ریاض احمدچودھری
معرکہ حق کے بعد بھارتی میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ایک بارپھر جھوٹی خبروں کا پرچار کرنے لگ گیاہے۔بھارتی میڈیا پاکستان مخالف خبریں چلانے کا شوقین اور پاکستان دشمنی میں تمام حدیں پار کرگیاہے۔اس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوبارہ آغاز کی خبریں چلانی شروع کر دیں۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پھر سے جنگ شروع ہو گئی ہے اور دونوں اطراف سے قندھار کے قریب بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا ہے کہ مقامی ذرائع نے ان جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا پر آنے والی خبر بے بنیاد اور جھوٹی ہے۔ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانابھارتی میڈیا کی عادت بن گئی ہے۔
امریکی روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیاہے کہ بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور میں کامیابی سے متعلق عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ان سے مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔ دی واشنگٹن پوسٹ نے آپریشن سندور سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر بے نقاب کیاہے جس سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کاسامنا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی میڈیا نے بی جے پی حکومت کے اشارے پرپاک بھارت جنگ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائیں، پاکستان کے تمام بڑے شہروں پر بمباری ،قبضے اور فتح کے جھوٹے دعوے کیے گئے جو کہ حقیقت کے برعکس تھے۔اے آئی کے ذریعے جنگ کی جھوٹی اور فرضی ویڈیوز،تصاویراور من گھڑت خبریں اورتصاویریں بنا کر عوام میں پھیلائی گئیں۔اخبار کے مطابق یہ صحافت نہیں بلکہ بھارتی ریاستی سرپرستی میں تیار کردہ فکشن تھا، جس کا مقصد بھارت کی عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا اور خطے میں کشیدگی کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے نام نہاد دعوئوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران جھوٹی جنگی خبریں پھیلائیں۔ فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثہ، ویڈیو گیمز کے مناظرکو "پاکستان پر حملے”کے مناظر کے طورپرپیش کیاگیا۔ زی نیوز، این ڈی ٹی وی، آج تک اور ٹائمز نائو جیسے بھارتی چینلز نے جھوٹی ویڈیوز چلائیں۔ غزہ اور سوڈان کی ویڈیوز کو پاکستان پر حملے کی ویڈیوز کے طورپرپیش کیا گیا۔بی جے پی کے زیر اثر بھارتی میڈیا چینلز نے کراچی پر حملے اور پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے جھوٹے دعوے کئے گئے جن کا دور دور تک سچائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے کسی حملے کی تصدیق نہیں کی مگر نیوز چینلز نے جنگی جنون کو ہوا دینے کیلئے پاکستان کے بیشتر شہروں پر حملوں اور قبضے اور پاکستانی فضائیہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے من گھڑت دعوے نشر کیے۔ گودی میڈیا نے ریٹائرڈ بھارتی فوجی افسران کوجنگ سے متعلق جھوٹی خبروں کو سچائی پر مبنی قراردینے کے لیے بطور ترجمان استعمال کیا۔ بی جے پی حکومت کے واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے اینکرز کوجھوٹی خبریں پہنچائی گئیں اور انہوں نے تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کئے بغیر انہیں اسی طرح نشر کردیا۔
بھارتی ”ٹی وی چینلز جھوٹی کہانیاں گھڑنے والوں کے زیر تسلط ہیں”۔ پاک بھارت جنگ سے متعلق بھارتی عوام کو گمراہ کیا گیا جس سے خود عالمی سطح پر بھارت کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بھارتی سکیورٹی عہدیدارنے اعتراف کیاہے کہ جھوٹی معلومات عوام تک پہنچانا ایک جنگی حکمت عملی تھی، لیکن اس کا نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑا۔ ریاستی پروپیگنڈا حقائق پر غالب آ گیا: سچائی کی جگہ سیاسی وفاداری نے لے لی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس تمام صورتحال پر خاموشی اختیار کی اور مودی نے سیز فائر کے دو دن بعد بیان دیا لیکن اس دوران خلا کو جھوٹ سے پر کیا گیا۔بھارتی میڈیا نے نام نہاد قوم پرستی کو پراپیگنڈے کیلئے استعمال کیا اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے تاہم اس کا نقصان ملک اور میڈیا دونوںکو اٹھانا پڑا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کے جھوٹ کی قلعی کھولنے پر مودی سرکار نے بی بی سی اور ٹی آر ٹی سمیت متعدد عالمی میڈیا پر پابندیاں عائدکردیں۔ بی جے پی کے جھوٹے بیانیہ کو چیلنج کرنے والے مقامی صحافیوں کو گرفتار کر کے انکے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، روئٹرز، ٹی آر ٹی، الجزیرہ اور بی بی سی نے جنگ سے متعلق بھارتی میڈیا کے جھوٹ کوبے نقاب اور پاکستانی میڈیا کو پیشہ ورانہ شفافیت کو سراہا ہے۔
نام نہاد امارات اسلامی کے علمبردار افغان طالبان، بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ہیں، جو اپنے مذموم مفادات کی تکمیل کے لیے فتنہ الخوارج اور طالبان کو بطور آلہ استعمال کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے دعوں کی بھرمار کی ہے، جس کا مقصد پاکستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا اور دنیا کو گمراہ کرنا ہے۔ 15اکتوبر کو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر ایک جھوٹا بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ افغان طالبان نے پاکستانی ٹینک پر قبضہ کیا ہے۔ اس بے بنیاد دعوے کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا، تاہم فیکٹ چیک پلیٹ فارم ”گروک” نے اس جھوٹ سے پردہ اٹھایا اور واضح کیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا روسی ساختہ ٹینک دراصل پہلے ہی افغان طالبان کے زیر استعمال تھا۔اسی طرح ذبیح اللہ مجاہد نے افغان دوستی گیٹ کو تباہ کرنے کے حوالے سے بھی ایک بیان جاری کیا، جسے بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے پاکستانی علاقے کی طرف کا گیٹ قرار دیا۔در حقیقت دوستی گیٹ افغانستان کی طرف سے طالبان نے آئی ای ڈی لگا کر تباہ کیا جبکہ پاکستانی سمت کا گیٹ اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکے کو بھارتی اور افغان میڈیا نے آئل ٹینکر کے پھٹنے کا نتیجہ قرار دیا جبکہ درحقیقت یہ دھماکہ پاک فوج کی جانب سے کی گئی ”پریسیڑن اسٹرائیکس” کا نتیجہ تھا۔
بھارتی گودی میڈیا فیک اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی گئی ویڈیوز سے بھی جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں شمالی وزیرستان کے شہری عادل داوڑ کو شہید پاکستانی فوجی قرار دیا گیا، جس پر خود عادل داوڑ نے ایک ویڈیو پیغام میں تمام جھوٹے دعوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی شناخت اور موجودگی کی تصدیق کی۔یہ چار بڑے جھوٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج اب بھارت کے جھوٹے بیانیے کا حصہ بن چکے ہیں۔ بھارتی حکومت اور میڈیا، افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، اور مسلسل منظم پروپیگنڈا کے ذریعے حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ بھارتی پروپیگنڈے کا جواب شواہد اور حقائق کے ساتھ دیا ہے۔ ماضی میں بھی معرکہ حق کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کیا، اور آج بھی افغان جارحیت کے دوران شواہد کے ساتھ دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا نے واشنگٹن پوسٹ افغان طالبان اور پاکستان پاکستان کے کہ بھارتی بے بنیاد کو گمراہ کے جھوٹے کے ذریعے بی جے پی کیا گیا کے جھوٹ
پڑھیں:
افغانستان بطور عالمی دہشتگردی کا مرکز، طالبان کے بارے میں سخت فیصلے متوقع
تاجکستان اور امریکا میں ہونے والے دہشتگرد حملوں نے افغانستان کے بارے میں دنیا کی تشویش میں خاطرخواہ اِضافہ کر دیا ہے اور اب عالمی اور علاقائی طاقتوں کے نزدیک افغانستان ایک بڑھتی ہوئی سیکیورٹی تشویش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد 2593 میں واضح طور پر طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی بین الاقوامی دہشتگرد تنظیم کے لیے پناہ گاہ نہ بننے دیں۔ بین الاقوامی انسدادِ دہشتگردی ادارے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں مختلف عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی اور ان کی سرحد پار سرگرمیوں کی صلاحیت خطے اور دنیا دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟
بعض رپورٹس کے مطابق شام سے جنگجوؤں کے افغانستان منتقل ہونے اور وہاں سے نئے علاقائی خطرات پیدا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی برادری طالبان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے کیمپ ختم کریں، فنڈنگ روکیں اور بیرونِ ملک کارروائیوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کریں۔
علاقائی طاقتیںخصوصاً پاکستان، چین، روس اور ایران، اس سلسلے میں سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ ان ممالک نے حال ہی میں مشترکہ طور پر اس امر پر زور دیا ہے کہ افغانستان کو دہشتگردی کے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ ان کے مطابق ای ٹی آئی ایم، بی ایل اے، داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہ نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ خطے کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بھی بنتے ہیں۔
ان ممالک کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ طالبان حکومت دہشتگرد گروہوں کے خلاف موثر، ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے، ان کے کیمپ بند کرے، مالی معاونت روکے، اسلحے کی ترسیل ختم کرے اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کو یقینی بنائے۔
مغربی طاقتیںخصوصاً امریکا اور یورپی یونین اس سلسلے میں ایک محتاط اور دو بدو پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ طالبان انسانی حقوق، خواتین کی آزادی اور سیاسی شمولیت پر مغربی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتے، لیکن سیکیورٹی خطرات کے باعث مغربی ممالک طالبان کے ساتھ محدود رابطہ برقرار رکھنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
بعض یورپی ریاستوں نے عملی ضرورت کے تحت طالبان کے ساتھ تکنیکی سطح پر تعلقات قائم کیے ہیں تاکہ مہاجرین، انسدادِ دہشتگردی اور باہمی سیکیورٹی امور پر گفتگو جاری رہ سکے، مگر باضابطہ تسلیم کرنے یا مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔
اگر ہم بھارت کو سبق سکھا سکتے ہیں تو یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، اسحاق ڈارنائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے 19 اپریل کو افغانستان کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے پورے کئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کا معاملہ چلتا رہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہونی چاہیئے۔ اسحاق ڈار نے سوال اُٹھایا کہ ہر قسم کے دہشتگرد گروہ افغانستان میں ہی کیوں ہیں اور افغان ان گروہوں کو نکال باہر کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ گذشتہ روز اقوام متحدہ کی جانب سے درخواست آئی ہے کہ افغانستان کے لیے انسانی امداد و خوراک کو بحال کریں، میں نے مسلح افواج کے سربراہ سے بات کی ہےجلد وزیراعظم سے بھی بات کروں گا، جلد ہم عام افغان عوام کی تکالیف کو دیکھتے ہوہے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد و خوراک کے جانے کی اجازت دیں گے۔
پاک افغان ناکام مذاکرات پر افغان ہرزہ سرائی کے بعد اچانک افغان حکومت کے روّیے میں تبدیلی
اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے شروع میں پاک افغان مذاکرات ناکام ہوئے تو افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیرخان متقی نے کہا کہ دہشتگردی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے اور پاکستان اِس کی ذمے داری افغانستان پر ڈالنا چاہتا ہے، یہ بات اُنہوں نے بھارت میں بھی کہی جس کو بھارت میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ لیکن پاکستان 4 سال قبل افغان طالبان رجیم کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک سرحد پار دہشتگردی کا شکار ہے جس کو بعض ممالک کی جانب سے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
گزشتہ 3 دن کے واقعات جس میں افغان سرزمین سے تاجکستان پر حملہ اور 3 چینی شہریوں کی ہلاکت، اِسی طرح سے افغان شہری کی فائرنگ سے واشنگٹن ڈی سی میں 2 امریکی فوجیوں کے قتل کے بعد سے عالمی سطح پر افغانستان کو دہشتگردی کے مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان سے تاجکستان پر ڈرون حملہ اور فائرنگ، 3 چینی باشندے ہلاک
جہاں ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی طیاروں میں ہزاروں افغانوں کی امریکا آمد کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں امریکی ویزا ڈیپارٹمنٹ نے افغان پاسپورٹس پر تمام مسافروں کی آمد پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں موجود تمام افغان باشندوں کے گرین گارڈ اور سیاسی پناہ کے عمل کو روک دیا ہے۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکا میں موجود افغان باشندوں نے افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے حملے اور دہشتگردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ اُن کے خلاف ایکشن نہ لیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مقیم اکثر افغانی پاکستان میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کی کبھی مذمت نہیں کرتے بلکہ اُس پر سوشل میڈیا پر فخریہ انداز میں باتیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف تاجکستان حکومت افغانستان کو دہشتگردی اور عدم استحکام کا ممکنہ مرکز سمجھتی ہے، اور اس خوف کی بنیاد صرف ماضی کے واقعات نہیں بلکہ مستقبل کی پیش گوئی پر بھی ہے۔ تاجکستان کی تشویش کی وجوہات، سرحدی قربت، دہشتگرد نیٹ ورکس، مہاجرین/پناہ گزین دباؤ، اور علاقائی سیکیورٹی، سب مل کر یہ مؤقف مضبوط کرتی ہیں کہ افغانستان کی حالت براہِ راست تاجکستان کے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے
افغان شہریوں کی بیدخلی پاکستان پر تنقید کرنے والے ممالک بھی افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کر رہے ہیں
2023 میں جب پاکستان نے افغان شہریوں کی بیدخلی کے عمل کو شروع کیا تو اُس پر عالمی اداروں جیسا کہ یو این ایچ سی آر اور مغربی ممالک کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی لیکن اب امریکہ بھی افغان شہریوں کی بیدخلی کی بات کر رہا ہے اور اِس سے قبل اگر دیکھا جائے تو یورپ میں جرمنی نے 2021 کے بعد دوبارہ منظم ڈی پورٹیشن شروع کی اور 2025 میں درجنوں افغان مردوں کو واپس بھیجا، جبکہ سویڈن، نیدرلینڈز، آسٹریا، بیلجیم، فرانس، ڈنمارک، ناروے، سپین، اٹلی اور سویٹزرلینڈ نے بھی مسترد شدہ پناہ کی درخواستوں یا مجرمانہ ریکارڈ کی بنیاد پر افغان باشندوں کو ڈی پورٹ کیا۔ جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا سے بھی افغان باشندوں کی واپسی کی مثالیں ملیں۔ خلیجی ریاستوں میں یہ زیادہ تر غیرقانونی رہائش یا سکیورٹی بنیادوں سے منسلک تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار امریکا پاک افغان تاجکستان دہشتگردی طالبان