داعش خراسان کے تاجک، کرغیز، ازبک اور قازق زبانوں میں دہشت گردوں کی بھرتی کے لئے آن لائن اشتہارات
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
بورٹنیکوف نے افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات اور منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان انٹیلی جنس کے ساتھ بھرپور تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ روسی حکام نے سیکیورٹی کمپنیوں کو داعش کی دراندازی اور دہشت گرد بھرتی کر کے افغانستان منتقل کرنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ روسی فیڈرل سیکیورٹی سروس کے سربراہ نے کہا ہے کہ داعش خراسان کی دہشت گرد بھرتی کر کے انہیں افغانستان منتقل کرنے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس نیٹ ورک کو مضبوط کرنے میں غیر ملکی نجی ملٹری کمپنیاں ملوث ہیں۔
روس کی فیڈرل سیکیورٹی سروس کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنیکوف نے ازبکستان کے شہر سمرقند میں ایک اجلاس میں کہا کہ افغانستان میں داعش کی خراسان شاخ کی طرف سے جنگجوؤں کی بھرتی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ نیٹ ورک کچھ غیر ملکی نجی فوجی کمپنیوں کی مدد سے وسائل اور نئی فورس حاصل کر رہا ہے۔ بورٹنیکوف کے مطابق داعش کا مقصد وسطی ایشیائی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا اور خطے کی سرحدوں پر اثر انداز ہونا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ داعش کی خراسان شاخ نے تاجک، کرغیز، ازبک اور قازق زبانوں میں فعال آن لائن اشتہارات شروع کر دیے ہیں اور عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں کا نیٹ ورک پھیلایا جا رہا ہے۔ سینئر روسی عہدیدار نے زور دے کر کہا کہ خراسان شاخ کو مضبوط کرنا غیر ایشیائی طاقتوں کے لیے فائدہ مند ہے اور یہ طالبان حکومت کی طاقت کو کمزور کرے گا اور آزاد دولت مشترکہ ممالک کی جنوبی سرحدوں کے ساتھ دہشت گردی کے خطرات کا ایک طویل مدتی مرکز بنائے گا۔
بورٹنیکوف نے افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات اور منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان انٹیلی جنس کے ساتھ بھرپور تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ روسی فیڈرل سیکیورٹی سروس کے سربراہ نے مزید کہا کہ منشیات کے اسمگلروں نے اپنی توجہ مصنوعی اور سائیکو ٹراپک مادوں کی تیاری اور نقل و حمل پر مرکوز کر دی ہے اور ان منشیات کو سرحدوں کے پار پہنچانے کے لیے نئے طریقے تیار کیے گئے ہیں، ان بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کے 23 ہزار سے زائد دہشت گرد طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے لیے ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
سردی آنے پر افغانستان سے دہشتگردوں کی آمد کا خطرہ بڑھ گیا
پشاور:موسم سرد ہوتے ہی افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان آمد کا خطرہ بڑھ گیا۔ شدت پسندوں نے حکمت عملی تبدیل کرکے چترال، کرم، باجوڑ، خیبر سے انٹری کی کوشش کی، بروقت رسپانس ان حملوں اور نئی تشکیلوں کو ناکام بنا دیا گیا.
کے پی پولیس نے ’’ایکسپریس ‘‘کو بتایا کہ سرحد پار سے حملوں کے بعد نیا سکیورٹی پلان تیار کر لیا گیا جبکہ افغان مہاجرین کی شکل میں شدت پسندوں کیساتھ رابطہ کاروں کی چھان بین شروع کر دی گئی۔
پشاور، خیبر، مہمند، باجوڑ میں اسر نو سکیورٹی کا جائزہ لیا گیا۔ 2024ء میں 232، رواں سال پولیس پر 382 حملے ہوئے۔ 2024ء میں 105، 2025ء میں 244 حملے ناکام بنائے گئے۔
دہشت گردوں کے اس سال کے چھ ماہ کے دوران بڑے حملوں کو روکا گیا۔
آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت، ہنگو اور پشاور سمیت ملاکنڈ میں بڑے حملوں کو روکا گیا بلکہ دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کو توڑا گیا.
خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں افغان مہاجرین کے روپ میں چھپے افغان دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی چھان بین شروع کر دی گئی ۔