علامہ اقبال: فکر، فن اور بصیرت کے منفرد سفر کا زندہ مکالمہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
اسٹنٹ پروفیسر ،ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ ، نمل یونیورسٹی، کراچی کیمپس
مختلف اشیاء کی نمائش کے ایونٹ تفریح کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ہماری معلومات میں اضافے اور آگاہی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ یہ ابھی ایک ایسی ہی نمائش کا احوال ہے۔
یومِ اقبال کے موقع پر اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری میں ایک منفرد نمائش کا آغاز ہوا، جو علامہ محمد اقبال کی زندگی، شاعری اور فلسفے پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ نمائش محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے، جو موجودہ نسل کو شاعرِمشرق کے خیالات اور ان کے دیرپا اثرات سے روشناس کراتا ہے۔ نمائش 10 نومبر سے 30 نومبر تک صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک عوام کے لیے کھلی رہے گی۔
اس منفرد نمائش نے زائرین کو محض دیکھنے والے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک فعال شریکِ مکالمہ کی طرح شاعرِ مشرق کی فکری دنیا میں لے جانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ نمائش زائرین کو فلسفی شاعر کے خیالات اور ان کے غیرمعمولی زندگی کے سفر سے روشناس کراتی ہے۔
اس نمائش کا مقصد صرف علامہ اقبال کی زندگی کی جھلکیاں دکھانا نہیں بلکہ اُن کے فلسفے اور خیالات کو آج کے نوجوانوں کی بصیرت سے جوڑنا ہے، تاکہ وہ قومی اور عالمی سطح پر ان کے پیغام کی اہمیت کو محسوس کرسکیں۔ نمائش کا اختتام اقبال کی شاعری کے لیے وقف ایک گہری فکری اور روحانی پیشکش پر ہوتا ہے، جس میں قرآنی عکاسی کے ذریعے ان کے کام کی روحانی بنیاد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ نمائش دراصل ایک علمی و تخلیقی سفر ہے، جہاں ماضی اور حال کے درمیان، شعر و خیال اور رنگ و صورت کے درمیان ایک پراثر رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ زائرین نہ صرف اقبال کے کلام کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ اْس کے اثرات کو معاصر فنون کے ذریعے محسوس بھی کر سکتے ہیں۔
اقبال کی زندگی کے دروازے پر پہلی دستک -ایک فکری سفر
نمائش کا پہلا حصہ اقبال کی ابتدائی زندگی اور فکری ارتقا کا احاطہ کرتا ہے۔ نایاب تصاویر، ذاتی دستاویزات اور اْن کے تعلیمی و ادبی سفر کی ٹائم لائن زائرین کو بتاتی ہے کہ سیالکوٹ کے ایک حساس دل رکھنے والے طالبِ علم نے کس طرح یورپ کی دانش گاہوں میں علم کے نئے جہان دریافت کیے، فلسفہ پڑھا، شاعری کو وسیلہ بنایا اور پھر اسی شعور کو اپنی قوم کی اجتماعی بیداری کا ذریعہ بنا دیا۔
تصاویر اور پینلز میں اقبال کا خاندانی ماحول، اُن کے اساتذہ سے تعلقات، یورپ میں گزارا ہوا وقت، اور وطن واپسی کے بعد کا فکری سفر اس طرح نمایاں کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا محسوس کرتا ہے جیسے وہ شاعر کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو—ان کے اندرونی تضادات، ان کی تلاش، ان کا سوال، ان کا جواب… سب کچھ سامنے کھلتا جاتا ہے۔
اقبال کے تعلیمی اور ادبی سفر کی ٹائم لائن ہر عمر کے زائرین کے لیے ایک تعلیمی تجربہ ہے۔ یہاں اُن کی ابتدائی تحریروں، نظموں اور فلسفیانہ نکات کی تفصیل دی گئی ہے، جو بعد میں ان کے عظیم خیالات اور نظریات کی بنیاد بنی۔
ذاتی اشیا
نوادرات جو شاعر مشرق کی زندگی و سانسوں کی خوشبو لیے ہوئے ہیں۔
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اس شاعر کی بچپن کی یادیں، تعلیمی سفر، اساتذہ کے ساتھ تعلقات، اور یورپ میں فلسفہ و شاعری کے مطالعے کی جھلکیاں نایاب تصاویر اور تعارفی پینلز کی صورت میں پیش کی گئی ہیں۔ یہ حصہ دیکھنے والوں کو محسوس کراتا ہے کہ وہ شاعر کے ساتھ اس کے سفر میں شریک ہیں۔ نمائش میں اقبال میوزیم جاوید منزل سے لائی گئی ذاتی اشیا بھی شامل ہیں، جن میں اُن کا قلم، چشمہ اور ذاتی ڈائری شامل ہیں۔ یہ اشیا صرف تاریخی یادگاریں نہیں بلکہ ان کے وجود کی جھلکیاں ہیں جو دیکھنے والوں کے احساسات کو چھو جاتی ہیں۔ قلم کی ہر حرکت میں ایک پوری قوم کے مستقبل کا عکس نظر آتا ہے، اور ڈائری کے صفحات شاعر کی فکری جستجو کی کہانی سناتے ہیں۔
اقبال کی شاعری—لفظ اور روشنی کا امتزاج
نمائش کا سب سے دل کش حصہ اقبال کی شاعری پر مبنی ہے۔ بڑے خطاطی پینلز پر بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے منتخب اشعار کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ آج بھی اسی شدت کے ساتھ دلوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔
نمائش میں ایک آڈیو-ویڈیو کارنر بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں پیشہ ورانہ ریکارڈنگ کے ذریعے اقبال کے اشعار اور ان کی قرآنی تعبیرات سنائی جاتی ہیں۔ یہ تجربہ زائرین کو شاعری کی روحانی اور فکری گہرائی تک لے جاتا ہے۔ ہر لفظ میں ماضی اور حال کی گونج محسوس ہوتی ہے، اور قاری کو شاعر کے کلام کے ساتھ ایک فعال مکالمے کا موقع ملتا ہے۔
فکرِاقبال کی خودی کے فلسفے کا وہ چراغ جو آج بھی جل رہا ہے
اقبال کے تصورِ خودی اور الہام کی پیچیدہ تفہیم کو بصری پینلز اور انٹرایکٹو مواد کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ خودی کو صرف خود شناسی نہیں بلکہ عمل، غیرت، خودداری اور قومی شعور کے امتزاج کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہر پینل نوجوانوں کے لیے ایک دعوت ہے کہ وہ اپنے کردار اور قوم کی خدمت میں عملی حصہ ڈالیں۔
’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ سے منتخب اقتباسات کو نہایت نفاست سے بصری پینلز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ خودی کے تصور کی layered تفہیم—یعنی خودشناسی، خود داری، غیرتِ ملی، انسانیت کے ساتھ تعلق، اور عمل کا فلسفہ—ہر پینل سے جھلکتا ہے۔ بہت سے نوجوان یہاں کھڑے ہو کر دیر تک سوچتے رہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ یہ حصّہ اُن سے مکالمہ کرتا ہے۔ اقبال کا یہ پیغام کہ ’’قوموں کی تعمیر کردار سے ہوتی ہے، نعروں سے نہیں‘ آج بھی معاشرے کو سب سے زیادہ اسی نقطے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
زندگی کی ابتدائی جھلکیاں اور فکری سفر
نمائش کا آغاز اقبال کی ابتدائی زندگی، تعلیمی پس منظر اور ان کے فکری ارتقا کی داستان سے ہوتا ہے۔ نایاب تصاویر، دستاویزات اور تعلیمی سفر کی ٹائم لائن زائرین کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ سیالکوٹ کے ایک نوجوان نے کس طرح یورپ کے دانش گاہوں میں علم حاصل کیا، فلسفہ پڑھا اور پھر وطن واپسی کے بعد اپنے خیالات کو قومی شعور کی خدمت میں ڈھالا۔ ہر پینل، ہر تصویر ایک کہانی سناتی ہے—اقبال کی کشمکش، جستجو اور سوالات کی دنیا کے بارے میں۔
نوادرات اور ذاتی اشیاء
نمائش میں اقبال کی ذاتی اشیا کی تصاویر کو بھی جگہ دی گئی ہے جو نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتی ہیں بلکہ یہ ایک حساس انسان کی سوچ اور جذبے کا آئینہ بھی ہیں۔ یہ اشیا دیکھنے والوں کو یہ باور کراتی ہیں کہ ایک عظیم شاعر اور مفکر بھی روزمرہ کی چھوٹی چیزوں سے جڑا ہوا تھا، اور یہی چھوٹی چیزیں اس کے بڑے نظریاتی سفر کی بنیاد بنتی ہیں۔
شاعری کی جمالیاتی جھلکیاں
نمائش کا ایک اہم اور دل کش حصہ اقبال کی شاعری سے متاثرہ بصری پینلز پر مشتمل ہے۔ بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے منتخب اشعار بڑے سائز کے خطاطی پینلز پر پیش کیے گئے ہیں۔ آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے زائرین اقبال کے کلام کا وجدانی تجربہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، جہاں ہر لفظ میں شاعر کے جذبات اور فکری عروج کی جھلک نظر آتی ہے۔
فکرِاقبال اور خودی کا تصور
اقبال کے فلسفے کی بنیاد خودی کے تصور پر ہے۔ اس نمائش میں بصری پینلز کے ذریعے یہ تصور زندگی کی مختلف جہتوں میں پیش کیا گیا ہے۔ خودی کا مطلب صرف ذاتی عزت و وقار نہیں بلکہ اجتماعی شعور، اخلاقی ذمے داری اور قوم کی تعمیر کا فلسفہ بھی ہے۔ ہر پینل دیکھنے والے کو غوروفکر پر مجبور کرتا ہے کہ کیسے ایک فرد اپنی ذات اور کردار کے ذریعے معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
یوم اقبال کی یاد کا جشن۔آرٹ کے ذریعے خراجِ تحسین
اس نمائش کی ایک نمایاں جھلک علامہ اقبال کے شاندار مجسمے کی صورت میں ہے، جسے معروف فنکار فکیرو سولنکی نے تیار کیا۔ اس کے علاوہ، معاصر فنون کی تخلیقات بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں قیدیوں اور دیگر شاگردوں کی جانب سے تیار کردہ پینٹنگز شامل ہیں۔ معروف مصور سکندر جوگی نے اپنے ان شاگردوں کو اقبال کی شاعری پر بصری ردعمل پیدا کرنے کی راہ نمائی کی، جس سے ایک نیا تخلیقی مکالمہ جنم لیا۔
فن کار اور تخلیقی اظہار
نمائش میں مختلف انٹرایکٹو سرگرمیاں بھی شامل ہیں، جو زائرین کو براہِ راست تخلیقی عمل میں شامل کرتی ہیں۔ نوجوان فن کاروں کی قیادت میں پورٹریٹ بنانے کے سیشن، اسکول کے طلبہ کے لیے پوسٹر ڈرائنگ، اور اقبال کے فلسفے پر اسکالرز کی گفتگو شامل ہیں۔ کم مراعات یافتہ اسکولوں کے بچوں نے اس موقع پر لائیو آرٹ اور پوسٹر میکنگ میں حصہ لیا۔ یہ نمائش زائرین کے لیے علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری کے دیرپا اثرات سے جڑنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔ جس سے یہ پروگرام نہ صرف فکری بلکہ سماجی طور پر بھی معنی خیز بن گیا۔
نمائش میں شامل فن کاروں میں غلام جان، پیار علی، امجد، ساجد علی، عمران کرامت، سارہ رفیق، مسکان لاشاری، اُمِ لیلیٰ، ماہنور افضل اور عائشہ الطاف شامل ہیں۔ ان نوجوان فن کاروں نے اقبال کے اشعار اور خیالات کو منفرد رنگوں، علامتی اشکال اور تخلیقی ساختوں کے ذریعے نئے انداز میں پیش کیا۔ کہیں خودی کے فلسفے کو مجرد شکلوں میں ڈھالا گیا، تو کہیں اشعار کی گونج رنگوں اور بناوٹ میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ پینٹنگز صرف بصری اظہار نہیں بلکہ ایک فکری مکالمے کا ذریعہ بھی ہیں۔
اقبال اور نوجوان نسل
نمائش میں نوجوانوں کو شامل کرنے کے لیے متعدد انٹرایکٹو سرگرمیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ ان میں پورٹریٹ بنانے کے سیشن، پوسٹر ڈرائنگ اور ’’اقبال کی زندگی اور خیالات کی تعبیرات‘‘ پر علماء کی گفتگو شامل ہیں۔ یہ سرگرمیاں نوجوانوں کو نہ صرف اقبال کے فلسفے کے قریب لاتی ہیں بلکہ انہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
اقبال کا ادبی اور تاریخی مقام
نمائش میں اقبال کی ادبی اور تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ الٰہ آباد خطبہ، تحریکِ پاکستان کے حوالے سے تصاویر اور دستاویزات، اور ان کے دور کے دیگر اہم واقعات زائرین کو یہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح ایک شاعر نے نہ صرف ادبی دنیا بلکہ سیاسی اور سماجی شعور پر بھی اثر ڈالا۔
بین الاقوامی اور تاریخی پہلو
نمائش کا ایک سیکشن اقبال اور تحریکِ پاکستان سے متعلق ہے۔ یہاں الٰہ آباد کا مشہور خطبہ اور تاریخی تصاویر پیش کی گئی ہیں، جو پاکستان کے قیام میں ان کے وژن کی اہمیت واضح کرتی ہیں۔ اقبال کو صرف شاعر کے طور پر نہیں بلکہ ایک مصلح اور نظریاتی راہ نما کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس نے برصغیر کی اجتماعی بیداری اور قوم کی تعمیر کے تصورات دیے۔
معاشرتی اور روحانی پیغام
اقبال کی شاعری اور فلسفہ آج بھی معاشرتی، اخلاقی اور روحانی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کو خودی، غیرتِ ملی، اور خدمتِ خلق کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ نمائش بھی اسی پیغام کو عام کرنے کی ایک کوشش ہے، جس سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکے کہ کس طرح ایک فکری راہ نما نے اپنی زندگی اور کلام کے ذریعے معاشرے کی بہتری کا نقشہ بنایا۔
نمائش کی اہم سرگرمیاں
ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ڈاکٹر ارشد رضوی جیسے اسکالرز کی لیکچرز کے ذریعے فلسفی شاعر کے خیالات کی موجودہ دور میں اہمیت واضح کی گئی۔ یہ سیشنز زائرین کے لیے فکری مشق ہیں، جو اقبال کے پیغام کو عملی اور موجودہ دور کے تقاضوں سے مربوط کرتے ہیں۔
نمائش کے دوران متعدد ورکشاپس اور لیکچرز منعقد کیے گئے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ’’اقبال کی زندگی اور فکر کی تعبیرات‘‘ پر گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر ارشد رضوی نے ’’اقبال کے خیالات کی موجودہ دور میں اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالی۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے پوسٹر ڈرائنگ اور آرٹ سیشنز نے بچوں کو تخلیقی اظہار کا موقع دیا۔
اقبال ڈے/ویک کی تقریبات کے سلسلے میں منعقد کیے جانے والے نمائش کے شرکا سے اسکالرز نے ایس بی پی میوزیم و آرٹ گیلری، آئی آئی چندریگار روڈ، کراچی میں خطاب کیے۔
مقرر ین میں ڈاکٹر معین الدین عقیل – اقبال اکیڈمی نے ’’اقبال کی زندگی اور فکر کی تعبیرات – حیات و فکر کی نئی جہتیں‘‘ پر گفتگو کی جب کہ ڈاکٹر ارشد رضوی، سرسید یونیورسٹی، نے ’’اقبال کے خیالات کی موجودہ دور میں افادیت’’ کے موضوع پر نوجوانوں سے خطاب کیا۔
فکری ورثے کا خراجِ عقیدت
یہ نمائش محض ایک تاریخی یادگار نہیں، بلکہ ایک زندہ فکری مکالمہ ہے۔ علامہ اقبال کی سوچ، فلسفہ، اور شاعری آج بھی نوجوانوں کے دل و دماغ میں راہ نمائی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف فن اور تاریخ کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے بلکہ قارئین اور زائرین کو ایک فکری اور روحانی تجربہ فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر ارشد رضوی، سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’علامہ اقبال کے فکروفلسفے کو نئی نسل کے دلوں تک پہنچانے کے لیے ایسے علمی و فکری اجتماعات تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں۔ میوزیم کے سربراہ ڈاکٹر سکندر حیات ملک نے اقبال کے افکار کو ایک خوبصورت، منظم اور معنویت سے بھرپور پروگرام کی صورت میں جس حکمت اور سلیقے سے پیش کیا، وہ لائقِ صد ستائش ہے۔
زمانہ معاشی اور معاشرتی بے شمار تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، ایسے میں یہ محفلیں نہ صرف روشنی بانٹتی ہیں بلکہ ذہنوں میں سوال جگاتی، راستے دکھاتی اور شعور کو نئی جہتیں عطا کرتی ہیں۔ اس بامعنی پر وقار انداز میں شاعر مشرق یوم پیدائش کی مناسبت پر کی گئی اس کاوش پر ڈاکٹر سکندر حیات ملک اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اقبال کے تصور سے فکرو آگہی کی یہ شمع روشن رکھی ہے۔‘‘
یقیناً، اس نمائش نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا کلام اور فکر وقت کی قید سے آزاد ہے۔ ان کی شاعری اور فلسفہ آج بھی ہمارے لیے راہ نمائی، بصیرت اور تخلیقی تحریک کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کی یہ نمائش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شاعرِ مشرق کی بصیرت اور خودی کا فلسفہ محض مطالعے کا موضوع نہیں بلکہ عملی زندگی میں تبدیلی کی بنیاد بھی ہے۔
یہ نمائش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم نے اقبال کو پڑھا ضرور ہے مگر ان کی روحانی اور فکری گہرائی کو اپنے ساتھ مربوط نہیں کیا۔ ہم اُن کے پیغام سے جڑے ہوئے نہیں، اور اس نمائش کے ذریعے یہ خالی جگہ مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کا پیغام—خودی، غیرت، خدمت اور اخلاقی بلندی—ہمیں آج بھی ایک مضبوط معاشرہ اور متحرک نوجوان نسل کی تعمیر کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔
اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری میں یومِ اقبال کی یاد میں ترتیب دی گئی یہ نمائش ایک جامع تجربہ ہے—علم، فن، تاریخ اور روحانیت کا امتزاج، جو زائرین کو شاعرِمشرق کے فکری ورثے کے قریب لاتا ہے۔ یہ صرف ایک تاریخی تقریب نہیں، بلکہ ایک زندہ مکالمہ ہے جو نوجوانوں کو سوچنے، تخلیق کرنے اور اپنے کردار کے ذریعے قوم کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
نمائش کا اختتامی حصہ علامہ اقبال کی یاد میں تخلیق کردہ شاندار مجسمے، پورٹریٹس اور بصری فنون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ حصہ آرٹ کے ذریعے یاد اور خراجِ تحسین کا مظہر ہے۔ سکندر جوگی اور ان کے شاگردوں کی یہ تخلیقی کوشش شاعرِ مشرق کے پیغام کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ اسے آج کے معاشرتی اور ثقافتی سیاق و سباق میں زندہ کرتی ہے۔
اقبال کے پیغام کی روشنی میں یہ نمائش نہ صرف ماضی کے آثار کو محفوظ کرتی ہے بلکہ ایک روشن اور متحرک مستقبل کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہاں ہر زائر، ہر طالب علم، ہر فن کار اور ہر محقق اپنے اندر اقبال کے خیالات کے نئے رنگ اور نئے انداز تلاش کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر ارشد رضوی اقبال کی زندگی اقبال کی شاعری پیش کیا گیا ہے نہیں بلکہ ایک علامہ اقبال نوجوانوں کو میں پیش کیا نہیں بلکہ ا کی صورت میں بصری پینلز کی ابتدائی اور تاریخی اور روحانی ہیں بلکہ ا میں پیش کی نمائش کا ا ا رٹ گیلری ذاتی اشیا کے خیالات راہ نمائی میں اقبال زائرین کو زندگی اور خیالات کی اور ان کے نے اقبال کرتی ہیں کی تعمیر کے ذریعے کا ذریعہ شامل ہیں نمائش کے فراہم کر کے پیغام اقبال کا کی بنیاد اور فکری ایک فکری یہ نمائش کے ساتھ کے تصور کرتا ہے اور قوم خودی کے ہر پینل کرتی ہے اور فکر کرنے کی شاعر کے گئی ہیں کو شاعر ا ج بھی کی گئی کی یاد کے لیے سفر کی قوم کی کہ ایک
پڑھیں:
اجتماع عام 2025: اْٹھو جوانوں، بدل دو نظام!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-03-7
لاہور کی فضا ایک بار پھر انقلاب کی آہٹ سن رہی ہے۔ مینارِ پاکستان وہی تاریخی مقام جہاں کبھی 1940ء میں ایک خواب نے جنم لیا تھا، اب 2025ء میں ایک نئے عزم، ایک نئے سفر، اور ایک نئے نظام کے قیام کا گواہ بننے جا رہا ہے۔ اکیس، بائیس اور تیئس اکتوبر کے یہ دن محض تاریخ کے اوراق نہیں، بلکہ اْمید، بیداری اور تبدیلی کے نئے ابواب رقم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جب لاکھوں نوجوان، مزدور، طلبہ، علماء، اساتذہ، مائیں، بہنیں، اور بزرگ ایک ہی صدا میں پکار اٹھیں گے: ’’اْٹھو جوانوں، بدل دو نظام! اْٹھو جوانوں، ہے وقت ِ قیام!‘‘ یہ نعرہ محض سیاسی جوش نہیں بلکہ فکری بیداری اور روحانی انقلاب کا اعلان ہے۔ یہ اس قوم کے نوجوانوں کی للکار ہے جنہیں دہائیوں سے جھوٹے وعدوں، کھوکھلی جمہوریت اور مفاد پرست سیاست کے بوجھ تلے دبایا گیا۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام نے عوام کو غلام، اور جاگیردارانہ سیاست نے ان کے خوابوں کو قید کر رکھا ہے۔ اب وہ خاموش نہیں رہ سکتے، کیونکہ ان کے دلوں میں اقبال کی صدائیں جاگ اٹھی ہیں: ’’جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے، مرا عشق مری نظر بخش دے!‘‘
اجتماعِ عام 2025 صرف ایک اجتماع نہیں، بلکہ امت ِ مسلمہ کے شعور کی تجدید ِ عہد ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جو سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فکر و نظریے کی تسلسل ہے۔ وہ فکر جس نے غلام ذہنوں میں آزادی کی جوت جلائی تھی۔ آج وہی جماعت، وہی عزم، اور وہی مشن ایک بار پھر مینارِ پاکستان کے سائے میں نظامِ مصطفی کے قیام کے عہد کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ اجتماع اس بات کا اعلان ہے کہ اس ملک کا مستقبل کسی مغربی ماڈل، کسی سرمایہ دارانہ ڈھانچے یا کسی جاگیردارانہ سیاست میں نہیں بلکہ اسلامی نظامِ عدل و مساوات میں ہے۔ یہ اجتماع اس نوجوان کے لیے پیغام ہے جو تعلیم کے باوجود بے روزگار ہے، اْس مزدور کے لیے جو اپنی محنت کے باوجود بھوکا سوتا ہے، اْس ماں کے لیے جو اپنے بچوں کے علاج کے لیے در در ٹھوکریں کھاتی ہے، اور اْس طالب علم کے لیے جو خواب دیکھنے سے پہلے ہی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر انقلاب کا محور نوجوان ہوتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کے ساتھیوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ علیؓ، مصعبؓ، اسامہؓ، زبیرؓ یہ سب ایمان، یقین اور قربانی کے پیکر تھے۔ اسلام کی بنیاد جس نسل نے رکھی، وہ جوانی کی حرارت اور سوزِ یقین سے لبریز تھی۔ آج بھی وہی وقت لوٹ آیا ہے۔
پاکستان کا نوجوان سیاست سے مایوس نہیں وہ سیاستدانوں سے مایوس ہے۔ وہ انقلاب چاہتا ہے مگر خون خرابہ نہیں، وہ تبدیلی چاہتا ہے مگر اصولوں کے ساتھ۔ یہی نوجوان اجتماعِ عام میں منظم قوت بن کر ابھرنے جا رہے ہیں۔ ان کی للکار اس نظام کے خلاف ہے جس نے تعلیم کو کاروبار، صحت کو منافع، اور انصاف کو تجارت بنا دیا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو شعور یافتہ ہے، جو قرآن و سنت اور اقبال و مودودی کی فکر سے روشنی لے رہی ہے۔ اجتماعِ عام انہیں سمت دے گا۔ فکر کی سمت، نظم کی سمت، اور قیادت کی سمت۔
پاکستان کا قیام کسی زبان یا نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ لا الٰہ الا اللہ کے نعرے پر ہوا تھا۔ لیکن
78 برس بعد بھی ہم وہ نظام نافذ نہ کر سکے جو اس نعرے کا تقاضا تھا۔ ہم نے اسلام کو مسجد کی چار دیواری میں قید کر دیا، عدالتوں اور معیشت میں مغرب کی اندھی تقلید شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ملک مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور اخلاقی زوال کی تصویر بن چکا ہے۔ نظامِ مصطفی وہ نظام ہے جس میں عدل و مساوات کی ضمانت ہے۔ جس میں حکمران خادم ہوتا ہے، دولت گردش میں رہتی ہے، اور انصاف سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔رسولِ اکرمؐ نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا‘‘۔ یہ وہ عدل ہے جس نے مدینہ کو امن و انصاف کا گہوارہ بنایا۔ آج اسی عدل کی، اسی روحِ مصطفی کی، اور اسی نظام کی ضرورت ہے۔ اجتماعِ عام کا مقصد صرف ہجوم اکٹھا کرنا نہیں بلکہ ذہنوں کو منظم اور فکر کو زندہ کرنا ہے۔ یہ اجتماع یاد دلاتا ہے کہ قوموں کی تقدیر جلسوں سے نہیں بلکہ نظریات سے بدلتی ہے۔ یہاں شعور بانٹا جاتا ہے، سمت دی جاتی ہے، اور کردار تراشے جاتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا مطلب صرف حکومت بدلنا نہیں بلکہ سوچ، اقدار، اور ترجیحات بدلنا ہے۔ یہ کام صبر، قربانی اور استقامت مانگتا ہے۔ یہ راستہ مشکل ہے، مگر ہر وہ راستہ مشکل ہوتا ہے جو منزلِ حق کی طرف جاتا ہے۔ رکاوٹیں وہی ہیں جو ہمیشہ اہل ِ حق کے سامنے رہتی ہیں۔ مفاد پرست اشرافیہ، کرپٹ بیوروکریسی، لادین میڈیا، اور وہ طبقہ جو ظلم کے نظام سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب قوم بیدار ہو جائے، تو فرعون بھی لرز جاتے ہیں۔ یہ اجتماع اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اب قوم کا شعور غلام نہیں رہا۔ اب وہ سوال کرتی ہے، سوچتی ہے،
منظم ہوتی ہے، اور میدانِ عمل میں اُترنے کو تیار ہے۔ یہ اجتماع نوجوانوں کو پکار رہا ہے: آؤ! یہ ملک تمہارا ہے، اس کا مستقبل تمہارے ہاتھوں میں ہے۔اقبال نے جس نوجوان کا خواب دیکھا، مودودی نے اس کے لیے فکر کی بنیاد رکھی، اور آج جماعت ِ اسلامی اْس خواب کو حقیقت کا روپ دینے جا رہی ہے۔ یہ اجتماع مایوسی کے اندھیروں میں اْمید کا دیا ہے۔ یہ یقین دلاتا ہے کہ اگر نیت خالص ہو، سمت درست ہو، اور قیادت مخلص ہو تو کوئی طاقت تقدیر کے دھارے نہیں روک سکتی۔
وہی مینار جو 1940ء میں قراردادِ پاکستان کی علامت بنا، اب 2025ء میں عہد ِ انقلاب کا گواہ بننے جا رہا ہے۔ یہ مینار صرف پتھروں کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ امت کے شعور اور عزم کی علامت ہے۔ یہاں امت عہد کرے گی کہ اب خواب ادھورے نہیں رہیں گے۔ اب پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ بنے گا۔ عدل، امن، اور اخوت کا گہوارہ۔ یہ اجتماع اْس وعدے کی تجدید ہے جو ہم نے اپنے ربّ سے کیا تھا: کہ ہم اس کی زمین پر اس کا نظام نافذ کریں گے۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے، یہی بقاء کی ضمانت ہے۔ اب فیصلہ قوم کے ہاتھ میں ہے کیا ہم ظلم کے نظام کے ساتھ جینا چاہتے ہیں یا عدلِ مصطفی کے ساتھ کھڑا ہونا؟ کیا ہم تماشائی بن کر تاریخ کے کنارے بیٹھے رہیں گے یا کردار بن کر میدان میں اُتریں گے؟ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو منظم کریں، اپنے ایمان کو تازہ کریں، اور اپنی منزل طے کریں۔ یہ قوم جب متحد ہو جائے تو کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ مینارِ پاکستان ایک بار پھر گواہی دے گا یہ قوم زندہ ہے، بیدار ہے، اور اپنے ربّ کے وعدے پر یقین رکھتی ہے۔ اْٹھو جوانوں، بدل دو نظام! اْٹھو جوانوں، ہے وقت ِ قیام! اجتماعِ عام 2025 بیداریِ امت کا نیا سنگِ میل۔