کراچی میں ٹینکر مافیاکا پانی سونے کے دام فروخت ،منی ہائیڈرنٹ چلنے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
سیاسی سرپرستی میں پولیس اور ایکسیٔن کی پانی چوروں سے ماہانہ لاکھوں روپے بھتا وصولی
ڈیفنس ویو ، قیوم آباد ، جونیجو ٹاؤن، منظور کالونیکے عوام مہنگے داموں ٹینکر خریدنے پر مجبور
( رپورٹ: افتخار چوہدری )ضلع ایسٹ کے علاقے بلوچ کالونی پولیس اسٹیشن اور منظور کالونی پمپنگ اسٹیشن کے ایکسیٔن کی سرپرستی میں ڈیفنس ویو ، قیوم آباد ، جونیجو ٹاؤن اور منظور کالونی میں منی ہائیڈرنٹ چلنے کا انکشاف ہوا ہے۔لائینوں کے ذریعے گھروں میں پانی ملنے کی لالچ میں ووٹ دینے والی غریب عوام مہنگے داموں پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہو گئی۔ سیاسی سرپرستی میں متعلقہ پولیس اور واٹر بورڈ منظور کالونی پمپنگ اسٹیشن کا عملہ پانی چوروں سے ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتاہے۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں شہریوں کے لیے پانی کا حصول دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے، بیشتر علاقوں میں نلکوں کے ذریعے پانی کے بجائے ہوا نکلتی ہے جبکہ جو ٹینکر پہلے کم ریٹس پر مل جاتے تھے اب دگنے اور تین گنا دام میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔جبکہ سندھ حکومت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے اعلیٰ حکام نے واٹر ٹینکرز مافیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، سرکاری ہائیڈرنٹ پر کمرشل واٹر ٹینکرز کے ریٹس، ٹینکرز کی تعداد اور ٹرپس میں غیرمعمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ ان واٹر ٹینکرز کی وجہ سے شہری لائن کے ذریعے پانی سے محروم ہوگئے ہیں جبکہ ٹینکرز کی آمد و رفت کی وجہ سے اہم شاہرائیں اور سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔کراچی واٹر کارپوریشن کی نااہلی کے باعث شہر قائد کے مختلف علاقوں میں پانی کی زیر زمین لائینیں موجود ہونے کے باوجود ہزاروں مقیم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔جبکہ کراچی شہر میں واٹر کارپوریشن کی زیر نگرانی واٹر ہائیڈرینٹس کی تعداد 7 ہے جو سخی حسن، نیپا چورنگی، صفورا چورنگی، کرش پلانٹ، شیر پاؤ کالونی، لانڈھی ون فیوچر کالونی اور بلدیہ ٹاؤن میں واقع ہیں۔ واٹر بورڈ کی زیر نگرانی ہائیڈرینٹس میں ٹینکرز کے یومیہ 40ہزار سے 50ہزار ٹرپس ہوگئے ہیں، ان ٹینکرز کے ذریعے روزانہ 30 سے 40 ملین گیلن پانی شہریوں کو فروخت کیا جاتا ہے،اس کے علاوہ شہر میں ابھی بھی درجنوں غیر قانونی ہائیڈرینٹس کام کر رہے ہیں جو واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کرکے فروخت کرتے ہیں۔ذرائع کے مطابق بلوچ کالونی تھانے کی حدود ڈیفنس ویو، جونیجو ٹاؤن اور منظور کالونی میں پانی چور مافیا نے RO پلانٹ کی آڑ میں غیر قانونی منی ہائیڈرنٹس کھول رکھے ہیں ۔جبکہ پانی چور مافیا نے زمہ دار اداروں کے ساتھ مل کر رہائشی عمارتوں کے نیچے ہزاروں گیلن پانی کے زیر زمین ٹینک بنا رکھے ہیں جہاں سے یومیہ ہزاروں گیلن چوری شدہ پانی واٹر ٹینکروں کے زریعے غیر قانونی طریقے سے شہریوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق ڈیفنس ویو کے علاقے میں واقع پلاٹ نمبر SS-53 پلاٹ نمبر SS-52 پر منی ہائیڈرنٹ سراج خٹک اور محمود چلا رہا ہے ۔جبکہ اس ہی علاقے میں مذکورہ علاقے میں پلاٹ نمبر K-88 پر منی ہائیڈرنٹ منشاء نامی شخص اور پلاٹ نمبر DD-36 پر منی ہائیڈرنٹ ثاقب عرف پاشا چلا رہا ہے ۔ بلوچ کالونی تھانے سے چند قدم کے فاصلے پر ڈیفنس ویو دیوار کے ساتھ چائنا کٹنگ پلاٹ پر ایم سہیل برادر منی ہائیڈرنٹ دھڑلے سے چلا رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق جونیجو ٹاؤن میں غیر قانونی منی ہائیڈرنٹ مصطفی نامی شخص چلا رہا ہے ۔ منظور کالونی میں بھی جگہ جگہ رہائشی گھروں میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس متعلقہ پولیس اور ایکسین منظور کالونی پمپنگ اسٹیشن کی سرپرستی میں چل رہے ہیں ۔ ڈیفنس ویو کے پانی چور بلوچ کالونی پولیس اور واٹر بورڈ منظور کالونی پمپنگ اسٹیشن کے ایکسیٔن و عملے کو ماہانہ لاکھوں روپے رشوت کے عوض ادا کر رہے ہیں ۔واضع رہے کہ اس علاقے کی عوام نے پانی لائنوں کے ذریعے گھروں تک پہنچنے کے جھوٹے وعدوں پر سیاسی جماعت کو ووٹ دیے تھے ۔لیکن علاقے میں کچھ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی مافیا اسی غریب عوام کا پانی چوری کر کے مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: منظور کالونی پمپنگ اسٹیشن منی ہائیڈرنٹ جونیجو ٹاو ن مہنگے داموں سرپرستی میں بلوچ کالونی واٹر بورڈ پولیس اور پلاٹ نمبر علاقے میں کے مطابق کے ذریعے رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ میں دودھ کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت، کراچی میں فروخت ہونے والا دودھ ناقص قرار
سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے دودھ کی کوالٹی سے متعلق جامع رپورٹ پیش کردی۔
رپورٹ کے مطابق شہر میں دودھ کی ترسیل اور فروخت کے دوران نہ صرف حفظان صحت کے اصولوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ سنگین نوعیت کی ملاوٹ بھی پائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خیبر پختونخوا: جعلی اور مضر صحت دودھ بنانے والا بڑا نیٹ ورک بے نقاب
عدالتی احکامات پر دودھ کی قیمتوں کے تعین کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس منعقد کیا گیا، جس کی تفصیلات بھی عدالت میں جمع کرائی گئیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات شہریوں کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔
دودھ فروشوں کی درخواست پر شہر کے مختلف علاقوں سے دودھ کے نمونے جمع کیے گئے۔ مجموعی طور پر 57 نمونے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو بھیجے گئے، جس نے اپنی رپورٹ میں تمام نمونے انسانی استعمال کے قابل قرار نہیں دیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانیوں نے ایک سال میں کتنا دودھ پیا اور کتنا گوشت کھایا؟
رپورٹ کے مطابق 22 نمونوں میں فارمولین جبکہ 8 میں فاسفیٹ کی ملاوٹ پائی گئی، جو سنگین نوعیت کی کیمیکل ملاوٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔ کمشنر کراچی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملاوٹ کے مسئلے کے تدارک کے لیے متعلقہ تنظیموں کو مشترکہ ایس او پیز تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب بیورو آف سپلائی نے سردیوں میں دودھ کی کم کھپت کے باعث قیمت میں اضافہ نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ نئی طے شدہ قیمتوں کے مطابق ڈیری فارمرز کے لیے دودھ کی فی لیٹر قیمت 200 روپے، ہول سیلرز کے لیے 208 روپے اور ریٹیلرز کے لیے 220 روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اشیائے خورونوش دودھ معیار