360 سال پرانا معمہ حل، گرل ود دا پرل ایئررنگ میں دکھائی دینے والی لڑکی کون تھی؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
3 صدیوں سے زائد عرصے بعد مشہور ڈچ مصور یوہانس ورمیر کی شہرہ آفاق پینٹنگ ’گرل ود دا پرل ایئررنگ‘ میں موجود لڑکی کی شناخت سے متعلق معمہ حل ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔
برطانوی آرٹ مورخ اینڈریو گراہم ڈکسن نے اپنی نئی کتاب ورمیر اے لائف لاسٹ اینڈ فاؤنڈ میں انکشاف کیا ہے کہ 1665 میں بنائی گئی اس پینٹنگ میں دکھائی دینے والی لڑکی دراصل ڈچ جوڑے پیٹر کلاززون وین رویفن اور ان کی اہلیہ ماریا ڈی کنائٹ کی بیٹی میگڈالینا تھی۔
گراہم ڈکسن کے مطابق ورمیر کے زیادہ تر فن پارے اسی جوڑے کے لیے بنائے گئے تھے جو نیدرلینڈز کے شہر ڈلفٹ میں مقیم اور ایک مذہبی اصلاحی فرقے ریمانسٹرنٹس سے وابستہ تھے۔ اس فرقے کے ماننے والے حضرت مریم مگدلینی کی پیروی کرتے تھے، اسی مناسبت سے پینٹنگ میں لڑکی کو مگدلینی کے روپ میں نیلے اور سنہری رنگ کے پگڑی نما اسکارف اور نمایاں موتی والی بالی کے ساتھ دکھایا گیا.
مورخ کے مطابق میگڈالینا اس وقت تقریباً 10 سے 12 برس کی عمر میں تھی اور اپنے والدین کی طرح کولیجیئنٹس فرقے سے وابستہ تھی۔ اس فرقے کے لوگ بلوغت میں مذہبی عہد کا اعلان کرتے تھے اور غالباً اسی موقع پر یہ فن پارہ تخلیق کیا گیا۔
دوسری جانب ماہرین فن کی ایک بڑی تعداد اس نئے دعوے سے اتفاق نہیں کرتی، آرٹ مصنفہ روتھ ملنگٹن کے مطابق یہ پینٹنگ کسی حقیقی کردار کی نہیں بلکہ ایک ٹرونی ہے، یعنی فرضی یا علامتی چہرہ۔ ان کے بقول اس پینٹنگ کا اصل حسن اس کی گتھی میں پوشیدہ ہے اور اسے کسی شناخت یافتہ لڑکی سے جوڑنا درست نہیں۔
ناول گرل ود دا پرل ایئررنگ کی مصنفہ ٹریسی چیویلیئر جن کے ناول پر 2003 میں اسکارلٹ جوہانسن کی فلم بنی کہتی ہیں کہ یہ تصویر اس لیے دل کو چھو جاتی ہے کیونکہ اس میں خاموشی اور راز پوشیدہ ہے۔ جیسے ہی آپ اس کے معنی جان لیں، وہ کشش ختم ہوجاتی ہے۔
یوں 360 سال بعد بھی یہ شاہکار فن پارہ اب بھی سوال چھوڑتا ہے، کیا موتی والی لڑکی واقعی میگڈالینا تھی یا صرف ورمیر کی تخلیقی سوچ کا ایک پراسرار روپ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
پڑھیں:
نئی پالیسی کے تحت آنے والی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں کیا ہوں گی؟
حکومت پاکستان نے کمرشل بنیادوں پر 5 سال تک پرانی یا استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی پالیسی کے بعد امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں کیا فرق پڑے گا؟
ابتدائی طور پر صرف وہ گاڑیاں درآمد کی جا سکیں گی جو 30 جون 2026 تک 5 سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں۔
مذکورہ تاریخ کے بعد گاڑیوں کی عمر کی حد ختم کر دی جائے گی۔ ان گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر موجودہ کسٹمز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ 40 فیصد اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
یہ اضافی 40 فیصد ڈیوٹی 30 جون 2026 کے بعد ہر سال 10 فیصد پوائنٹس کم کی جائے گی اور مالی سال 2029-30 تک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
اس حوالے سے آٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ اگر ہم 7 ہزار ڈالر کی ایک ہزار گاڑیاں امپورٹ کرتے ہیں تو سالانہ 1 بلین ڈالر ملک سے باہر چلا جائے گا۔
مزید پڑھیے: 5 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی ختم ہونے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟
مشہود علی خان نے کہا کہ کوئی بھی گاڑی اگر سڑک پر آتی ہے تو وہ مینٹیننس مانگتی ہے اور اگر 25 فیصد اگر میں مینٹیننس کا لے لوں مہینے کا تو یہ 300 ملین ڈالر مہینے کا بنے گا تو ایک سال کا 1 بلین سے زائد کا ڈالر ملک سے باہر جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 میں پاکستان میں صنعت کاروں کے لیے ایک ایسا وقت آگیا تھا کہ ایل سی کھولنا مشکل ہو گیا تھا، ایکسپورٹ بڑھ نہیں رہی زرمبادلہ اتنے نہیں بڑھ رہے جتنے بڑھنے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2026 کے بجٹ میں مشکلات آتی نظر آرہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بات کی جائے صارفین کی تو ان کے پاس آپشنز کیا کیا ہیں اس وقت پاکستان میں 15 کے قریب کمپنیاں گاڑیاں فراہم کر رہی ہیں اس وقت پاکستان میں 45 کے قریب مختلف گاڑیوں کے ماڈلز موجود ہیں تو صارفین کے پاس تو آپشنز موجود ہیں۔
مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ اگر ہم صارفین کو امپورٹڈ گاڑیاں دے رہے ہیں تو کیا یہ گاڑیاں قابل خرید ہوں گی؟ اس وقت پاکستان میں امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں 30 لاکھ سے 2 کروڑ روپے تک جا رہی ہیں تو ہم کون سے لوگوں کو ٹارگٹ ہر رہے ہیں ہمارا مڈل اور لوور مڈل کلاس تو آج بھی موٹر سائکل پر ہے۔
مزید پڑھیں: گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات: پاکستان میں کمپنیاں قانون پر کتنے فیصد عمل کرتی ہیں؟
اگر موٹر سائیکل والوں کو گاڑی پر لانا ہے تو ٹیکسوں کو دیکھنا پڑے گا، اس وقت جو گاڑی ہم خرید رہے ہیں اس میں 45 فیصد حکومت کو ٹیکس دیا جا رہا ہے، مطلب یہ گاڑیاں مخصوص طبقے کے لیے ہیں نا کہ عام شہریوں کے لیے، جب آپ 5 سال پرانی گاڑی مارکیٹ میں لا رہے ہیں تو ان کے پارٹس کو بھی دیکھنا ہوگا یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ 3 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کے ہارٹس موجود نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوکل اسمبلرز کے پارٹس موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے لوکل انڈسٹری کو پروان چڑھا کر قرض ختم کرنا ہے یا ہم نے امپورٹ کرکے مزید قرض لینا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی ایک سال تک بھی چلتی نظر نہیں آرہی پالیسی ایسی ہونی چاہیے جو ملک کا قرض ختم کرے نہ کہ ایسی کہ قرض ختم کرنے کے لیے مزید قرض لیا جائے۔
چیئرمین آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن حاجی محمد شہزاد کا کہنا ہے کہ ہم تو اس پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں یہ گاڑیاں مہنگی آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ آپ ڈیوٹی اور ٹیکس کم کریں اور یہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے، ایک تو ٹیکس اتنا اور دوسرا امپورٹ کرنے والے پر شرائط اتنی ڈال دی گئی ہیں کہ نہیں لگتا کہ پاکستان میں کوئی یہ گاڑی امپورٹ کر پائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: امپورٹ ڈیوٹی میں تخفیف کے بعد پاکستان میں لگژری گاڑیوں کی قیمت میں بڑی کمی
حاجی محمد شہزاد کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی لوکل اسمبلر کے فائدے میں ہے اور مجھے تو لگتا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیاں بھی لوکل اسمبلرز ہی باہر سے منگوائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امپورٹڈ گاڑیاں پرانی گاڑیوں کی امپورٹ گاڑیوں کی درآمد