اسلام آباد ہائیکورٹ: 190 ملین پاؤنڈ کیس کے جج کی ڈیپوٹیشن چیلنج، فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے سپریم کورٹ کی 2004 کی ایک اہم آبزرویشن کی بنیاد پر اپنے دلائل مکمل کیے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستوں پر اعتراضات عائد
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سردار سرفراز ڈوگر نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے مؤقف کو سن لیا گیا ہے، اس پر مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ معاملہ ہائیکورٹ کی انسپکشن ٹیم کو بھجوایا جاسکتا ہے، کیونکہ سیشن کورٹ کے ججز سے متعلق معاملات اسی ٹیم کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے 2004 میں متعلقہ نوعیت کے معاملات پر آبزرویشنز دی تھیں، جبکہ جس جج کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا ہے وہ اسلام آباد میں ڈیپوٹیشن پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری سے متعلق مقدمہ جاری رکھ سکتی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے اسی 3 سالہ ڈیپوٹیشن کو چیلنج کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دلائل سن لیے گئے ہیں اور عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔
چیف جسٹس کے مطابق جج ناصر جاوید رانا لاہور ہائیکورٹ کے ماتحت ہیں، اس لیے ان کیخلاف کارروائی کا دائرہ اختیار وہیں بنتا ہے۔ ہمارا کام یہاں ان کی ڈیپوٹیشن کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پاؤنڈ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ جج ناصر جاوید رانا جسٹس سردار سرفراز ڈوگر چیف جسٹس ڈیپوٹیشن سپریم کورٹ سیشن کورٹ لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ کیس اسلام ا باد ہائیکورٹ جج ناصر جاوید رانا جسٹس سردار سرفراز ڈوگر چیف جسٹس ڈیپوٹیشن سپریم کورٹ سیشن کورٹ لاہور ہائیکورٹ اسلام آباد چیف جسٹس
پڑھیں:
سہیل آفریدی کی الیکشن کمیشن نوٹس کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
—فائل فوٹوپشاور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی الیکشن کمیشن نوٹس کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سہیل آفریدی کی الیکشن کمیشن نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل بینچ نے کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نوٹس میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ نے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے، خود نوٹس میں کہا گیا ہے جلسہ حویلیاں میں تھا جو این اے 18 کی حدود میں نہیں، نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی۔
وزیراعلیٰ کے وکیل نے جلسے میں کی گئی تقریر کی ٹرانسکرپشن پڑھ کر سنائی اور کہا کہ وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ کوئی دھاندلی کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
خط کے متن کے مطابق وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی این اے 18 ہری پور میں امیدوار کی الیکشن مہم کا حصہ بنے، امیدوار عمر ایوب کی اہلیہ ہیں، وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی تقریر الیکشن ایکٹ کے خلاف ہے، وزیرِ اعلیٰ کے پی نے ڈسٹرکٹ انتطامیہ، پولیس اور الیکشن حکام کو دھمکی دی۔
جسٹس وقار احمد نے کہا کہ آپ کے خلاف الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی تو نہیں کی، آپ الیکشن کمیشن کی کارروائی میں شامل ہوجائیں، تھوڑا انتظار کریں۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن کوئی سخت ایکشن لے تب ہمارے پاس آئیں، آپ اپنے لیے مسائل خود پیدا کرتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف 2 کارروائیاں چل رہی ہیں، ایک کارروائی ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفس اور دوسری الیکشن کمیشن کی ہے، پہلے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ کارروائی مکمل کرے پھر الیکشن کمیشن کرے، الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کو بائی پاس کر کے نوٹس دیا، الیکشن کمیشن کے پاس اس کا اختیار نہیں۔
الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے، انتخابات کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے عملے کو دھمکانا بھی ضابط اخلاق کی خلاف ورزی میں آتا ہے، الیکشن کمیشن نے باقی امیدواروں کو بھی نوٹسز دیے، بلاامتیاز کارروائی کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ اداروں پر اعتماد کریں ہم نے ابھی کوئی ختمی فیصلہ نہیں کیا۔
جسٹس سیدارشد علی نے الیکشن کمیشن کے نمائندے استفسار کیا کہ ابھی تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ کو نااہل یا کام سے نہیں روکا؟
جسٹس ارشد علی نے وزیراعلیٰ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے تحفظات کیا ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن وزیراعلیٰ کے خلاف فوجداری سمیت کوئی بھی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ ہم اس میں آرڈر کرتے ہیں۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔