پاکستان کے جانب سے افغانستان کے علاقے پکتیکا میں دہشتگردوں کیخلاف کی جانے والی کامیاب کارروائی کو چھپانے کے لیے افغان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستانی حملے میں افغان کرکٹرز کی جھوٹی کہانی کا پردہ فاش ہو گیا۔

کرکٹ کا کوئی ریکارڈ یا اسٹیڈیم موجود نہیں

صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر واقعی یہ افراد ’کھلاڑی‘ تھے تو پھر وہ ایک ایسی ممنوعہ تنظیم کے زیر قبضہ علاقے میں، گولہ بارود کے ذخائر کے درمیان کیوں مقیم تھے؟

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں نہ کوئی کرکٹ اسٹیڈیم تھا، نہ کلب، اور نہ ہی افغان کرکٹ بورڈ کے ریکارڈ میں ان علاقوں کے  100کلومیٹر کے اندر کسی میچ کا ذکر موجود ہے۔

پرانی چال، دہشت گردوں کو شہری ظاہر کرنا

یہ غلط بیانی کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ وہی پرانا پروپیگنڈا طریقہ کار اپنایا گیا جو پاکستان کی درست کارروائیوں کے بعد بارہا دہرایا جاتا ہے۔

اس طریقے کے تحت مارے گئے دہشتگردوں کو عام شہری ظاہر کیا جاتا ہے، پرانے یا غیر متعلقہ طلبہ یا کھلاڑیوں کی تصاویر پھیلائی جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر جذباتی ہیش ٹیگز کے ذریعے ہمدردی پیدا کی جاتی ہے، اور طالبان نواز میڈیا چینلز و بھارتی ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردوں کے اڈوں کو انسانی المیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

حقیقت، حافظ گل بہادر گروپ کی حفاظت کی کوشش

درحقیقت اس منظم مہم کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہے، حافظ گل بہادر نیٹ ورک اور اس کے طالبان سرپرستوں کو ذمہ داری سے بچانا۔ پاکستان کی کارروائی کے حقائق بالکل واضح ہیں۔

خوست اور پکتیکا میں نشانہ بنائے گئے ٹھکانے ٹی ٹی پی سے وابستہ حافظ گل بہادر گروپ کے تھے، کسی کرکٹ ٹیم کے نہیں۔ افغان حکام کے ’کرکٹرز ہلاک‘ کے دعوے بے بنیاد ہیں کیونکہ ان علاقوں میں نہ کوئی میچ ہوا، نہ ہی افغان کرکٹ بورڈ کے پاس کسی سرگرمی کا ریکارڈ موجود ہے۔ طالبان کیمپوں میں اسلحے کے ذخائر کے درمیان موجود افراد کرکٹر نہیں بلکہ تربیت یافتہ جنگجو تھے۔

قانونی انسدادِ دہشتگردی کارروائی

یہ ایک قانونی انسدادِ دہشتگردی کارروائی تھی جس کا ہدف وہی ٹی ٹی پی سے وابستہ عسکریت پسند تھے جنہوں نے شمالی وزیرستان میں خودکش حملہ کیا تھا۔

ان مارے گئے دہشتگردوں کو ’کھلاڑی‘ کہنا طالبان کی دانستہ کوشش ہے تاکہ اپنے پراکسی عناصر کے نقصان کو چھپایا جا سکے اور پاکستان کے دفاعی اقدام کو مسخ کیا جا سکے۔

پروپیگنڈا مہم کا انکشاف

جس نام نہاد ’کرکٹ کیمپ‘ کی بات کی گئی، وہ دراصل خوست اور پکتیکا کا وہی جنگجو گزرگاہ علاقہ تھا جو طویل عرصے سے حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کوئی کھیل کا میدان نہیں۔ پروپیگنڈا مہم طالبان کے میڈیا سیل اور بھارتی نیٹ ورکس کے ذریعے چلائی گئی تاکہ مارے گئے دہشت گردوں کو بے گناہ کھلاڑیوں کے طور پر پیش کیا جا سکے، جو ایک کلاسیکی غلط معلوماتی حربہ ہے۔

پرانی تصاویر، جھوٹا بیانیہ بے نقاب

افغان اکاؤنٹس کی جانب سے شیئر کی جانے والی تمام تصاویر پرانی یا غیر متعلقہ ثابت ہوئیں، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ’کرکٹرز‘ والی کہانی محض ایک ڈیجیٹل فریب تھی جو دہشتگردوں کی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑی گئی۔

طالبان کی جانب سے حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجوؤں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں ’کرکٹر‘ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب بھی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دے رہے ہیں۔

نتیجہ، طالبان اور بھارتی پروپیگنڈا کا گٹھ جوڑ بے نقاب

پاکستان کی درست کارروائی دہشت گردوں کے خلاف تھی، کھلاڑیوں کے خلاف نہیں۔ ’کرکٹرز‘ کا جھوٹا بیانیہ صرف اس بات کو مزید آشکار کرتا ہے کہ طالبان، ٹی ٹی پی اور بھارتی پروپیگنڈا نیٹ ورکس ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور مشترکہ طور پر غلط معلومات پھیلانے میں سرگرم ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: حافظ گل بہادر افغان کرکٹ گردوں کو ٹی ٹی پی کے لیے

پڑھیں:

بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن

حمیداللہ بھٹی

افغانستان کی جنگوںاورسیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی طویل تاریخ ہے، یہ ملک اب بھی امن کا گہوارہ نہیں کیونکہ طالبان رجیم عوامی اُمنگوں کے مطابق نہیں بلکہ یہ طاقت کے بل بوتے پرایک قابض گروہ ہے جن کے کنٹرول میں ملک کا بڑا حصہ ہے۔ یہ ابھی تک کئی وجوہات کی بناپر دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ افغانوں کی بڑی تعداد کی طرح تمام ہمسایہ ممالک پاکستان،ایران ،چین،تاجکستان، ازبکستان اورترکمانستان بھی اُنھیں شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔مگر آثارسے لگتا ہے طالبان کو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے شہبات دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اب بھی اپنے نکتہ نظر کے مقید ہیں۔ اسی بناپر پندرہ اگست 2021 یعنی چاربرس سے کابل پر قبضے اور حکمرانی کے باوجود دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔ خواتین کے لیے یہ ملک ایسی جیل کی مانند ہے جہاں وہ حقوق کے بغیر صرف زندگی کے دن پورے کر سکتی ہیں یہاں تعلیم و روزگار کے مواقع سمٹ رہے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے باوجودیہ ملک سیاسی اور معاشی حوالے سے غیر محفوظ اورغیر مستحکم ہے۔ اِس لیے مستقبل میں لڑائی اورسیاسی اکھاڑ پچھاڑ کامرکز نہ بننے کے حوالے سے وثوق سے کچھ کہنامشکل ہے وجہ عوام میں اضطرات وبے چینی کا فروغ پانا اور ہمسایہ ممالک کے فکرمندی میں مسلسل اضافہ ہوناہے۔ طالبان کے اندرونی اختلافات بھی عروج پر ہیں۔ اِس کی وجہ قندھاری گروپ کی آمرانہ اور متشدد روش ہے۔ بظاہرطالبان کو افغان عوام کے اضطراب وبے چینی اورہمسایہ ممالک کی فکرمندی دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہونے پر غربت وبے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اگرطالبان متشدد رویہ ، لاپرواہی ،دبائو اور بلیک میلنگ جیسے حربے ترک کردیں تو نہ صرف ہمسایہ ممالک کی فکرمندی ختم ہو سکتی ہے بلکہ امن کولاحق خطرات بھی ختم ہو سکتے ہیں ۔
رواں ہفتے دو ایسے واقعات پیش آئے جن سے طالبان بارے دنیاکی فکرمندی میں اضافہ ہوگا جن سے پاکستانی تحفظات کی بھی تائید ہوئی ہے کہ طالبان امن کے داعی نہیں بلکہ اُن کی حکومت میں افغانستان دہشت گردگروہوں کا مرکزبن چکا ہے امریکہ میں وائٹ ہائوس کے قریب ایک افغان شہری کا نیشنل گارڈ کے دواہلکاروں پر حملہ کرنا اور26نومبر کی شب افغان سرزمین سے تاجکستان کے اندر ڈرون سے چینی شہریوں کونشانہ بنانا سنگین واقعات ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ایسی تخریبی کارروائیاں دنیاکے ساتھ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہیں اِن سے متاثرہ ممالک کاتشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ تاجکستان نے ڈرون حملے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے افغان رجیم سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی سرحد پراستحکام اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کریں جبکہ صدر ٹرمپ نے حملہ آورمشتبہ افغانی کو درندہ قرار دیتے ہوئے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستوں پر فوری پابندی عائدکردی ہے۔ علاوہ ازیں امریکی انتظامیہ نے صدر جوبائیڈن کے دور ِ حکومت میں امریکہ آنے والے افغانوں کی دوبارہ جانچ کا عندیہ دیا ہے ۔ افغانستان ایک بار پھر لڑائی کا مرکز بننے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام کے نرغے میں ہے جس کا ایک ہی حل ہے کہ طالبان ہمسایہ ممالک کے خدشات وتحفظات دور کریں اور ایسے فیصلے کریں جن سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو ہمسایہ ممالک اور دنیا کااعتماد حاصل کرنابہانے بازی نہیںامن کے لیے سنجیدہ اقدامات سے مشروط ہے۔
پاک افغان سرحدی بندش نے افغانستان کوبدترین معاشی،تجارتی اور انتظامی بحران سے دوچار کردیا ہے جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا ۔اِس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان داخلی طورپر ناکام ہوچکے ہیں اگر وہ دہشت گردوں کی سرپرستی ترک کردیں تونہ صرف پاک افغان غیر ہموار تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ اُن کے لیے دنیا تک تجارتی رسائی بھی آسان ہو سکتی ہے لیکن قرآئن سے ظاہر ہے کہ طالبان ضدوہٹ دھرمی کی روش چھوڑنے پر آمادہ نہیں اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2025میں 23 لاکھ سے زائد افغانوں کی واپسی سے ملک شدید مشکلات میں ہے غربت،ناقص سہولیات اور بے روزگاری نے افغانستان پر غیر معمولی دبائو ڈالا ہے محدود رسائی ،پابندیوں اور تحفظ کے خطرات سے خواتین بُری طرح متاثر ہیں ۔ مگر کیا طالبان کو بڑھتے داخلی خطرات کا احساس ہے اُن کے طرزِعمل سے توایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا کیونکہ دیوالیہ معیشت کے ساتھ بھارتی سرمایہ کاروں کو رعایتوں نے امن اور معاشی مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات پیداہوئے ہیں جب واضح ہے کہ قابض طالبان کی ہٹ دھرمی افغانوں کو شدیدداخلی بحران میں دھکیل سکتی ہے تو پاکستان جیسے مہربان ملک سے دوری کوکج فہمی اور کوتاہ نظری کا لقب ہی دیا جا سکتاہے۔
ٹی ٹی پی ،ٹی ٹی اے،بی ایل اے ،داعش سمیت ایسے دہشت گرد اور شدت پسند گروہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں اِن کا خاتمہ خطے کے ساتھ دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے یہ گروہ کسی نرمی یا رعایت کے مستحق نہیں، اِ ن کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں مگر اِس کے باوجود اُن پر مہربان ہیں۔ بظاہر انھیں امن کوششوں سے کوئی دلچسپی نہیںتاجکستان سے لیکر امریکہ تک افغانوں کادہشت گردی میں ملوث ہونا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے طالبان سے تحفظات درست ہیں اور اگر خطے کے ساتھ دنیاکو دہشت گردی اور شدت پسندی سے پاک کرنا ہے تو افغان دہشت گرداور شدت پسند گروہوںکے خلاف بلا امتیاز کاروائی ناگزیر ہے لیکن دہشت گرداور شدت پسند گروہوں کی سرپرستی سے طالبان بظاہرہمسایہ ممالک کو خوف اور دبائو میں رکھنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرالگتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ امن کے لیے سب ایک ہوں اور طالبان کو مجبور کیاجائے کہ خطے کے ممالک اور دنیا کے تحفظات دورکریں تاکہ دیرپا امن کا خواب پورا ہو اور خطے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں۔
بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑایک حقیقت ہے دونوں کا یجنڈادہشت گردی ہے جس پر پاکستان کا فکر مند ہونااِس بناپرفطری ہے کہ طویل عرصہ سے فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کا نشانہ ہے بھارت کے جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں اگر افغان طالبان بھروسہ مند نہیں تو بھارت بھی دنیا کے اعتماد و اعتبار سے محرومی کے دہانے پرہے اگر پاکستان ،ایران ،چین اور وسط ایشیائی ممالک متفقہ لاعحہ عمل اپنا کر بھارت و افغان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پیداہونے والے خطرات دنیا پر واضح کریں تواقوامِ عالم کا مثبت ردِ عمل آسکتاہے اِس طرح افغانستان کو دوبارہ لڑائی کا مرکز بننے سے روکنے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام سے بھی بچایاجا سکتا ہے۔ بھارت افغان گٹھ جوڑ خطے کے ساتھ دنیا کے امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے جس کا جتنا جلد ادراک کر لیا جائے دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • افغان  شہری  کی گرفتاری ِ اعترافی  بیان  سے پاکستان میں  دہشتگردی پھیلانے کا  نیٹ  ورک  بے نقاب 
  • بلوچستان، کچھی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، خاران میں سکیورٹی فورسز پر حملہ
  • تاجکستان نے افغانستان سے حملوں میں 5 چینی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
  • بی پی ایل میں 11 پاکستانی شرکت کریں گے، حتمی فہرست سامنے آگئی
  • ایف سی ہیڈ کوارٹرز خودکش دھماکہ، تینوں حملہ آوروں کے افغان شہری ہونے کی تصدیق  
  • افواہیں منظم سازش کا حصہ، پی ٹی آئی کا ملک دشمن عناصر سے گٹھ جوڑ بے نقاب ہوگیا: عطاء اللہ تارڑ
  • طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج
  • بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن
  • افغان طالبان  دہشت گردوں کے سہولت  کار : ڈی  جی آئی ایس پی آر 
  • دہشت گردی اور افغانستان