قائمہ کمیٹی اجلاس: ناز بلوچ نے کےالیکٹرک کے کنسلٹنٹس کے ذریعے رابطوں کا معاملہ اٹھادیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
کولاج فوٹو: فائل
رکن پارلیمنٹ حفیظ الدین کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس ہوا۔ جس کے دوران رکن کمیٹی ناز بلوچ نے کےالیکٹرک کے کنسلٹنٹس کے ذریعے رابطوں کا معاملہ اٹھادیا۔
انکا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک کی جانب سے کنسلٹنٹس کے ذریعے رابطہ کیا گیا، کنسلٹنٹس کمیٹی اجلاس کے بعد کےالیکٹرک کی وکالت کرتے ہیں۔
ناز بلوچ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی پروسیڈنگ میں کنسلٹنٹس کے ذریعے مداخلت کی کوشش کی گئی، ایسا نہیں ہونا چاہیے، کےالیکٹرک کیلئے قائمہ کمیٹی کا فورم موجود ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کےالیکٹرک کیسے براہ راست کسی بھی معاملہ پر ارکان کمیٹی کو اپروچ کرسکتی ہے؟
رکن کمیٹی مہرین رزاق کا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک کی نجکاری کراچی کے عوام کو سستی اور بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کیلئے کی گئی، کراچی کے عوام کو مہنگی بجلی مل رہی ہے اور ترسیلی نظام بھی درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران 40 ارب کی سبسڈی صنعتوں کو تاحال فراہم نہیں کی گئی۔
اجلاس کے دوران سی ای او کےالیکٹرک مونس علوی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر 2021 سے جون 2022 تک ہم نے سبسڈی دی، اضافی گروتھ پر باقی سبسڈی صنعتوں کو دینا تھی۔
انکا کہنا تھا کہ کورونا کے دوران ہماری گروتھ گر گئی، سبسڈی کی پوزیشن میں نہیں رہے، کراچی کی انڈسٹری کو سبسڈی نہیں ملی، یہ ان کا حق ہے۔
سی ای او کےالیکٹرک نے کہا کہ 7 ارب کی سبسڈی جو حکومت نے دی تھی وہ ہم آگے دے چکے ہیں، باقی ہم سے وہ سبسڈی مانگی گئی جو حکومت نے دی ہی نہیں۔
اجلاس کے دوران صدر کراچی چیمبر جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک سبسڈی صارفین کو منتقل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
کمیٹی رکن ناز بلوچ نے سی ای او کےالیکٹرک کے کمیٹی اجلاس میں رویے پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ پہلے تو کےالیکٹرک کے سی ای او آتے نہیں تھے، اب آکر اس طرح بات نہ کی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہاں اپنی ذات کی بات نہیں کر رہے، کےالیکٹرک کے سی ای او اپنی کمپنی کا دفاع کریں مگر کمیٹی میں اس طرح بات نہ کریں۔
اجلاس کے دوران نیپرا حکام کا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک نے کورونا کے دوران صنعتی صارفین سے اپنا ٹیرف چارج کیا۔
قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں معاملے پر چیئرمین نیپرا کو طلب کرلیا۔
کےالیکٹرک کو آؤٹ آف کورٹ معاملہ ختم کرنے کی آفر کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیپرا چیئرمین اور کےالیکٹرک کو بٹھا کر معاملے کا حل نکالتے ہیں، اس پر سی ای او کےالیکٹر کا کہنا تھا کہ اگر فیصلہ موزوں ہوا تو مانیں گے اور اگر خلاف ہوا تو قانونی فورمز کا حق ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کنسلٹنٹس کے ذریعے قائمہ کمیٹی ناز بلوچ نے نے کہا کہ اجلاس کے کے دوران سی ای او
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔