افغانستان میں فتنہ الہندوستان اورخوارج کی موجودگی بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کیا، ہمارے ٹارگٹ اور دفاعی جوابی کارروائی افغان عوام کیخلاف نہیں تھی
افغان وزیرخارجہ کابیان مسترد،فتنہ الخوارج اورفتنہ الہندوستان کے ثبوت کئی بار پیش کئے،ترجمان دفتر خارجہ
پاکستان نے افغان وزیر خارجہ کا بیان مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ فتنہ الخواج اور فتنہ الہندوستان کے ثبوت کئے بار پیش کئے ۔ترجمان دفتر خارجہ ترجمان شفقت علی خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو افغان طالبان، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی اشتعال انگیزی پر تشویش ہے، پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کیا، ہمارے ٹارگٹ اور دفاعی جوابی کارروائی افغان عوام کے خلاف نہیں تھی۔ترجمان نے کہا کہ افغان طالبان کی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے سیز فائر ہوا، پاکستان ڈائیلاگ پر یقین رکھتا ہے، پاکستان امیر خان متقی کے بیان کو مسترد کرتا ہے جو ہندوستان میں دیا گیا، پاکستان نے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے ثبوت کئی بار پیش کیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چالیس لاکھ افغان شہریوں کی میزبانی کی، امید کرتے ہیں طالبان حکومت دہشت گردی کے خلاف کام کرے گی، پاکستان افغان شہریوں کی موجودگی پر قانون کے مطابق اقدامات کر رہا ہے۔ترجمان نے کہا کہ امید کرتے ہیں ایک روز افغان شہری اپنے سچے نمائندوں پر حکومت دیکھیں گے، پاکستان افغان عبوری وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کا مشترکہ اعلامیہ مسترد کرتا ہے، مشترکہ اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ طالبان وزیر خارجہ کا بھارت میں مشترکہ اعلامیہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی نفی کرنے کے مترادف ہے، سیکرٹری خارجہ نے غیر ملکی سفرا کو افغان طالبان کی جارحیت کے بعد کی صورتحال پر بریفنگ دی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: فتنہ الہندوستان پاکستان نے
پڑھیں:
افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-3
24 نومبر 2025ء کو پشاور میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (FC) کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ ہوا۔ کم از کم تین اہلکار شہید، پانچ زخمی۔ ذمے داری قبول کرنے والا گروپ جماعت الاحرار تھا، جسے فوراً تحریک طالبان پاکستان سے ’’منسلک‘‘ قرار دے دیا گیا۔ یہ وہی پرانا نسخہ ٔ کیمیا ہے جو کاونٹر ٹیررزم کے نام سے مشہور ہے: جس تنظیم کے خلاف کارروائی کرنی ہو، اسی طرز کا ایک نیا گروپ ایجنسیاں کھڑا کرتی ہیں، اس کے ہاتھوں دہشت گردی کروائی جاتی ہے، عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ اصل تنظیم کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو جائے۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے بھی یہی حربہ آزمایا جا چکا ہے۔ جماعت الاحرار حقیقی گروہ ہے یا ایجنسیوں کی تخلیق؟ اس کی آزادانہ تحقیق ہونی چاہیے، مگر پاکستان میں تفتیشی صحافت دفن ہو چکی ہے۔
ہم یہی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جب بھی ’’خودکش حملہ‘‘ کا لفظ سنائی دے تو سمجھ لیں یہ ایجنسیوں کا کھیل ہے۔ آپ نے کبھی کسی خودکش حملہ آور کی واضح تصویر نہیں دیکھی، نہ کبھی دکھائی جاتی ہے۔ خودکشی اسلام میں سخت حرام ہے۔ فلسطین جیسے انتہائی مخصوص حالات میں فدائی حملوں کے لیے علما نے اجتہاد کیا، مگر وہ جواز ہر جگہ فٹ نہیں ہوتا۔ حنفی مسلک، جو طالبان کا بھی اور پاکستان کی اکثریت کا بھی ہے، خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ طالبان لڑتے ہیں، شہید ہوتے ہیں، خودکش دھماکے نہیں کرتے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دھماکوں کے ساتھ وہ لوگ جن کی تصویر چھاپی جاتی ہے وہ کون ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں لاپتا افراد میں سے کسی کو اس بم کے ساتھ جھونک دیا جاتا ہو۔
پشاور حملے کے صرف دو دن بعد، 26 نومبر کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس سے دو بلاک کے فاصلے پر نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر ’’ٹارگٹڈ ایمبش‘‘ ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور 29 سالہ افغان نژاد رحمان اللہ لکنوال تھا جو 2021 میں آپریشن ایلائز ویلکم کے تحت آیا اور رواں سال ریفیوجی اسٹیٹس ملا۔ رہائش واشنگٹن ریاست میں، یعنی واقعہ سے 4500 کلومیٹر دور۔ قاتل کو دور دراز سے ’’بلایا‘‘ گیا۔ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ لکنوال افغانستان میں ان کے لیے کام کر چکا تھا۔ پاکستانی دفتر ِ خارجہ نے فوراً بیان دے دیا کہ امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمے داری افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اسی دن ایک افغان ایکس اکاؤنٹ @TimesAFg1 نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قتل کر دیا گیا اور لاش باہر منتقل کر دی گئی۔ تقریباً ایک ماہ سے عمران خان سے کسی کو ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔
یہ تینوں واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ’’ہرگز نہیں‘‘ (Absolutely Not) کہہ کر افغانستان پر دوبارہ حملے اور شمالی پٹھانوں (جنہیں ٹی ٹی پی کا لیبل لگا دیا گیا) کے قتل ِ عام کے منصوبے میں شمولیت سے صاف انکار کیا تھا۔ یہی واحد بڑی وجہ تھی کہ انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا۔ جیل سے بھی ان کا پیغام وہی ہے: تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان دونوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ مگر موجودہ مقتدرہ شروع دن سے لڑائی کے موڈ میں ہے۔ واشنگٹن کا حملہ افغان نژاد شخص کے ہاتھوں، حملہ آور کا سی آئی اے سے مبینہ تعلق، یہ ایک ممکنہ ’’مِنی 9/11‘‘ بن سکتا ہے جو افغانستان پر نئے امریکی حملے کا جواز فراہم کر دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی بگرام ائر بیس واپس لینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ پیچھے پیچھے تیاریاں مکمل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نیا فوجی معاہدہ، سعودی ولی عہد کا F-35 اسکواڈرن خریدنے کا سودا (کیا یہ لڑاکا جہاز پاکستان افغانستان کے خلاف استعمال کرے گا؟)، تاجکستان میں تین چینیوں کی ہلاکت کا الزام بھی افغانستان پر لگا دیا گیا۔
مئی میں بھارت کے ساتھ جھڑپ کروا کر پاکستان کا پروفائل بلند کیا گیا، جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس لنچ پر بلایا گیا، ٹرمپ سے ملاقات کروائی گئی۔ یہ سب اتفاقیہ نہیں ہے۔ رواں سال (2025ء) پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے پابندیاں (UNSC Sanctions Committee) کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اسی سلامتی کونسل کی بدمعاشی کی بدولت آج بھی افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد ہیں جن میں مالیاتی پابندیاں، سفری پابندیاں اور اسلحے کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی شامل ہے۔ پاکستان کے پاس بطور چیئرمین یہ مکمل اختیار موجود تھا کہ وہ اپنے برادر اسلامی پڑوسی ملک افغانستان کے حق میں کھڑا ہوتا، طالبان رہنماؤں سے یہ ظالمانہ پابندیاں ہٹواتا اور انہیں بین الاقوامی سطح پر قانونی تسلیم دلانے کی راہ ہموار کرتا؛ مگر افسوس کہ پاکستان نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا۔ بلکہ الٹا اس چیئرمین شپ کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت اور انہیں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ پاکستان نے براہِ راست افغانستان پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ دوسری طرف 2025-2026 کے لیے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے علاقائی انسدادِ دہشت گردی ادارے (Regional Anti-Terrorist Structure-RATS) کی بھی چیئرمین شپ سونپ دی گئی ہے، جس کا بنیادی مقصد علاقائی سطح پر شدت پسندی، دہشت گردی اور علٰیحدگی پسندی کے خلاف تعاون کو ترجیح دینا ہے۔ یہ دونوں عہدے پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع تھے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ حقیقی بھائی چارے کا ثبوت دیتا، مگر بدقسمتی سے ان مواقع کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکا اور پاکستان کا رشتہ کبھی دوستی کا نہیں رہا؛ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ 2001 سے لے کر اب تک پاکستانی فوج امریکا کی افغان جنگ لڑ رہی ہے۔ 2021 میں امریکی شکست کے بعد، اب وہی ہاری ہوئی جنگ وہ دوبارہ پاکستان کے کندھوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے نزدیک اسلام کی کوئی بھی سیاسی یا فوجی طاقت ’’دہشت گردی‘‘ ہے اور اس دہشت گردی کے خاتمے کا ٹھیکہ پاکستان کے پاس ہے۔ چوبیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اربوں ڈالر انفرادی جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ ہمارے کالموں، نصیحتوں اور اداریوں سے ختم ہونے والی نہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اب کسی کے ہاتھ سے بھی اٹھ سکتی ہے۔