اسرائیلی جارحیت کے دوران پاکستان نے بھرپور ساتھ دیا، علی لاریجانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے دوران پاکستان نے بھرپور ساتھ دیا، دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری اور پرانی ہیں۔ دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پاکستانی حمایت کبھی نہیں بھولے گا، صدر مسعود پزشکیان کا محسن نقوی سے اظہار تشکر
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی لاریجانی نے نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے غیور عوام کے لیے آیت اللہ خامنہ ای کا سلام لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کی حکومت، عوام، پارلیمان اور مسلح افواج کا تہہ دل سے شکر گزار ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے دوران پاکستان نے ہر سطح پر ایران کا بھرپور ساتھ دیا اور دفاع میں مدد فراہم کی۔
علی لاریجانی نے کہا کہ پاکستان نے اسرائیل کے خلاف بھرپور موقف اپنایا اور دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری اور پرانی ہیں۔ دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں، دینی اور ثقافتی لحاظ سے بھی یہ ممالک قریب ہیں، اور پاکستان کا قومی ترانہ بھی فارسی زبان میں ہے۔
اقتصادی و صنعتی تعلقاتانہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان دو طاقتور علاقائی ممالک ہیں جو خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ صدر مسعود پزیشکیان کے پاکستان کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کافی کوششیں جاری ہیں۔ چونکہ پاکستان زرعی ملک ہے، اس لیے ایران نے ترجیحی بنیادوں پر پاکستان سے زرعی مصنوعات خریدنے کی ہدایت دی ہے۔ صنعتی شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے متحرکعلی لاریجانی نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کی کوئی حد نہیں ہے، اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے یکساں اور مضبوط عزم رکھتے ہیں۔
خطے کی سیکیورٹی صورتحالخطے کی سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قطر اور اسرائیل پر حملوں کے بعد سیکیورٹی ماحول ضرور بدلا ہے، لیکن یہ تمام واقعات کسی ایک ملک کی کارروائی نہیں بلکہ امریکی منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد علاقائی ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ امریکی مطالبات کے سامنے جھک جائیں۔ ایران اور پاکستان پہلے سے جانتے تھے کہ خطے میں کشیدگی کے پیچھے کون ہے، اسی لیے دونوں ممالک نے باہمی مفادات اور علاقائی سلامتی کے لیے بھرپور رابطے رکھے۔
مسلم ممالک کا اتحادانہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات کے بعد خطے کے کئی ممالک، خصوصاً سعودی عرب، یہ سمجھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والی بات چیت اور پاکستان کے ساتھ معاہدوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تمام مسلم ممالک کا قبلہ، کعبہ، نبی اور کتاب ایک ہے، اس لیے اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اسلامی انقلاب اور امت مسلمہایرانی رہنما نے کہا کہ اسلامی انقلاب کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اور ان کی اجتماعی قوت کو مضبوط بنانا ہے، اور ایران اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کا ایران کی حمایت میں کردارانٹرویو میں جب ایران و اسرائیل تنازع کے دوران پاکستان کے کردار کے بارے میں سوال کیا گیا، تو علی لاریجانی نے کہا کہ پاکستان نے سیاسی، سفارتی اور عوامی سطح پر ایران کی بھرپور حمایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا ایک بار پھر پاکستان سے اظہار تشکر، صدر مملکت سے سیکریٹری نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ملاقات
پاکستانی عوام نے ایران کے دفاع کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالیں، جسے ایران کبھی فراموش نہیں کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر نے ایران کے مؤقف کی حمایت میں مثبت مشاورت فراہم کی، جس پر ایران شکر گزار ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ایران کے حق میں واضح اور مضبوط مؤقف اختیار کیا، جبکہ پارلیمنٹ نے بھی ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور کی۔
ابراہیم معاہدہ اور فلسطینسوال کیا گیا کہ اگر سعودی عرب ابراہیم معاہدے کا حصہ بنتا ہے، تو ایران بھی اس پر غور کر سکتا ہے؟ کیا پاکستان بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے؟
علی لاریجانی نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے۔ چند سال قبل اسلامی انقلاب کے رہنما نے کہا کہ فلسطینی عوام کو انتخابات کے ذریعے فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی حکومت چاہتے ہیں۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ اگر وائٹ ہاؤس میں فلسطینی عوام کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے تو یہ ان کے فیصلے کو تھوپنے کے مترادف ہے۔ فلسطینی عوام خود فیصلہ کرنے کے اہل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے میزائل حملوں کے بعد اسرائیل میں غزہ جیسے مناظر، ہر طرف تباہی
انہوں نے کہا کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے خطے میں مسائل بڑھ گئے ہیں، عراق میں بھی ایسا ہوا جس سے عوام کو نقصان پہنچا۔ اگر فلسطینی عوام کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دیا جائے تو یہ بہترین حل ہوگا۔ کسی بھی بیرونی منصوبے کی مخالفت بنیادی ہے کیونکہ ایک دن وائٹ ہاؤس پاکستان کے عوام کے بارے میں بھی فیصلہ کر سکتا اور وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔ فلسطین کے حوالے سے بھی یہی اصول صادق ہے۔
غزہ امن معاہدہعلی لاریجانی نے کہا کہ حال ہی میں غزہ امن معاہدہ طے پایا ہے اور کچھ نکات عملی طور پر نافذ کیے جا سکتے ہیں جیسے قیدیوں کا تبادلہ۔ کچھ نکات فلسطینی عوام کی مدد سے بھی نافذ کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اگر اقدامات غلط طریقے سے کیے گئے تو مسائل پیدا ہوں گے۔
غزہ کا انتظام فلسطینی عوام کے پاس ہونا چاہیے اور حفاظتی فورس صرف سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے ایران کو مرکزی جنگی محاذ قرار دے دیا، غزہ ثانوی ترجیح بن گیا
انہوں نے کہا کہ اگر یہ اصول صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے تو عملی معاہدہ ممکن ہے، لیکن اگر نظرانداز کیا گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ پاکستان، ترکی یا انڈونیشیا کی فوجی فورسز اگر اندرونی مداخلت کے لیے بھیجی جائیں تو لڑائی ہو سکتی ہے۔ لیکن صرف سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعینات کی جائیں تو معاہدہ قائم ہو سکتا ہے۔
حماس اور عراق کی مثالعلی لاریجانی نے کہا کہ کچھ نکات، جیسے حماس کو ختم کرنا، غیر عملی ہیں۔ حماس فلسطین اور غزہ کا حصہ ہے اور اسے ختم کرنا ممکن نہیں۔ عراق میں امریکی قبضے کے دوران بھی ایسے ہی مسائل پیدا ہوئے تھے۔
ایران اور جوہری پروگرامعلی لاریجانی نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا لیکن جوہری پروگرام پر کام جاری رہے گا۔ ایران ہزاروں ماہرین کے ذریعے اپنے سرحدی تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے۔ اسرائیل ایران کے سائنسدانوں کو نشانہ بنا رہا ہے، لیکن ایران ہر دباؤ کا مقابلہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا جنگ کے بعد مذاکرات کی بات کر رہا ہے، لیکن اگر جنگ سے مسئلہ حل نہ ہوا تو اب مذاکرات کا مقصد کیا ہے؟ ایران حقیقی مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن وہ مذاکرات قبول نہیں کرے گا جس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو۔
پاکستان اور افغانستان کے تنازععلی لاریجانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع خطے کے لیے خطرہ ہے۔ دہشت گردی کی سرگرمیاں دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے خطرناک ہیں۔ ایران اس مسئلے کے حل کے لیے ہر ممکن ثالثی کرے گا اور امن کے لیے تعاون کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے ایک بار پھر ایرانی سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کے امکانات موجود ہیں، یہ معاملہ آسان نہیں بلکہ پیچیدہ ہے، افغانستان میں بعض گروپس کی تاریخی اور نظریاتی پس منظر کی وجہ سے حل کے لیے گہری سوچ کی ضرورت ہے۔
ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کرلیاانہوں نے کہا کہ ایران پاکستان تعلقات کے امکانات روشن ہیں اور دونوں ممالک کے مفاد میں یہ تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے گیس پائپ لائن کے منصوبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران نے اپنا حصہ مکمل کر لیا ہے اور پاکستانی بھائی بھی آگے بڑھیں گے، تاکہ ایرانی گیس کے ذریعے پاکستانی عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بھارت کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت دوبارہ حملہ کر سکتا ہے، لیکن ایران کی ثالثی ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آیت اللہ خامنہ ای ایران پاکستان سپریم لیڈر علی لاریجانی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا یت اللہ خامنہ ای ایران پاکستان سپریم لیڈر علی لاریجانی علی لاریجانی نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ایران کے دوران پاکستان دونوں ممالک کے کہا کہ پاکستان ایران پاکستان اللہ خامنہ ای فلسطینی عوام یہ بھی پڑھیں اور پاکستان کے حوالے سے سپریم لیڈر پاکستان نے پاکستان کے ایران اور کے درمیان ایران کی فیصلہ کر ایران کے میں بھی عوام کے سکتا ہے کرے گا رہا ہے کے لیے کا حصہ ہوں گے کے بعد
پڑھیں:
ایران کی سپریم سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری کی اہم اور غیر معمولی دورے پر پاکستان آمد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-01-19
تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی لاریجانی پاکستان کے تاریخی اور غیر معمولی دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔ یہ دورہ دونوں برادر ممالک کے دیرینہ، مضبوط اور آزمودہ تعلقات کو ایک نئے اسٹریٹجک مرحلے میں لے جانے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ ایرانی سفارت خانہ کے مطابق بدلتے ہوئے عالمی حالات، علاقائی صورتحال اور خطے کے نئے اسٹریٹجک تقاضوں کے پیش نظر پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط، مربوط اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر لاریجانی کا یہ اہم دورہ اسی سمت میں ایک بڑا قدم سمجھا جا رہا ہے۔دورے کے دوران دونوں ممالک کے وفود سیاسی، سیکورٹی، سرحدی انتظام، انسداد دہشت گردی، معاشی تعاون اور علاقائی استحکام سے متعلق امور پر جامع اور نتیجہ خیز بات چیت کریں گے۔