بڑے انتظامی اور گورننس مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 برس میں کچھ بہتری ضرور ہوئی ہے مگر بجٹ کی ساکھ اب بھی اتنی کمزور ہے کہ پالیسی کی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کا عملی میدان میں مؤثر انعقاد ممکن نہیں ہو پاتا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں بارہا سامنے آنے والی تاخیر، لاگت میں غیر معمولی اضافہ اور فنڈنگ کا تسلسل برقرار نہ رہنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ ایک منظم اور مربوط نظام سے محروم ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف ترقیاتی رفتار کو متاثر کیا ہے بلکہ منصوبہ سازی اور فنڈنگ کے درمیان عدم مطابقت بڑھا دی ہے، جو بڑے پیمانے پر وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق سرکاری اخراجات کو شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ منصوبوں کے انتخاب، فنڈنگ کے بہاؤ اور عمل درآمد کے تمام مراحل میں سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ عوامی سرمایہ کاری سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں 3 سے 6 ماہ کے اندر فوری اقدامات کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایس اے فریم ورک کو جدید تقاضوں کے مطابق ازسرنو ترتیب دیا جائے ادارہ جاتی حدود واضح کی جائیں اور حکومتی نقدی کے بہاؤ کا ٹھوس انداز میں مؤثر کنٹرول قائم کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق فی الحال صورتحال اس قدر پیچیدہ ہے کہ نہ صرف ادارہ جاتی ذمہ داریاں مبہم ہیں بلکہ مختلف سرکاری ادارے بجٹ سے وسائل تو استعمال کرتے ہیں مگر روایتی احتسابی دائرے سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں پر مناسب نگرانی ممکن ہی نہیں ہو پاتی۔ یہ خلا ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے اور بدعنوانی کے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
علاوہ ازیں آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ پاکستان میں پارلیمانی نگرانی کمزور پڑ چکی ہے کیونکہ منظور شدہ بجٹ اور حقیقی سرکاری اخراجات کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جب پالیسی اور عمل درآمد کے درمیان فرق بڑھ جائے تو سرکاری اختیارات کے ذاتی یا سیاسی مفاد میں استعمال ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جو بدعنوانی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مالیاتی گورننس کو بہتر بنانے، شفافیت بڑھانے، بدعنوانی کے خطرات کم کرنے اور عوام کے وسائل کے درست اور مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اصلاحات نافذ کرے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط میں موجود کمزوریوں کو دور کرے، بجٹ کی شفافیت بہتر بنائے اور ایسے نظام کی تشکیل کرے جس میں سرکاری اداروں کے درمیان ذمہ داریاں واضح ہوں، احتساب یقینی ہو اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی بھی صورت ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے پائے۔