بھارت: ریاست کیرالہ میں حجاب کا تنازعہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اکتوبر 2025ء) بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ایک کرسچن اسکول میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کا ایک تنازعہ سرخیوں میں ہے، تاہم بدھ کے روز اس میں ایک نیا موڑ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب سی پی آئی (ایم) کے رہنما اور ریاست کے وزیر تعلیم وی سیوان کٹی کو اپنی ہدایات واپس لینا پڑیں۔
منگل کے روز ریاستی وزیر نے ریاست کے ایک عیسائی مشنری اسکول کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ مسلم طالبہ کو حجاب پہن کر اسکول آنے کی اجازت دے، تاہم بدھ کے روز انہوں نے اپنے اس حکم نامے کو واپس لے لیا۔
معاملہ کیا ہے؟کیرالہ کے شہر کوچی کے سینٹ ریٹا پبلک اسکول کے اہلکاروں کا 'حجاب' پہننے کے حوالے سے آٹھویں جماعت کی طالبہ کے والدین کے ساتھ تنازعہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ ہنگاموں کے پیش نظر پیر کے روز دو دن کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔
(جاری ہے)
اس حوالے سے اسکول کی پرنسپل نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ چونکہ ایک طالبہ اسکول کے یونیفارم کے بغیر آئی تھیں، جس کی وجہ سے کافی ہنگامہ ہوا اور طالبہ کے والدین اور اسکول سے وابستہ کچھ افراد کے دباؤ کے بعد اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسکول کی انتظامیہ نے اس مسئلے پر ریاستی ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا اور جب یہ معاملہ سوشل میڈیا میں آیا تو اس پر ریاستی سطح پر سیاست ہونے لگی اور دو روز سے اسکول میں حجاب کے حوالے سے کافی گرما گرم بحث و مباحثہ جاری تھا۔
ریاستی حکومت کا اقداممنگل کے روز ریاستی وزیر سیوان کٹی نے کوچی میں سی بی ایس ای سے منسلک ادارے سینٹ ریٹا پبلک اسکول کو ہدایت کی تھی کہ وہ مذکورہ طالب علم کو حجاب پہننے اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے، جبکہ اسکول کے حکام کا اصرار تھا کہ حجاب کی اجازت دینا یونیفارم کے خلاف ورزی ہے۔
احتجاج کے پیش نظر اسکول کی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے ایک عبوری حکم میں ادارے کے لیے پولیس کا تحفظ بھی حاصل کر لیا تھا۔ تاہم ریاستی حکومت نے اسکول کو حکم جاری کیا کہ چونکہ کیرل ایک سکیلور ریاست ہے، اس لیے طالبہ کو حجاب کے ساتھ اسکول آنے کی اجازت دی جائے۔
ریاستی وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ کیرالہ میں کسی بھی طالب علم کو ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے، جو سیکولر اقدار کو برقرار رکھتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کسی تعلیمی ادارے کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔تاہم بعض مقامی رہنماؤں نے طالبہ کے والد سے ملاقات کی اور معاملہ حل ہو گیا۔ بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق طالبہ کے والد نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کی بیٹی اسکول کے ڈریس کوڈ پر عمل کرے گی۔
ان کا کہنا تھا، "میری بیٹی یونیفارم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اسی اسکول میں پڑھتی رہے گی۔
میں یہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے اس مسئلے کو سیاسی استحصال کے لیے استعمال کیا جائے۔"بدھ کے روز ریاستی وزیر شیون کٹی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا، "مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسکول کے حکام اور لڑکی کے والدین ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں، اگر اس معاملے پر اتفاق رائے ہے، تو اسے اس طرح ختم ہونے دیں، ہم فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی اجازت نہیں دیں گے۔
کچھ حلقے پریشانی کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ اب لڑکی کے والد بغیر حجاب کے ہی اسکول بھیجنے کے لیے تیار ہیں، تو اسے وہیں چھوڑ دیتے ہیں۔" چرچ کی حکومت کے خلاف کوششواضح رہے کہ اس سے پہلے کیرالہ میں کیتھولک چرچ نے وزیر کے بیانات پر تنقید کی تھی۔ سائرو-مالابار چرچ کے میڈیا کمیشن نے ایک سرکاری ریلیز میں کہا تھا، "اس معاملے کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے، وزیر نے فرقہ پرست عناصر کو قدم رکھنے کی اجازت دی ہے۔
وزیر کے بیان کا مقصد صرف ایسی فرقہ پرست طاقتوں کی مدد کرنا ہے، جو ریاست میں عیسائی تعلیمی اداروں میں پریشانی پیدا کر رہی ہیں۔"کیتھولک چرچ کے ماؤتھ پیس سمجھے جانے والے دیپیکا ڈیلی نے بدھ کو ان کے خلاف ایک اداریہ لکھا، جس میں کہا گیا کہ "ذمہ داری تو یہ ہے کہ اسکول میں حجاب پہننے کے حق کے مطالبے کی آڑ میں مذہبی بنیاد پرستی کی دراندازی کو روکا جائے۔
یہ صورتحال کہ ہمیں بعض تنظیموں کے دباؤ کے سامنے خاموش رہنا پڑے، بنیاد پرستی کے خلاف سیاسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔"بھارت میں مسلم طالبات کے اسکولوں میں حجاب پہننے کے حوالے سے اس سے پہلے بھی تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ریاست کرناٹک میں بی جے پی کے دور حکومت میں اسی طرح کے ایک تنازعے کے بعد مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ریاستی وزیر حجاب پہننے کیرالہ میں اسکول میں طالبہ کے اسکول کے کی اجازت حوالے سے کے خلاف میں کہا کے روز
پڑھیں:
پشاور: مذاکرات کامیاب، پرائمری اسکول کے اساتذہ کی غیرحاضری پر مظاہرین کا دھرنا ختم
---فائل فوٹوصوبۂ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کی تحصیل انبار میں واقع گرلز پرائمری اسکول کے اساتذہ کی غیرحاضری پر والدین اور طالبات نے احتجاج کیا۔
مظاہرین نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ایک ماہ سے اساتذہ غیر حاضر ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
مظاہرین نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکول میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنائی جائے۔
دوسری جانب احتجاج کے باعث مہمند انبار شاہراہ پر ٹریفک معطل ہو گئی۔
ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے پر دھرنا ختم کر دیا گیا جبکہ ٹریفک بھی بحال ہو گئی۔