ڈنڈوں سے بیوی کا قتل کرنے والے ملزم کی اپیل عدالت نے مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور ہائیکورٹ نے گوجرانوالہ میں اپنی بیوی کو ڈنڈوں سے قتل کرنے والے ملزم محمد اشرف کی عمر قید کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ملزم کے خلاف چشم دید گواہ اس کا بیٹا ہے اور اس کی گواہی قابل اعتماد ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بیٹا اپنے والد پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا، اور شواہد کے بغیر اس الزام کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلے میں ملزم کے وکیل کے موقف کو بھی پیش کیا گیا کہ مقتولہ کے دیگر بچے بھی موجود تھے لیکن کسی نے باپ کے خلاف چارج شیٹ نہیں کروائی، تاہم عدالت نے کہا کہ گواہوں کی تعداد سے زیادہ ان کی اہمیت دیکھنا ضروری ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہر بچے سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے والد کے خلاف گواہی دے، خوف اور وفاداری کے اثرات کیس کی نوعیت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، اس لیے دیگر بچوں کا والد کے خلاف گواہی نہ دینا پراسیکیوشن کے کیس کو کمزور نہیں کرتا۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ملزم کے وکیل نے دلیل دی کہ مقتولہ کو قتل کرنے کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر جج نے کہا کہ بغیر وجہ کے بھی جرم کیا جا سکتا ہے اور یہ ملزم کی بریت کا سبب نہیں بن سکتا۔ پراسیکیوشن نے اپنے کیس کو مکمل طور پر ثابت کیا ہے، لہذا ہائیکورٹ نے ملزم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی۔
واضح رہے کہ ملزم محمد اشرف کے خلاف مقدمہ 2021 میں گوجرانوالہ کے تھانے میں درج ہوا تھا اور سال 2022 میں گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے اسے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان کیخلاف درخواستوں پر حکم امتناع کی استدعا مسترد
کراچی:شہر قائد میں نافذ کیے گئے ای چالان کے خلاف درخواستوں پر عدالت عالیہ نے حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں متعارف کرائے گئے ای چالان سسٹم کے خلاف سیاسی جماعتوں، ٹرانسپورٹ مالکان اور شہریوں کی درخواستوں پر فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ اور دیگر حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کردی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر جرمانے لاہور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اس لیے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مختلف شہروں کے حالات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں، اس لیے ان کا سادہ موازنہ مناسب نہیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ بس مالکان کو مسافروں کو بٹھانے تک کی اجازت نہیں دی جاتی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بسیں اسٹینڈز پر ہی روکی جائیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ شہر میں مناسب بس اسٹینڈز ہی موجود نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ شہری مسائل سے وہ خود بخوبی واقف ہیں اور تمام متعلقہ فریقین کے جوابات آنے کے بعد کیس کو ایک ساتھ سنا جائے گا۔
درخواستوں میں چیف سیکرٹری سندھ، صوبائی حکومت، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک پولیس، نادرا، ایکسائز اور دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا ہے، جن میں شہریوں اور جماعتوں کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھاری جرمانے محض آمدن بڑھانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت نے 27 اکتوبر کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کا افتتاح کیا تھا، جس کے تحت ایک ہفتے میں ہی سیٹ بیلٹ، ہیلمٹ اور شیشوں سے متعلق خلاف ورزیوں پر تقریباً 30 ہزار چالان جاری کیے گئے جن کی مجموعی رقم کروڑوں روپے بنتی ہے۔
اگرچہ شہریوں اور سیاسی حلقوں نے ای چالان پر تنقید کی ہے، تاہم بعض حلقے اس بات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ اس نظام کے بعد ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں مقررہ لائن پر رکنے لگی ہیں اور موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔