Jasarat News:
2025-12-02@17:37:31 GMT

55 سال پرانا بچی اغوا کیس، اہل خانہ نے بالآخر خاموشی توڑ دی

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سڈنی: آسٹریلیا میں 55 سال قبل لاپتہ ہونے والی 3 سالہ برطانوی نژاد بچی شیریل گرمر کے اہلِ خانہ نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر مشتبہ شخص نے بدھ کی رات تک سچ نہ بتایا تو وہ اس کا نام عام کر دیں گے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق، 1970 میں شیریل گرمر اپنی والدہ اور تین بھائیوں کے ساتھ آسٹریلیا کے شہر وولونگونگ کے ساحل پر گئی تھی، جہاں سے وہ اچانک لاپتہ ہوگئی۔ پولیس اور اہل خانہ کی کئی دہائیوں کی کوششوں کے باوجود آج تک اس کی لاش بھی نہیں ملی۔

ابتدائی تحقیقات میں ایک مشتبہ شخص کو اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم 2019 میں عدم شواہد کی بنیاد پر مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ ملزم مرکری نے اس وقت اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب واقعہ پیش آیا، وہ خود نابالغ تھا۔

مغوی بچی کے بھائی رِکی نیش نے کہا ہے کہ “اب بہت ہو گیا، ہم سچ جاننا چاہتے ہیں۔ اگر ملزم نے وضاحت نہ دی تو ہم اس کی شناخت عوام کے سامنے لائیں گے۔”

اس نے سوال اٹھایا کہ اگر ملزم بے گناہ تھا تو اسے پولیس کو دیے گئے بیان میں وہ مخصوص اور اہم تفصیلات کیسے معلوم تھیں؟

بچی کے اہلِ خانہ نے پولیس پر غفلت اور ناقص تحقیقات کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ “55 سال گزر گئے، ہمیں صرف طفل تسلیاں دی گئیں، اب وقت آ گیا ہے کہ سچ کو سامنے لایا جائے تاکہ اصل ذمہ داروں کا تعین ہوسکے۔”

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ایک بدنام زمانہ ڈاکو نے کیسے چوہدری اسلم سمیت دیگر پولیس افسران کو جیل بھیجا؟

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جس کی توقع نہ ہو یا جب آپ سامنے والے کو ہلکا سمجھ رہے ہوں، 90 کی دہائی میں ایک ایسا بدنام کردار وجود رکھتا تھا جس کی تلاش پولیس کے ساتھ عام شہریوں کو بھی تھی لیکن اس بدنام زمانہ ڈاکو کو پکڑنا مشکل تھا تبھی تو سندھ حکومت نے اس کے سر کی قیمت رکھی لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی ڈاکو نہیں تھا اسی لیے تو چوہدری اسلم جیسے پولیس آفیسر بھی اس کی چال نہ سمجھ سکے۔ یہ کردار اصل میں تھا کون اور اس نے گرفتار ہونے کے بجائے پولیس افسران کو کیسے جیل میں قید کرایا؟ آئیے جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: منگھوپیر کی رہائشی کالونی میں پولیس مقابلہ، 5 ڈاکو ہلاک

معشوق بروہی سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک بدنام زمانہ ڈاکو اور گینگسٹر کے طور پر مشہور تھا جو اغوا برائے تاوان اور قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھا۔ وہ قریباً 15 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا اور اس کی یہ سرگرمیاں صرف ایک علاقے تک محدود نہیں تھیں بلکہ سندھ کے اضلاع کراچی، بدین، دادو اور ٹھٹھہ کے علاوہ بلوچستان کے حب اور سکران تک پھیلی ہوئی تھیں۔

معشوق بروہی پر 200 سے زیادہ اغوا برائے تاوان، قتل اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور سندھ حکومت نے ان کی گرفتاری پر 25 لاکھ سے 30 لاکھ روپے انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔

’معشوق بروہی کا نام جعلی پولیس مقابلوں کے ایک بڑے تنازع میں بھی سامنے آیا‘

معشوق بروہی کا نام جعلی پولیس مقابلوں کے ایک بڑے تنازع میں بھی سامنے آیا، جولائی 2006 میں لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ ایس پی چوہدری اسلم نے کراچی کے گردونواح میں ایک پولیس مقابلے میں معشوق بروہی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ مقابلے میں مارا جانے والا شخص اصل میں معشوق بروہی نہیں تھا بلکہ سکرنڈ کا رہنے والا ایک بے گناہ مزدور غلام رسول بروہی تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ معشوق بروہی کے چکر میں غلام رسول کیوں مارا گیا؟ اس واقعے پر سندھ بھر میں شدید احتجاج ہوا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کا از خود نوٹس لیا، چوہدری اسلم اور دیگر پولیس افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور وہ کئی مہینوں تک جیل میں رہے۔

اس وقت ان واقعات پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی رجب علی نے وی نیوز کو بتایا کہ معشوق بروہی کا شمار بڑے گینگسٹرز میں ہوتا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب چھوٹے اغوا کار کسی کو اغوا کرنے کے بعد بڑے اغوا کاروں کو فروخت کردیا کرتے تھے اور معشوق بروہی ایسا ہی بڑا نام تھا جس کے پاس سندھ سے بلوچستان تک سیف ہاؤسز اور بڑی جگہیں ہوا کرتی تھی۔

’سندھ پولیس نے معشوق بروہی کے سر کی قیمت مقرر کی‘

رجب علی کے مطابق 2000 کے وسط میں سندھ حکومت نے اس کے سر کی قیمت مقرر کی، جنوری 2003 سے جون 2006 تک صرف سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق معشوق بروہی 14 اغوا برائے تاوان کے مقدمات میں نامزد تھا، جن میں 26 مغوی شامل تھے اور ان کی رہائی کے لیے مجموعی طور پر قریباً 5 کروڑ روپے تاوان حاصل کیا تھا۔

معشوق بروہی پر اغوا برائے تاوان کے علاوہ قتل کے 200 سے زیادہ سنگین مقدمات تھے وہ دہشت پھیلانے کے لیے اپنے مغویوں میں سے کچھ کو تاوان ادا نہ ہونے پر قتل کردیا کرتا تھا۔

2006 کی بات ہے کہ لیاری ٹاسک فورس بڑے آب وتاب سے کام کررہی تھی، اس کے پاس لامحدود اختیارات تھے اور یہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں کارروائی کا اختیار رکھتی تھی، معشوق بروہی نے لیاری ٹاسک فورس کو اپنے جال میں پھنسایا اور اس کے نتیجے میں معشوق بروہی کی جگہ کوئی اور شخص پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

مارے جانے والے شخص غلام رسول کے اہل خانہ کا دعویٰ تھا کہ اسے سکرنڈ میں بس سے اتار کر اغوا کیا گیا اور پھر مار دیا گیا، اب پولیس کے مطابق معشوق بروہی مارا جا چکا تھا۔

’جب معشوق بروہی سمجھ کر ایک عام شخص کو مار دیا گیا‘

اس کے بعد جب ایف آئی آر سامنے آئی تو پروموشن کے لیے اس ایف آئی آر میں پولیس کارروائی کے احوال سے زیادہ افسران کے ناموں کی فہرست تھی جس میں تمام افسران یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ ہم نے اس مقابلے میں حصہ لیا، کسی افسر نے 6 تو کسی نے 4 گولیاں لکھوائیں تا کہ کوئی بھی حکومتی انعامات اور پروموشن سے رہ نا سکے۔

رجب علی کے مطابق اس ایف آئی آر میں لیاری ٹاسک فورس کے قریباً تمام افسران نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں جب شور ہوا کہ یہ تو معشوق بروہی نہیں بلکہ ایک مزدور کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا تو ایک طوفان آگیا۔

’احتجاج شروع ہوا اور یوں عدالت نے بھی اس پر نوٹس لے لیا۔ آئی جی سندھ کی سربراہی میں ایک انکوائری ہوئی جس میں ثابت ہوا کہ یہ جعلی پولیس مقابلہ تھا اور اس پر ایکشن لینے پر پتا چلا کہ لیاری ٹاسک فورس کا تو اب صفایا ہوگیا اور یہ وجہ بنی لیاری ٹاسک فورس کو ختم کرنے کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی پی ایل سی کے ریکارڈ میں معشوق علی کی تصویر بھی اصل معشوق علی کی نہیں تھی۔‘

اصلی معشوق علی نے 3 بار ایسا کام کیا کہ نقلی معشوق علی بھتہ وصول کرتا رہا، ایسے واقعات سامنے آئے کہ اپنے پیاروں کو بازیاب کرانے جو جاتے تھے، وہ غلام رسول کو رقم دے کر آجاتے تھے۔

اب جب یہ لوگ پولیس کے پاس بیان دینے جاتے تو پولیس انہیں تصاویر دکھاتی اور پوچھتی ان میں سے معشوق بروہی کون ہے تو یہ لوگ غلام رسول کی تصویر کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے، جبکہ نقلی معشوق بروہی کو اصلی معشوق علی اپنا نام دے کر آگے بھیجتا تھا اور نقلی معشوق علی پر کوئی کرمنل کیس نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس کے اہلکار کو قتل کرنے والا ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک، 2 ساتھی گرفتار

چوہدری محمد اسلم سمیت لیاری ٹاسک فورس کے دیگر ممبران قید کاٹ کر رہا ہو چکے تھے اور قید کے دوران ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اصلی معشوق بروہی کو بھی نہیں چھوڑنا، جیل سے باہر آکر اپنا نیٹ ورک بحال کیا اور دسمبر 2007 میں کراچی پولیس نے بلوچستان کے حب کے علاقے میں ایک اور مقابلے میں اصل معشوق بروہی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

پہلی بار میں پولیس معشوق بروہی کے جال میں پھنسنے کے بعد بالآخر بدنام زمانہ ڈاکو کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اغوا برائے تاوان بدنام زمانہ ڈاکو پولیس افسران چوہدری اسلم گینگ وار ہلاک وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کی اہم شخصیت کے بیٹے  کی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے دو لڑکیاں جاں بحق
  • ایک بدنام زمانہ ڈاکو نے کیسے چوہدری اسلم سمیت دیگر پولیس افسران کو جیل بھیجا؟
  • قاسم آباد میںبیوی کو قتل کرنے والے ملزم شوہر کے خلاف مقدمہ درج
  • آپ کا دماغ اغوا ہو رہا ہے؟
  • نائیجیریا؛ سہاگ رات کو دلہا کے گھر سے دلہن اپنی 12 سہیلیوں سمیت اغوا
  • 400 سال پرانا اسپینی سکے یورپ کی نیلامی میں تاریخی قیمت پر فروخت
  • جماعت اسلامی کا بی آر ٹی پروجیکٹ بند کرنے اور پرانا یونیورسٹی روڈ بحال کرنے کا مطالبہ
  • پیرآباد فرنٹیئر کالونی میں 10 سالہ مریم مبینہ طور پر اغوا، مقدمہ درج
  • روہت شرما نے شاہد آفریدی کا ایک دہائی پرانا ریکارڈ توڑ دیا
  • کراچی میں 20سالہ نوجوان لاپتا، 5 روز بعد بھی سراغ نہ مل سکا