اے آئی میں سرمایہ کاری کا بلبلہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
لاہور:
پچھلے 2 برس میں شعبہ مصنوعی ذہانت میں کام کرتی مغربی آئی ٹی کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باعث تگنی چوگنی بڑھ چکی ہے۔
مثلاً اکتوبر 24ء میں چیٹ جی بی ٹی کی کمپنی، اوپن اے آئی کی ویلیو 157 ارب ڈالر تھی جو محض ایک سال میں آج 500 ارب ڈالر ہو چکی۔
اسی طرح اب بہ لحاظ مارکیٹ ویلیو دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ، این ویڈیا( 4.
مسئلہ یہ ہے ، اوپن اے آئی سمیت کئی بڑی اے آئی کمپنیاں ابھی منافع بخش نہیں بن سکیں ۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر انھوں نے جلد منافع نہ دیا تو انویسٹرز میں کمپنیوں سے سرمایہ واپس نکالنے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
گویا 2000ء میں جیسے ’’ڈاٹ کام ببل‘‘ پھٹا تھا اسی طرح اے آئی کا بلبلہ بھی پھٹ سکتا جو عالمی معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب کریگا ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اے ا ئی
پڑھیں:
کارپوریٹ ٹیکس اورغیر ملکی سرمایہ کاری میں براہِ راست تعلق
کراچی:پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی اور جمودکی بڑی وجہ ملک میں بلند ترین کارپوریٹ ٹیکس ریٹ ہے، پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 29 فیصد ہے،جس میں 10 فیصد سپر ٹیکس، 2 فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ، 5 فیصد ورکرز پارٹیسپیشن فنڈ اور منافع پر 15 فیصد ٹیکس بھی شامل ہے،یہ ٹیکس بوجھ نہ صرف کاروبارکیلیے مہنگا ماحول پیداکرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی متبادل اور سازگار ممالک کی طرف راغب کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں دستخط شدہ کئی مفاہمتی یادداشتیں عملی شکل اختیارکرنے میں ناکام رہیں،کئی بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے کاروبار سمیٹ چکی ہیں،عالمی سطح پر مقابلہ بازی کااصول صرف نجی شعبے تک محدود نہیں بلکہ حکومتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ہر حکومت کو سرمایہ کاری کیلیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے،جس میں کم ٹیکس اور واضح ضوابط بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔
2000 کے بعد سے تمام OECD ممالک نے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کی ، OECD ممالک کااوسط کارپوریٹ ٹیکس ریٹ اس وقت 23 فیصد ہے،جہاں ہنگری میں یہ صرف 9 فیصد،جبکہ فرانس میں سب سے زیادہ 34 فیصدہے۔
کارپوریٹ ٹیکس ریٹ نہ صرف سرمایہ کاروں کی ترجیحات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کو رفتار دینے، روزگار بڑھانے اور ٹیکس آمدنی میں اضافے کامؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر اپنے ٹیکس ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، اصلاحات نہ کی گئیں تو نہ صرف سرمایہ کاری میں مزیدکمی واقع ہوگی، بلکہ معیشت مزید دباؤکاشکار ہو سکتی ہے۔
ایسے میں حکومت کافرض بنتا ہے کہ وہ عالمی مقابلے کے اصولوں کوسمجھے اور "ایڈم اسمتھ" کے مشہور تصور "نظر نہ آنیوالا ہاتھ" کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کرے، تاکہ پاکستان بھی عالمی معیشت کا مؤثر حصہ بن سکے۔