اسلام ٹائمز: بلتستان کی یخ بستہ فضاؤں میں المیثم ٹرسٹ کی یہ مسلسل جدوجہد اس عملی عزم کا ثبوت ہے کہ دنیا میں اصل حرارت آگ یا دھوپ سے نہیں، انسان کے جذبۂ خدمت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اس خاموش حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگر نیت سچی ہو اور قدم اخلاص سے اٹھیں تو ایک چھوٹی سی کاوش بھی کئی گھروں میں راحت، محبت، امید اور عزت کی روشنی بن کر پھیل جاتی ہے۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اس سفرِ خیر کا حصہ بنے، تاکہ سردیاں چاہے جتنی سخت ہوں، انسانیت کا دامن ہمیشہ گرم رہے۔ تحریر: آغا زمانی

بلتستان کی برف پوش وادیوں میں جہاں سرد ہوائیں زندگی کے پہیے کو سست کر دیتی ہیں، وہیں انسانیت کی حرارت لیے ایک روشن کارواں مسلسل سفر میں ہے اور اس کاروان کو المیثم ٹرسٹ کہتے ہیں۔ یہ ادارہ نہ صرف محتاج گھروں کے چولہے جلانے کے لیے سوختنی لکڑی اور راشن پہنچاتا ہے بلکہ عزتِ نفس کی پاسداری، خدمتِ خلق کے آداب، سماجی شعور اور منظم رفاہی کاموں کی نئی مثال قائم کرتا ہے۔ 2009ء میں اخلاص اور ذمہ داری کے ساتھ رکھے گئے اس ادارے کے سنگِ بنیاد سے لے کر آج تک کا سفر یوں ہے، جیسے بلتستان کی برفیلی فضا میں امید کے چراغ ایک ایک کرکے روشن ہوتے گئے ہوں۔ سادات اور غیر سادات مستحقین کی مدد، سینکڑوں شادیوں کا انعقاد، تعلیمی وظائف، موسمی امدادی پیکجز اور قومی سطح پر ایوارڈز۔۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدمت جب خلوصِ نیت، نظم، عزم، وحدت اور احترام کے ساتھ کی جائے تو سردیوں کی شدت بھی دلوں کی گرمی کو ماند نہیں کرسکتی۔

بلتستان کی وادی میں سردیوں کا آغاز ہمیشہ سخت آزمائش لے کر آتا ہے۔ پہاڑوں پر جمتی برف، یخ بستہ ہوائیں اور کم ہوتے وسائل، یہ سب ملا کر غریب گھرانوں کی زندگی کو مزید دشوار بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ہاتھ مدد کے لیے بڑھ جائے تو یہ صرف امداد نہیں بلکہ امید کی ایک روشن شمع بن جاتا ہے۔ المیثم ٹرسٹ پاکستان بھی انہی روشنی بانٹنے والوں میں سے ایک ہے، جو ہر سال کی طرح اس سال بھی بلتستان کے مستحق خاندانوں کے لیے سہارا بن کر سامنے آیا ہے۔ اس خدمتِ خلق کے سلسلے کا تازہ باب سکردو میں رقم ہوا، جہاں المیثم ٹرسٹ نے سرد موسم کے آغاز پر 50 مستحق سادات خاندانوں میں سوختنی لکڑی اور ایک ماہ کا راشن تقسیم کیا۔ اس سے پہلے مرحلے میں غیر سادات سمیت 100 خاندانوں میں لکڑی فراہم کی جا چکی تھی۔

یوں مجموعی طور پر اس وقت تک 150 خاندانوں کی عملی مدد کی جا چکی ہے، جو اس ٹرسٹ کی مسلسل اور باقاعدہ فلاحی حکمتِ عملی کی عکاس ہے۔ تقسیم کے موقع پر المیثم ٹرسٹ (رجسٹرڈ) کے چیئرمین ممتاز علی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے مرحلے میں 50 سادات خاندانوں کو نہ صرف سوختنی لکڑی دی گئی بلکہ ان کے گھروں میں ایک ماہ کا راشن بھی پہنچایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ مرحلہ قائدِ ملتِ جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ شیخ اکمل حسین طاہری کی خصوصی مالی معاونت سے مکمل ہوا، جن کی سخاوت نے درجنوں گھروں کے چولہے روشن کر دیئے۔ ٹرسٹ کی انتظامیہ نے ان شخصیات کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کیا۔

ممتاز علی نے گفتگو کے دوران اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ دسمبر میں مزید 100 مستحق خاندانوں کو سوختنی لکڑی دی جائے گی، جس کے لیے مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سردی کی شدت جس طرح بڑھتی ہے، اسی طرح غریب خاندانوں کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں صاحبِ استطاعت افراد کا ذمہ دارانہ کردار نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ضرورت مندوں کے لیے زندگی آسان بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ بلتستان کے برف پوش علاقوں میں جہاں ہر گھر کا چولہا لکڑی کی حرارت کا محتاج ہے، وہاں المیثم ٹرسٹ کے یہ اقدامات محض امداد نہیں بلکہ ایک معاشرتی احساسِ ذمہ داری، یکجہتی اور حقیقی خدمت کا عملی اظہار ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ مخیر حضرات اس کارِ خیر میں اسی طرح شریک رہیں گے، تاکہ ٹرسٹ کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہے بلکہ مزید مؤثر انداز میں آگے بڑھ سکے۔ ضرورت مندوں تک بروقت مدد پہنچانا ہی دراصل وہ مشن ہے، جسے المیثم ٹرسٹ اپنی شناخت بنا چکا ہے اور یہ شناخت خدمت، محبت، ایثار، قربانی اور انسان دوستی کے بے مثال جذبے سے عبارت ہے۔

اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں جب روزمرہ ضروریات عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں، المیثم ٹرسٹ کی جانب سے 150 مستحق خاندانوں کی اعانت، جن میں 50 مستحق سادات کے لیے سوختنی لکڑی کے ساتھ راشن اور 100 غیر سادات گھرانوں کے لیے سوختنی لکڑی واقعی ایک بڑی خدمت اور عظیم اجر کا وسیلہ ہے۔ ایسے نیک کام انجام دینے والے افراد نہ صرف ثواب کے مستحق ہیں بلکہ معاشرے کی سطح پر بھی لائقِ تحسین ہیں، کیونکہ انہوں نے مشکل ترین موسم میں درجنوں گھروں کو سہارا فراہم کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے معاشرے میں ضرورت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور 150 خاندانوں کی یہ مدد ایک بنیادی ضرورت کو پورا کرنے میں شاید ناکافی محسوس ہو، مگر اس کے باوجود یہ عمل ایک روشن مثال ہے۔ نیکی کا آغاز ہمیشہ کسی چھوٹے قدم سے ہوتا ہے اور یہی قدم بڑے دریائے خدمت کی بنیاد بنتا ہے۔

ہمیں اجتماعی طور پر اس احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف ادارے یا چند اشخاص ہی معاشرہ نہیں سنبھال سکتے۔ محلے، گلی اور قصبے کی سطح پر ہمیں اپنے اردگرد کے مستحقین کو پہچان کر ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی، تاکہ ضرورت مندوں کی مشکلات کم کی جا سکیں اور معاشرہ باہمی تعاون کے خوبصورت رنگوں سے آراستہ ہو۔ انفاق اور ضرورت مندوں کی مدد اسلام کی روح ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنے بندوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا کہ ''سب سے بہترین انسان وہ ہے، جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔'' مدد، چاہے تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، نہ صرف محتاج کے دل سے بوجھ ہٹاتی ہے بلکہ عطا کرنے والے کے رزق میں برکت، دل میں سکون اور زندگی میں وسعت پیدا کرتی ہے۔

نیکی دراصل دینے کا نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے کا نام ہے۔ تاہم ایک نہایت اہم اور لطیف نکتہ اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے اور وہ ہے مستحق افراد کی عزتِ نفس۔ ہماری برادری میں بہت سے غیرت مند مرد و خواتین ایسے ہیں، جو شدید مجبوری کے باوجود تصویر کھنچوانے کی شرط کی وجہ سے امداد لینے سے گریز کرتے ہیں۔ راشن یا لکڑی کی تقسیم کے وقت تصاویر لینا بظاہر ایک دستاویزی ضرورت سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ عمل کئی افراد کے لیے تکلیف دہ اور عزتِ نفس کو مجروح کرنے والا ہوتا ہے۔ بعض لوگ مجبوری کے تحت ایک بار تصویر کھنچوا لیتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ وہ مخصوص امدادی قطاروں کا حصہ بننے میں ہچکچاہٹ کھو دیتے ہیں، جو کہ ایک منفی اور غیر ضروری تبدیلی ہے۔ اسی لیے راقم کا خلوص بھرا مشورہ ہے کہ مخیر حضرات اس عمل پر نظرِثانی کریں۔ اصل خدمت وہ ہے، جس میں مدد لینے والے کی عزت محفوظ رہے اور اس کے احساسِ وقار کو ٹھیس نہ پہنچے۔

اگر ضرورت ہو تو صرف گھر کے سربراہ کے شناختی کارڈ کی کاپی لی جائے، یہی کافی اور باوقار طریقہ ہے۔ خاص طور پر سادات اور مستحق خانوادگانِ رسالت (ص) کی ناموس اور عزت کا ہر حال میں احترام ضروری ہے۔ اگر آپ مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اسے بہترین اور باعزت انداز میں انجام دیں۔ نیکی وہی ہے، جو دلوں کو جوڑے، نہ کہ احساسِ شرمندگی کا بوجھ ڈالے۔ خدمت کی راہ میں چلتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ مدد کا مقصد صرف اشیاء پہنچانا نہیں بلکہ دلوں کو سہارا دینا اور محرومیوں کے مارے لوگوں کو عزت کے ساتھ جینے کا حوصلہ دینا ہے۔ یہی ثواب کا باعث ہے، یہی خدمت ہے، یہی انفاق ہے اور یہی ہمارے معاشرے کے حسن کی اصل بنیاد ہے۔ المیثم ٹرسٹ پاکستان (رجسٹرڈ) کی داستان محض چند رفاہی سرگرمیوں کا نام نہیں بلکہ ایسے سفر کا عنوان ہے، جو اخلاص، تنظیم، خدمت اور انسان دوستی کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ بلتستان کی یخ بستہ وادیوں میں جس ادارے نے مدد، حرارت اور امید کی شمع روشن کی، اس کی بنیاد بھی نہایت باوقار انداز میں پڑی۔

4 اکتوبر 2009ء کو اسلام آباد میں علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ شیخ محسن علی نجفی (رح) نے المیثم ٹرسٹ کو باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کیا۔ اس کے بعد بھی ادارے کے سفر کو وہی رجالِ خدمت ملتے رہے، جنہوں نے اسے قدم قدم پر مضبوط کیا۔ شگر چھوترون کے آغا مبارک الموسوی (جو اس ادارے کے صدر بھی رہے)، کھرمنگ طولتی کے شیخ سلطان نجفی، گول کے آغا سید عنایت الموسوی اور برادر ممتاز علی اس ٹرسٹ کے اولین روحِ رواں اور عملی بنیاد رکھنے والے افراد تھے۔ ممتاز علی کو ٹرسٹ کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور آج تک وہ اسی عزم اور اخلاص کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 2012ء سے ادارے نے تنظیمی وسعت اختیار کرنا شروع کی۔ اس سال علامہ شیخ یعقوب اخوندی ایڈووکیٹ، غلام نبی اور مولانا علی رضا نے المیثم ٹرسٹ میں شمولیت اختیار کی۔ 2013ء میں معروف سماجی شخصیت حاجی مسلم حسین، سید حیدر شاہ، مولانا عابد اور مولانا شیخ شمس الدین بھی اس کارواں کا حصہ بنے۔ یوں چند افراد سے شروع ہونے والی خدمت کی روشنی ایک منظم اور مؤثر ادارے کی شکل اختیار کرتی گئی۔

المیثم ٹرسٹ پاکستان (رجسٹرڈ) صرف ایک یا دو کاموں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک ہمہ جہت فلاحی ادارے کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اب تک 1046 مستحق جوڑوں کی شادی کرائی جا چکی ہے، جو پورے علاقے کے لیے بے مثال ریکارڈ ہے۔ ہر سال 15 سے 30 بچوں کو تعلیمی وظائف فراہم کیے جاتے ہیں۔ رمضان پیکج اور سوختنی لکڑی پیکج جیسے مستقل رفاہی پروگرام بھی اسی ٹرسٹ کے تحت چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی متعدد چھوٹے بڑے شعبوں میں خدمات کا سلسلہ جاری ہے، جن میں مقامی ضرورتوں کے مطابق تعاون اور مدد فراہم کی جاتی ہے۔ 10 دسمبر 2021ء کو ہیومن رائٹس کی جانب سے پاکستان نیول ایوارڈ کے لیے پورے گلگت بلتستان سے المیثم ٹرسٹ کو نامزد کیا گیا۔ کراچی میں اس ایوارڈ کو علامہ شیخ ذاکر حسین مدبر نے وصول کیا اور یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ بلتستان میں جو کام سب سے نمایاں اور مؤثر انداز میں ہو رہا ہے، وہ المیثم ٹرسٹ کے ذریعے ہو رہا ہے۔

الحمدللہ اسی خدمت اور شفافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 23 مارچ 2026ء کے ایک بڑے ایوارڈ کے لیے بھی دوبارہ پورے گلگت بلتستان سے المیثم ٹرسٹ کو منتخب کیا گیا ہے۔ یہ مسلسل نامزدگیاں ادارے کی نیک نیتی، اعتماد اور کامیابی کا ثبوت ہیں۔ المیثم ٹرسٹ اپنے ماضی پر نہیں رکتا بلکہ مستقبل کی طرف بھی اسی جذبے سے قدم بڑھا رہا ہے۔ 6 مئی 2026ء کو 50 مستحق جوڑوں کی اجتماعی شادی کا عظیم پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، جو ان شاء اللہ مقررہ تاریخ پر منعقد ہوگا۔ یہ منصوبہ اس ادارے کی مسلسل جدوجہد، استقامت اور انسانیت دوستی کا مظہر ہے۔ بلتستان کی یخ بستہ فضاؤں میں المیثم ٹرسٹ کی یہ مسلسل جدوجہد اس عملی عزم کا ثبوت ہے کہ دنیا میں اصل حرارت آگ یا دھوپ سے نہیں، انسان کے جذبۂ خدمت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اس خاموش حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگر نیت سچی ہو اور قدم اخلاص سے اٹھیں تو ایک چھوٹی سی کاوش بھی کئی گھروں میں راحت، محبت، امید اور عزت کی روشنی بن کر پھیل جاتی ہے۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اس سفرِ خیر کا حصہ بنے، تاکہ سردیاں چاہے جتنی سخت ہوں، انسانیت کا دامن ہمیشہ گرم رہے۔ آمین

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: المیثم ٹرسٹ کی خاندانوں کی سوختنی لکڑی بلتستان کی ثبوت ہے کہ نہیں بلکہ ممتاز علی علامہ شیخ فراہم کی ہیں بلکہ ادارے کی ہے بلکہ اور عزت ٹرسٹ کے کا ثبوت یخ بستہ کے ساتھ کے لیے کا حصہ اور یہ ہے اور

پڑھیں:

آئینی ترمیم اور قومی سمت ایک فکری جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251124-03-3
آئین کسی ریاست کا محض قانونی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ وہ قومی بصیرت، اجتماعی سمت اور فیصلہ سازی کے بنیادی تصور کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں ماضی کی آئینی ترامیم جیسے چوبیسویں، پچیسویں اور حالیہ ستائیسویں ترمیم ہمیشہ کسی نہ کسی انتظامی، سیاسی یا وفاقی ضرورت کو سامنے رکھ کر کی گئیں، مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ترمیم صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل کا اشارہ ہوتی ہے، اور اس کی کامیابی اس وقت مکمل مانی جاتی ہے جب وہ قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکری اتفاقِ رائے کا حصہ بھی بن جائے۔ حالیہ ترمیم پارلیمانی اکثریت سے منظور ضرور ہوئی، تاہم اس کے بعد جس نوعیت کا مکالمہ سامنے آیا، اس نے یہ پہلو نمایاں کیا کہ قانونی طور پر فیصلہ مکمل ہو جانے کے باوجود، اس کی حقیقی قبولیت تب تک قائم نہیں ہوتی جب تک وہ ادارہ جاتی توازن، عدالتی خودمختاری اور عوامی اعتماد کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔

سرکاری موقف کے مطابق اس ترمیم کا مقصد نظم و نسق کو بہتر بنانا اور جدید ریاستی تقاضوں کے تحت فیصلہ سازی کو مؤثر کرنا ہے، مگر آئینی و قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا یہ تبدیلی اختیارات کی ساخت میں ایسا رخ متعین کر رہی ہے جو مستقبل میں اداروں کے درمیان توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بعض اعلیٰ آئینی شخصیات کی جانب سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے اصولی موقف نے بھی اس بحث کو مزید گہرائی دی، جسے کچھ اہل ِ فکر نے اس تناظر میں دیکھا کہ آئین پر اعتماد صرف قانونی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی توازن سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر عوام براہِ راست ایسے مباحث میں شامل نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کی ترجیحات معاشی دباؤ اور روزمرہ زندگی کے تقاضوں سے وابستہ ہوتی ہیں، تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ فیصلے جو کسی قوم کی لاعلمی میں قبول ہو جائیں، ان کا اثر سب سے پہلے اسی معاشرے کی روزمرہ زندگی پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہی سوال اب سامنے آ رہا ہے کہ آیا یہ ترمیم مستقبل میں ہم آہنگی اور مؤثریت لائے گی یا کسی نئے فکری موڑ کا آغاز کرے گی۔

قومی پالیسی کے فیصلے اس وقت دیرپا ثابت ہوتے ہیں جب وہ صرف پارلیمانی اکثریت کے زور پر نہیں بلکہ ذمے دارانہ سوچ، اجتماعی شعور اور اداروں کی باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کیے جائیں۔ نئی نسل اگر آئینی عمل کو جذباتی ردِعمل کے بجائے تجزیاتی نقطہ ٔ نظر سے دیکھے، تو یہی مباحث آئندہ اصلاح اور فکری بلوغت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

آخرکار، آئین تبدیل ہو سکتا ہے لیکن سمت وہی بدلتی ہے جب فیصلہ شعور کے ساتھ کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات ایک ترمیم قانون سے بڑھ کر آنے والے وقت کی سوچ کو تشکیل دیتی ہے، اور ایسے لمحوں میں قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں رہتا بلکہ راستے متعین کرنے کی امانت بن جاتا ہے۔

رمیصاء عبدالمھیمن سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے دیا
  • اجتماعِ عام؛ ایک نئے دور کا نقطہ ٔ آغاز
  • سردیوں میں جسم کو طاقت اور حرارت دینے والی قدرتی غذائیں
  • بیلٹ باکس کا پیغام، پاکستان کو فتنہ فساد نہیں، شاندار مستقبل چاہیے: مریم نواز
  • مریم نواز کا ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ کی شاندار کامیابی پر اظہار تشکر
  • آئینی ترمیم اور قومی سمت ایک فکری جائزہ
  • اجتماع عام کا اختتام پر روڈ میپ کا اعلان
  • شعاع النبی کی خدمات یاد رکھی جائیں گی‘شمس سواتی
  • علامہ اقبال: فکر، فن اور بصیرت کے منفرد سفر کا زندہ مکالمہ