پاکستان کا افغان طالبان، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندستان کی جانب سے پاک-افغان سرحد پر بلاجواز جارحیت پر گہری تشویش کا اظہار، پاکستان پرامن، مستحکم، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کی پریس بریفنگ
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اکتوبر2025ء) پاکستان نے 11 اور 12 اکتوبر اور پھر 14 اور 15 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندستان کی جانب سے پاک-افغان سرحد پر بلاجواز جارحیت پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے جمعہ کو یہاں پریس بریفنگ میں کہا کہ اس طرح کی بلا اشتعال کارروائیوں کا مقصد پاکستان-افغانستان سرحد کو غیر مستحکم کرنا اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان پرامن ہمسائیگی اور تعاون پر مبنی تعلقات کی مجموعی روح کو جھٹلانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے دفاع کے حق کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف سرحد پر حملوں کو موثر طریقے سے پسپا کیا بلکہ افغان سرزمین سے کارروائیاں کرنے والے طالبان فورسز اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہوں کو بھی جانی، مادی اور بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے بھاری نقصان پہنچایا۔(جاری ہے)
ترجمان نے کہا کہ یہ انفراسٹرکچر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور سہولت کاری کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف اور درست دفاعی ردعمل افغان شہری آبادی کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ طالبان فورسز کے برعکس ہم نے شہریوں کی جانوں کے ضیاع سے بچنے کے لیے اپنے دفاعی ردعمل میں انتہائی احتیاط برتی۔ ترجمان نے کہا کہ طالبان حکومت کی درخواست پر اور باہمی رضامندی سے حکومت پاکستان اور افغان طالبان حکومت نے عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا جو 15 اکتوبر کو شام 6 بجے سے نافذ العمل ہوا اور یہ 48 گھنٹے تک جاری رہے گی۔ ترجمان نے کہا کہ اس عرصے کے دوران دونوں فریق تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ لیکن قابل حل مسئلہ کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوششیں کررہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان مذاکرات و سفارت کاری اور افغانستان کے ساتھ باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، حکومت پاکستان اس کے ساتھ ساتھ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ اپنی سرزمین اور لوگوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں دہشت گرد عناصر کی موجودگی سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت میں عبوری افغان وزیر خارجہ کے دعوئوں کو سختی سے مسترد کیا ہے، یہ بے بنیاد دعوے کر کے طالبان حکومت علاقائی امن اور استحکام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے خود کو بری نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر دہشت گرد عناصر کی مسلسل موجودگی بشمول اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹس اور افغانستان میں ان کی سرگرمیوں کی آزادی کو اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مشترکہ مقصد ہے، طالبان حکومت کو ذمہ داریاں بدلنے کے بجائے اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے اپنے عزم کا احترام کرنا چاہیے اور خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے افغان سرزمین سے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندستان کی موجودگی سے متعلق اپنے تحفظات کا بارہا اظہار کیا ہے، پاکستان طالبان کی حکومت سے ان دہشت گرد عناصر کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائیوں کی توقع کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اچھی ہمسائیگی، اسلامی بھائی چارے اور انسانیت کے جذبے کے تحت چار دہائیوں سے زائد عرصے سے تقریباً 40 لاکھ افغانوں کی فراخدلی سے میزبانی کررہا ہے، پاکستان اپنی سرزمین پر افغان شہریوں کی موجودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام اقدامات بین الاقوامی اصولوں اور اپنے ملکی قوانین کے مطابق کرے گا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، دوستانہ، جامع، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، پاکستان توقع کرتا ہے کہ طالبان حکومت ذمہ داری سے کام کرے گی، اپنے وعدوں کا احترام کرے گی اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مشترکہ مقصد کے حصول میں تعمیری کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ایک دن افغان عوام آزاد ہو جائیں گے اور ان پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت ہوگی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ پاکستان ترجمان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین پاکستان نے کے خلاف کرے گی کے لیے
پڑھیں:
افغان جارحیت
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے خلاف بلااشتعال جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے باقاعدہ حملے کیے گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق 11 اور12 اکتوبر کی شب افغان طالبان اور بھارتی سرپرستی میں سرگرم فتنہ الخوارج نے پاک افغان سرحد کے مختلف مقامات پر حملہ کیا۔ پاک فوج نے دشمن کی بزدلانہ کارروائی کا بھرپور، بروقت اور منہ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ حملہ پسپا کر دیا بلکہ افغان طالبان کو بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا اور تقریباً 200 افغان طالبان اور فتنہ الخوارج ہلاک ہوگئے جب کہ پاک فوج کے 23 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
پاک فوج نے افغانستان کے اندر ان اہداف کو نشانہ بنایا جہاں دہشت گردوں، فتنہ الخوارج اور داعش سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر موجود تھے۔
پاک فوج نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے دفاع اور سالمیت پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور دشمن کو فوری، سخت اور کاری جواب دیا جائے گا۔ صدر، وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے افغانستان کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کرنے پر پاک فوج کے جذبے کو سراہا اور یقین دلایا کہ پوری قوم پاک فوج کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے۔
پاک افغان سرحدی کشیدگی اور افغان طالبان کی بلاجواز جارحیت پر سعودی عرب، قطر، ایران اور امارات نے گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی قیادت کو صبر و تحمل کا مشورہ دیا اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔
افغانستان نے ایسے وقت میں پاکستان پر حملہ کیا جب افغان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اور وہاں پاکستان مخالف بیانات دے کر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں اس قدر آگے نکل گئے کہ مقبوضہ کشمیر کو جوکہ عالمی سطح پر ایک متنازعہ مسئلہ ہے بھارت کا حصہ قرار دے کر بھارت دوستی اور پاکستان دشمنی کا اظہار کیا جو سخت افسوس ناک اور ناقابل قبول طرز عمل ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس کا بجا طور پر سخت نوٹس لیا گیا ہے۔
پاکستان سرکاری سطح پر متعدد مرتبہ افغان طالبان حکومت سے احتجاج اور مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے روکے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود طالبان حکومت نے دہشت گرد عناصر کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا نتیجتاً افغان سرزمین سے پاکستان کے ملحقہ سرحدی صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے مداخلت کار دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وقفے وقفے سے اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
پاک فوج کے جوان اور افسران اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو ناکام بناتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ بات اب پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے عناصر کو افغانستان کی حکومت نے پناہ دے رکھی ہے، جنھوں نے وہاں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ترجمان آئی ایس پی آر نے بالکل درست کہا کہ طالبان حکومت نے نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر خطے کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم رکھتی ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر طالبان حکومت نے اپنی روش نہ بدلی تو پاکستان اس خطرے کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔ ہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے۔
افغانستان پاکستان کا نہ صرف پڑوسی ملک ہے بلکہ مسلم برادر ملک ہونے کے ناتے دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ و تاریخی رشتے موجود ہیں۔ طالبان حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ روسی مداخلت کے وقت 50 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے اور آج تک ہم ان کی میزبانی کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے دوحہ امن مذاکرات میں افغان طالبان کی پشت پناہی کی جب کہ بھارت نے افغانستان کی ماضی میں کسی بھی موقع پر کوئی مدد نہیں کی۔ آج طالبان حکومت پاکستان کے احسانات کا بدلہ جارحیت کی صورت میں دے رہی ہے جو حد درجہ تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔
طالبان حکومت کو اپنی روش پر نظرثانی کرنا چاہیے بھارت کے ساتھ دوستی کی قیمت پر پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی پشت پناہی سے مزید کشیدگی پیدا ہوگی، گیند اب افغانستان کے کورٹ میں ہے۔ پاکستان اپنے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ طالبان حکومت کو جلد یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔