نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی اپیل مسترد، جسٹس باقر نجفی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی جانب سے اپیل رواں برس مئی میں مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے۔
اپنے 7 صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس باقر نجفی نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے چند اضافی وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔
جسٹس باقر نجفی کے مطابق مجرم ظاہر جعفر کے خلاف تمام شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، انہوں نے لڑکے لڑکی کے درمیان لِونگ ریلیشن کا تصور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار
انہوں نے کہا کہ یہ تعلقات اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور نوجوان نسل کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ 20 مئی 2025 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کر دی تھی اور نور مقدم قتل کیس میں اس کی سزا کے اہم حصوں کو برقرار رکھا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے قتل کے الزامات میں ظاہر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
جبکہ زیادتی کے الزام میں دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے اغوا کے الزام میں دی گئی 10 سالہ سزا کو ایک سال کر دیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ شریک ملزمان چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد نے کافی عرصہ قید کاٹ لی ہے اور انہیں تحریری فیصلہ جاری ہونے کے بعد رہا کر دیا جائے۔
اس کے علاوہ نور مقدم کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی برقرار رکھا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس ہاشم کاکڑ ریلیشن شپ سپریم کورٹ سزائے موت ظاہر جعفر عمر قید قتل کیس نورمقدم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس ہاشم کاکڑ ریلیشن شپ سپریم کورٹ سزائے موت ظاہر جعفر قتل کیس نور مقدم قتل کیس ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ باقر نجفی سزائے موت
پڑھیں:
ڈنڈوں سے بیوی کا قتل کرنے والے ملزم کی اپیل عدالت نے مسترد کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور ہائیکورٹ نے گوجرانوالہ میں اپنی بیوی کو ڈنڈوں سے قتل کرنے والے ملزم محمد اشرف کی عمر قید کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ملزم کے خلاف چشم دید گواہ اس کا بیٹا ہے اور اس کی گواہی قابل اعتماد ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بیٹا اپنے والد پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا، اور شواہد کے بغیر اس الزام کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے میں ملزم کے وکیل کے موقف کو بھی پیش کیا گیا کہ مقتولہ کے دیگر بچے بھی موجود تھے لیکن کسی نے باپ کے خلاف چارج شیٹ نہیں کروائی، تاہم عدالت نے کہا کہ گواہوں کی تعداد سے زیادہ ان کی اہمیت دیکھنا ضروری ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہر بچے سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے والد کے خلاف گواہی دے، خوف اور وفاداری کے اثرات کیس کی نوعیت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، اس لیے دیگر بچوں کا والد کے خلاف گواہی نہ دینا پراسیکیوشن کے کیس کو کمزور نہیں کرتا۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ملزم کے وکیل نے دلیل دی کہ مقتولہ کو قتل کرنے کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر جج نے کہا کہ بغیر وجہ کے بھی جرم کیا جا سکتا ہے اور یہ ملزم کی بریت کا سبب نہیں بن سکتا۔ پراسیکیوشن نے اپنے کیس کو مکمل طور پر ثابت کیا ہے، لہذا ہائیکورٹ نے ملزم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی۔
واضح رہے کہ ملزم محمد اشرف کے خلاف مقدمہ 2021 میں گوجرانوالہ کے تھانے میں درج ہوا تھا اور سال 2022 میں گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔