اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اکتوبر ۔2025 ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرے گا؟ آج کی سماعت میں پاکستان بار کونسل کے 6 سابق صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل نہ ہوسکے، جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ پسند کریں یا نہ کریں، آرٹیکل 191 موجود ہے، فل کورٹ کا لفظ آرٹیکل 191 میں موجود نہیں، آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آئینی بینچ کے ججز ہی فل کورٹ کو مکمل کرتے ہیں؟ .

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی پاکستان بار کونسل کے 6 سابق صدور کے وکیل عابد زبیری عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے دلائل دیے دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا کسی جماعت کا حق ہوتا ہے کہ بینچ کو ہٹا کر دوسرا بینچ بنا دیا جائے؟ کیا ہم پابند ہیں کہ بینچ تبدیل کریں؟ کیا جماعت چاہتی ہے کہ ہمیں مخصوص بینچ، یا ججز دیے جائیں؟.

وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ کسی جماعت کا حق نہیں کہ مخصوص بینچ منتخب کریں، میں نے ہمیشہ فل کورٹ بنانے کا کہا جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیوں چاہتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا جائے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا آپ کے اپنے فیصلے ہیں کہ فل کورٹ ہونا چاہیے جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میں کتنے ججز ہیں؟ فل کورٹ ہو تو کیا ہوگا؟ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 24 ججز موجود ہیں، میں کسی جج کو غلط نہیں کہہ رہا، سب ججز عزت کے قابل ہیں.

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا آپ کی درخواست کیا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل موجود ججز کو ہی کیس سننا چاہیے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ کیوں چاہتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل ججز پر مبنی فل کورٹ بنے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو خود چیلنج کیا گیا ہے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا چیف جسٹس کا کیا ہوگا؟ کیا چیف جسٹس بینچ میں نہیں بیٹھیں گے؟ عابد زبیری نے کہا چیف جسٹس کو بینچ میں بیٹھنے کا خود فیصلہ کرنا ہوگا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بنے ہیں اگر 26 ویں آئینی ترمیم نہ ہوتی تو یحییٰ آفریدی چیف جسٹس نہ بنتے کیونکہ وقت مقرر تھا سینیئر پیونی کو چیف جسٹس ہونا تھا لیکن نہیں بن سکے ہم اگر بینیفیشری ہیں تو کیا ہم بینچ میں بیٹھ سکتے ہیں؟.

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا تو پھر کیس کو سنے گا کون؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا میں نے تو نہیں کہا کہ آپ 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفشری ہیں جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یعنی آپ کہہ رہے کہ 8 ججز بیٹھ کر کیس کا فیصلہ کریں گے تو غلط ہوگا، ہم 8 یہاں بیٹھیں یا فل کورٹ میں بیٹھیں، بات تو ایک ہی ہوگی نا، آپ کو لگتاہے کہ آئینی بینچ میں ابھی 8 ججز بیٹھ کر متعصب ہوجائیں گے؟ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنا ہے، اس پر اعتراض ہوگا تو فیصلہ کون کرئے گا؟ جو بھی آیا مخصوص ججز کا نہیں بتایا، بس فل کورٹ کا کہتے ہیں وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا فل کورٹ بیٹھتا ہے تو سب کا اجتماعی ذہن ہوتا ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کے ماتحت ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ پر بات نہیں کرتا، بینچ پر بات کرتاہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا فل کورٹ کو بھی بینچ ہی کہاجاتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کو بینچ نہیں کہا جاسکتا.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آرٹیکل 191 اے صرف آئینی بینچ سے متعلق ہے آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نامزد کرتا ہے، کیا ہم ایسے ججز کو شامل کرسکتے ہیں جو آئینی بینچ کا حصہ نہ ہوں، کیا آئینی بینچ فل کورٹ تشکیل دے سکتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرسکتا ہے، بات صرف آئینی بینچ کی ہورہی ہے، فل کورٹ بینچ نہیں ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم آئینی بینچ ہیں، آپ ہم سے فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے اگر ہمارا دائرہ اختیار نہیں تو جوڈیشل آرڈر کیسے پاس کرسکتے ہیں ہم صاف کہیں گے کہ دائرہ اختیار نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے استسفار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر پاس کرنے پر قدغن ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ فل کورٹ کا معاملہ سینئر پیونی جج کو بھیجا جائے گا؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ کا معاملہ پہلے چیف جسٹس کو جائے گا اگر چیف جسٹس معاملے کو دیکھنے سے معذرت کریں گے تو سینئر پیونی جج کو بھیجا جائے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو کیسے بھیجا جائے گا؟ چیف جسٹس روسٹر کے سربراہ نہیں ہیں.

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ فل کورٹ اور بینچ میں فرق ہے؟ دونوں میں فرق واضح کریں؟ بینچز کا کانسیپٹ کہاں سے آیا؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ جو دستیاب ججز ہوں گے ان پر مشتمل فل کورٹ ہوگا، اگر آپکا اختیار نہیں تو فل کورٹ آج تک بنے کیسے؟ چیف جسٹس نہ نہیں کرسکتے، چیف جسٹس سے آرڈر لے لیے جاتے ہیں، جوڈیشل آرڈر کے بعد چیف جسٹس نہیں کہہ سکتےکہ ف±ل کورٹ نہیں بنا سکتا.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس ف±ل کورٹ بنانے کے پابند ہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ کہیں پابندی نہیں کہ فل کورٹ نہیں بن سکتا، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اعتراض اٹھایا جارہا کہ چیف جسٹس اور موجودہ آئینی بینچ 26 ویں آئینی ترمیم کا نتیجہ ہیں، کیا آئینی بینچ فل بینچ کا آرڈر کر سکتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرے گا، بینچ کی تشکیل ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہوتاہے، چیف جسٹس اب ماسٹر آف دا روسٹر نہیں ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ پر اعتراض ہے تو کیسے جوڈیشل آرڈر پاس کر سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ ہم بطور آئینی بینچ بیٹھے ہیں، آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچ بنایا گیا، کیا چیف جسٹس کو ڈائریکشن دے سکتے ہیں کہ مخصوص ججز کو لگا دیں اور مخصوص ججز کو بینچ میں نہ لگائیں؟.

وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ کے پاس فل کورٹ کی تشکیل کی ڈائریکشن پاس کرنے کا اختیار ہے، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر آئینی بینچ ہے جس کے سامنے ایک ریگولر کیس مقرر ہے، کیا ہم سن سکتے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئینی بینچ ریگولر کیس نہیں سن سکتا، ریگیولر بینچ کو کیس بھیجے گا جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آئینی بینچ کیس سن تو سکتا ہے لیکن سننا نہیں چاہیے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اہم کیس ہے کبھی ترمیم کامیابی سے چیلنج نہیں ہوئی.

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پِک اینڈ چوز نہ کریں، اصول پر بات کریں جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فل کورٹ کی استدعا کرتے ہیں تو فل کورٹ کی تشکیل میں کہیں کوئی قدغن ہے؟ ماضی میں کئی بار فل کورٹ کی تشکیل ہوچکی ہے، فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں تھا، آپ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مبنی فل کورٹ چاہتے ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور کابینہ حکومت ہوتی ہے، چیف جسٹس اور ججز سپریم کورٹ ہوتے ہیں، آپ فل کورٹ چاہتے ہیں لیکن محدود کررہے ہیں، 24 ججز پر مبنی فل کورٹ کیوں نہیں کہہ رہے؟ آپ فلاں فلاں ججز پر مبنی فل کورٹ نہیں کہہ سکتے، آپ صرف فل کورٹ کی استدعا کریں، 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل والے ججز پر فل کورٹ چاہیے تو سپریم کورٹ سے کچھ ججز کو نکالنا ہوگا.

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہاکہ سپریم کورٹ سے ججز کو نکال دیں، دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے آپ چاہتے ہیں کہ چونکہ معاملہ آئینی ترمیم سے متعلق ہے اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ کے ذریعے معاملے پر تمام ججز کی اجتماعی دانش آجائے گی، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آپ بتائیں 17 ججز کا ہی فل کورٹ کیوں؟ 24 ججز کا کیوں نہیں؟ .

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ پسند کریں یا نہ کریں، آرٹیکل 191 موجود ہے، فل کورٹ کا لفظ آرٹیکل 191 میں موجود نہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو معاملہ بھیجیں کہ وہ فل کورٹ بنائیں، آرٹیکل 191 کے تحت اب چیف جسٹس کا اختیار ہی نہیں رہا جسٹس نعیم اختر افغان نے میزد کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 26 ویں ترمیم والے ججز کو فل کورٹ کا حصہ نہ بنائیں، آپ جن ججز کو فل کورٹ میں لانا چاہ رہے ہیں وہ ججز تو ہیں لیکن آئینی بینچ کے ججز نہیں، آرٹیکل 191 میں قدغن ہے، آئینی معاملات آئینی بینچ ہی سنے گا، آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آئینی بینچ کے ججز ہی فل کورٹ کو مکمل کرتے ہیں؟ آئندہ سماعت پر اس سوال کا جواب دیں بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ویں آئینی ترمیم سے قبل جسٹس محمد علی مظہر نے کے تحت آئینی بینچ بنا کہ 26 ویں آئینی ترمیم جسٹس امین الدین خان ججز پر مبنی فل کورٹ جوڈیشل آرڈر پاس کر نے استفسار کیا آپ نے استفسار کیا کہ جسٹس عائشہ ملک نے آپ کہہ رہے ہیں کہ ہیں کہ فل کورٹ آئینی بینچ کے کہ آئینی بینچ کیا چیف جسٹس ترمیم کے تحت کہ چیف جسٹس چیف جسٹس کو سپریم کورٹ فل کورٹ کی فل کورٹ کا فل کورٹ کو چاہتے ہیں آرٹیکل 191 سکتے ہیں کی تشکیل نہیں کہہ کورٹ میں نہیں کہ جائے گا سکتا ہے کیا ہم کے ججز ججز کو ہیں تو

پڑھیں:

190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، سیشن جج سے متعلق سپریم کورٹ کی 2004 کی آبزرویشن کی روشنی میں درخواست گزار کے دلائل مکمل ہوئے ۔چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے کہا کہ آپ کو سن لیا ہے ، اس پر آرڈر پاس کریں گے ، کیوں نہ معاملہ ہائی کورٹ کی انسپکشن ٹیم کو بھجوا دیا جائے ، سیشن کورٹ کے ججز کا معاملہ انسپکشن ٹیم کو بھجوایا جاتا ہے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو 2004 میں آبزرویشن دیں تھیں، جو نوٹی فکیشن آپ چیلنج کر رہے ہیں اس میں بظاہر کوئی غیر قانونی چیز نہیں۔انہوں نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے جج کو بحال کردیا تھا، آپ کو بڑے ادب سے سمجھا دیا ہے پھر بھی آپ کو مسئلہ ہے تو لاہور ہائی کورٹ چلے جائیں۔وکیل درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 7 نومبر کو پٹیشن پر نمبر لگا، آج 26 نومبر ہوگئی، اب تک تو فیصلہ ہونا چاہیے ، آپ چیف جسٹس ہیں، آپ کے پاس اختیارات ہیں، یہ جوڈیشری کا معاملہ ہے ۔وکیل نے کہا کہ کمپرومائز کرنے والوں کے نام کبھی تاریخ میں زندہ نہیں رہتے ، ہمیشہ اسٹینڈ لینے والوں کے نام زندہ رہتے ہیں، جس جج کی تعیناتی چیلنج کی وہ اس وقت مہنگی گاڑیوں میں آتے جاتے ہیں، آپ چیک کروائیں کچہری کی پارکنگ میں وی ایٹ اور بی ایم ڈبلیو گاڑیاں کس کی ہیں۔ریاض حنیف راہی نے کہا کہ آپ چیک کروائیں اتنی مہنگی گاڑیاں سیشن جج کیسے استعمال کر سکتا ہے ؟ ایک جوڈیشل افسر جس کے خلاف سپریم کورٹ کی آبزرویشن ہیں، وہ آگے بھی اتنے بڑے فیصلے دے گا، آپ بطور انتظامی کمیٹی بھی چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔وکیل ریاض حنیف راہی نے دوران سماعت راستوں کی بندش کا معاملہ بھی اٹھا دیا، اور کہا کہ پٹیشن دائر کی کہ پی ایس ایل کا آڈٹ نہیں ہوتا وہ درخواست مقرر ہی نہیں ہوئی، کیا آج پی ایس ایل کی وجہ سے شاہراہِ دستور پر ہم اپنی رسائی بھول جائیں۔انہوںنے کہا کہ میچز کے باعث صبح 8 بجے نکلتے ہیں 9 بجے تک یہاں لائن میں لگ کر آتے ہیں، کب تک ہم خاموش رہیں گے ، سائلین وکلا خوار ہو کر عدالت آتے ہیں۔دوران سماعت بھارتی فلم میں ایک دن کے وزیراعلیٰ کا تذکرہ بھی ہوا۔وکیل ریاض حنیف راہی نے کہا کہ میں نے ایک بھارتی فلم دیکھی، جس میں ایکٹر ایک دن کے لیے سی ایم بنتا ہے ، اس میں وہ بندہ صحیح پاور استعمال کرتا ہے ، عدالت بھی ایسے ہی اپنی جوڈیشل پاور کا خود استعمال کرے اور ان مسائل کو حل کروائے ۔چیف جسٹس سرفراز جی وہ فلم میں نے بھی دیکھی تھی، وہ جو سب کو معطل کرتا رہتا ہے ، آپ راستوں کی بندش کی پٹیشن دائر کریں، ہم اس کو الگ سے دیکھ لیں گے ۔وکیل نے کہا کہ آپ ایک اسپیشل بینچ بنا کر بے شک اپنے پاس لگا لیں، لیکن کچھ تو کریں۔جوڈیشری میں ہم کہاں کھڑے ہیں، پہلے اخبار کی بڑی خبر سپریم کورٹ کی ہوتی تھی اب کہاں ہے سپریم کورٹ؟، ہم آج بھی جوڈیشری کے ساتھ ہیں کل بھی ساتھ تھے ۔چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ راہی صاحب سنیے تو صحیح، ایک تو آپ کی اسپیڈ بہت ہے ، آپ بات سنتے ہی نہیں، جس جج کی تعیناتی آپ نے چیلنج کی وہ یہاں ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں، وہ لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت تھے ، وہی ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، ہم نے یہاں کا معاملہ دیکھنا ہے ، ان کی یہاں ڈیپوٹیشن درست ہوئی تھی۔وکیل نے کہا کہ جس ڈیپوٹیشن پر وہ 3 سال کے لیے یہاں آئے ہم نے اس کو چیلنج کیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سن لیا ہے ، آپ کی درخواست پر ہم حکم نامہ جاری کریں گے ، عدالت نے وکیل درخواست گزار کے دلائل کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • 27ویں آئینی ترمیم کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا
  • انکم ٹیکس کیس: آئینی عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کا اسٹے آرڈر کالعدم قرار دیدیا
  • انکم ٹیکس کیسز: سندھ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار
  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ لارجر بنچ کیخلاف اپیل کتنے ارکان سنیں گے: آئینی عدالت کا اصول بنانے کا فیصلہ 
  • سپریم کورٹ لارجر بینچ کےفیصلےکیخلاف اپیل کون سنے گا؟ وفاقی آئینی عدالت کا اصول طےکرنےکافیصلہ
  • جمعیت علما اسلام (ف)نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا
  • حکومت نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل اختیار سے متعلق قانون سازی مؤخر کر دی؟
  • وفاقی آئینی عدالت: پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کیخلاف اپیل پر حکومت کو نوٹس جاری