امن کا راگ لیکن آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق پر خاموشی
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
صحافیوں سے اپنی ایک گفتگو میں ڈونلڈ ٹرامپ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ ایک ریاستی حل کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ کچھ دو ریاستی حل کو۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" نے مغربی ایشیاء کے مختصر دورے اور شرم الشیخ اجلاس میں شركت سے واپسی كے بعد، ہوائی جہاز میں صحافیوں سے بات كی۔ تاہم اس دوران ڈونلڈ ٹرامپ نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا کہ کیا وہ آزاد فلسطین کے قیام کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو جواب دیا کہ میں ایک یا دو ریاست کے بارے میں بات نہیں کر رہا بلکہ ہم غزہ کی تعمیر نو کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ایک ریاستی حل کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ کچھ دو ریاستی حل کو۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے اس بارے میں ابھی تک کوئی رائے نہیں دی۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرامپ کا یہ انکار اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے فرانس جیسے اتحادیوں پر بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے بین الاقوامی حمایت میں اضافے پر تنقید کی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے لئے ٹرامپ منصوبے میں پائیدار امن کا کوئی فریم ورک پیش نہیں کیا گیا اور اس میں اسرائیل کی ذمہ داریوں کی بھی وضاحت نہیں کی گئی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاستی حل کو ڈونلڈ ٹرامپ
پڑھیں:
پی ٹی آئی نے مذاکرات میں بھرپور کوشش کی، کامیابی نہ ملی: چیئرمین بیرسٹر گوہر
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہرنے کہا ہے کہ پارٹی نے مذاکرات میں بھرپور کوشش کی، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔
پشاور میں جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب مذاکرات کا اختیار عمران خان نے محمود اچکزئی اور علامہ ناصر کو سونپا ہے، اور اگر وہ مجھ سے مشورہ مانگیں تو میں ضرور دوں گا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر کے ساتھ ہمارا الائنس قائم ہے اور تحریک تحفظ پاکستان کے ذریعے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مولانا زیرک سیاستدان ہیں، انہیں شامل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ ہمارے پاس نہیں آئے۔ “ہو سکتا ہے مستقبل میں شامل ہوں، لیکن ہم کوشش جاری رکھیں گے۔”
چیئرمین پی ٹی آئی نے واضح کیا کہ پارٹی 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترمیم کے مخالف ہے اور ایک آزاد عدلیہ چاہتی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 16 جنوری کو ان کی آخری سزا ہوئی، اور جوڈیشل پالیسی کے مطابق فیصلہ 35 دن میں ہونا چاہیے تھا، لیکن اب 10 ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں اور کیس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔