امریکا دنیا کا سب سے مقروض ملک، بھارت کا ساتواں نمبر؛ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
امریکی تحقیقی ادارے ورلڈ پاپولیشن ریویو کی تازہ رپورٹ کے مطابق 3 ٹریلین(3ہزار ارب) ڈالر’’قومی قرض‘‘ کے ساتھ بھارت ساتواں بڑا مقروض ملک بن گیا اور اس کا ہر شہری 504 ڈالر کا قرض دار ہے۔
بھارتی حکومت ہر سال اربوں ڈالر کا صرف سود ادا کرنے لگی اور کروڑوں شہری بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان کا 33 واں نمبر جس پر 260.
سرفہرست امریکا جس پر 32.9 ٹریلین ڈالر کا قومی قرضہ چڑھا اور ہر امریکی تقریباً 76ہزار ڈالر کا قرض دار ہے ۔ پھر چین(15ٹریلین ڈالر)،جاپان(10.9 ٹریلین ڈالر )، برطانیہ(3.4 ٹریلین ڈالر ) ، فرانس (3.4 ٹریلین ڈالر )، اٹلی(3.1 ٹریلین ڈالر )، بھارت(3 ٹریلین ڈالر )، جرمنی(2.8 ٹریلین ڈالر ) ،کینیڈا (2.3 ٹریلین ڈالر )،برازیل(1.8 ٹریلین ڈالر ) کا نمبر آتا ہے۔
بڑے ممالک میں سب سے کم قومی قرض افغانستان کا 1.6ارب ڈالر اور ہر افغان 30 ڈالر کا مقروض ہے۔ فی کس طور پر بڑے ملکوں میں سرفہرست آئرلینڈ ہے۔ ہر شہری 6 لاکھ 14ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔
عالم اسلام میں مقروض ترین ملک انڈونیشیا(543 ارب ڈالر)، مصر(377 ارب ڈالر)،ترکی(330 )سعودی عرب(280 ) اور ملائیشیا(278 ) ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈالر کا مقروض ٹریلین ڈالر ارب ڈالر
پڑھیں:
کراچی کیلئے خطرے کی گھنٹی
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کراچی سمیت کئی بڑے شہروں میں اربن ہیٹ ایفیکٹ کے شدید خطرے سے خبردار کیا گیا ہے،
اس رپورٹ نے اس بات پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں کہ مالی طور پر مشکلات کا شکار حکومت شہری ماحولیاتی آفات کو کیسے روکے گی یا ان کے اثرات کو کیسے کم کرے گی۔
اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل (UNESCAP) نے اپنی ایشیا پیسیفک ڈیزاسٹر رپورٹ 2025 میں کراچی کو ایشیا پیسیفک کے ان9 بڑے میگا شہروں میں شامل کیا ہے جن کے مستقبل میں نمایاں طور پر زیادہ گرم ہونے کا امکان ہے۔
اس کی بڑی وجہ تیز رفتار اور غیر منصوبہ بند شہری توسیع اور کمزور انفراسٹرکچر ہے، جو اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ کو جنم دیتا ہے یعنی گنجان تعمیرات، کنکریٹ اور اسفالٹ گرمی کو جذب اور محفوظ رکھتی ہیں، جس کے نتیجے میں شہر کے درجہ حرارت میں آس پاس کے نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقوں کے مقابلے 2 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ شہری بحران تمام شہریوں پر یکساں اثر نہیں ڈالے گا بلکہ بچوں، بزرگوں اور کھلے آسمان تلے کام کرنے والے مزدوروں کے لیے صورتحال زیادہ سنگین ہوگی خاص طور پر جب وہ کم آمدنی والے گنجان آباد علاقوں میں رہتے ہوں۔ جبکہ اس کے برعکس ان حالات سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ ترانتہائی امیر افراد اور کاروباری ادارے ہیں، جو ممکن ہے خود ان شہروں میں رہتے بھی نہ ہوں۔مقامی آبادی کے اندر بھی امتیاز واضح ہے۔
سرسبز اور بہتر منصوبہ بند ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہنے والوں پر بڑھتی حرارت کا اثر شاید کم پڑے، مگر شہر کے گنجان اور پسماندہ حصوں میں رہنے والے شہری بجلی کی عدم فراہمی، پانی کی کمی اور صحت کی سہولتوں کا فقدان کے سبب موسم کی سنگینی کازیادہ سامنا کریں گے۔ رپورٹ نے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ ملک بھر میں ممکنہ خشک سالی شہری علاقوں کو مزید گرم کرے گی، پانی کی دستیابی کم کرے گی اور زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے باعث کئی زرخیز علاقے بنجر ہو سکتے ہیں اور وہاں موجودہ فصلیں اگانا ممکن نہیں رہے گا۔
اگرچہ پاکستان اکیلے موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو نہیں پا سکتا، لیکن اسلام آباد اور صوبائی حکومتوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ سائنس پر مبنی طویل مدتی حکمتِ عملی اختیار کریں، جس میں انتہائی گرمی کو شہری منصوبہ بندی اور آفات کے خطرات سے نمٹنے کے مرکزی نکتے کے طور پر رکھا جائے۔ اس کے لیے ہیٹ ویو سے متعلق ابتدائی خبردار کرنے کے نظام میں سرمایہ کاری، صحت عامہ کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور فطرت پر مبنی حل جیسے شہروں میں سبز مقامات کا اضافہ ضروری ہیں تاکہ اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ کو کم کیا جا سکے،لیکن کیا ہمارے وزیراعظم اور خاص طورپر وزیراعلیٰ سندھ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭