اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعرات کے روز ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان کے خلاف افغانستان میں پنپنے والی مبینہ دہشت گردی کے مسئلے کو اجاگر کیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی تمام کوششیں اسی کے سبب رائیگاں ہوتی رہی ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، "ہم تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن یقیناً سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی کی صورتحال اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔

"

دفتر خارجہ کے ترجمان سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کی ایک متوقع میٹنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا اور اسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بات کی۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور جے سی سی کی ایک میٹنگ پر اتفاق کیا تھا۔

تاہم ترجمان نے جے سی سی کے اجلاس کی تاریخ کے بارے میں بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے "معلومات مزید بات چیت کے بعد شیئر کریں گے۔"

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے گزشتہ ماہکابل کا دورہ کیا تھا، جہاں فریقین نے سلامتی، تجارت اور پناہ گزینوں کے مسائل سمیت دیگر اہم امور پر رابطے کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

کابل اور اسلام آباد میں کشیدگی

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گردانہ واقعات میں اضافے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے طالبان پر عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان سرزمین سے کام کرنے کی اجازت دینے، سرحد پار حملوں کو تیز کرنے اور سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔

اسلام آباد کو امید تھی کہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان زیادہ تعاون پر مبنی علاقائی پارٹنر سامنے لائے گی، تاہم اس کے بعد سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب پاکستان بہت محتاط ہو گیا ہے۔ ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار سفارتی تنازعہ پیدا ہوا ہے اور اقتصادی اور سکیورٹی تعاون پر بھی اس کا سایہ پڑا ہے۔

افغانستان میں امریکی اسلحے کے حل پر امریکہ اور پاکستان میں اتفاق

بھارت کے "متنازعہ قانون" پر پاکستان کا رد عمل

اسلام آباد نے بھارت میں حال ہی میں منظور شدہ وقف (ترمیمی) بل 2025 کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس متنازعہ قانون کو ایک ایسا امتیازی اقدام قرار دیا جو بھارتی مسلمانوں کے مذہبی اور اقتصادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ان کی پسماندگی کو مزید بڑھتا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں تقریبا تمام مسلم تنظیمیں اس قانون کی مخالفت کرتی رہی ہیں اور اس کی منظوری سے پہلے جو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے، وہ اب بھی مختلف شہروں میں جاری ہیں۔ بھارتی مسلمان اس قانون کو اپنے حقوق غصب کرنے والا بتایا ہے۔

پاک افغان حکام کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا، "وقف ترمیمی ایکٹ کے بارے میں، ہمارا پختہ یقین ہے کہ یہ قانون بھارتی مسلمانوں کے مذہبی اور اقتصادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

خاص طور پر یہ ایکٹ مسلم کمیونٹی کے املاک کے حقوق کو غصب کرتا ہے، اور ممکنہ طور پر ان کو متعدد مساجد، مزارات اور دیگر مقدس مقامات سے محروم کر سکتا ہے۔"

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کھول دی

بھارتی پارلیمنٹ نے اس ماہ کے اوائل میں وقف (ترمیمی) بل کو منظوری دی تھی، جسے متعدد مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسے منسوخ نہ کیا گیا تو اس کے خلاف جیل بھرو تحریک شروع کی جائے گی۔

ص ز/ ر ب (نیوز ایجنسیاں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دفتر خارجہ کے ترجمان اور اقتصادی اسلام آباد کے درمیان

پڑھیں:

پاکستان کی انٹیلی جنس شراکت سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، امریکی اعتراف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی سینٹ کام کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس شراکت سے امریکا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

امریکی فوج کے اعلیٰ ترین حلقوں سے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو ایک مرتبہ پھر سراہا گیا ہے اور اس بار یہ اعتراف امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا کی جانب سے سامنے آیا ہے، جنہوں نے کھل کر پاکستان کو انسداد دہشت گردی کا ایک اہم اور قابلِ بھروسا شراکت دار قرار دیا ہے۔

ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کی ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گرد عناصر کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ہے بلکہ عالمی امن کے قیام میں بھی اس کا کردار قابلِ قدر ہے۔

امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے جنرل کوریلا نے زور دیا کہ دہشت گرد تنظیم داعش خراسان آج کی دنیا میں بدستور ایک فعال خطرہ ہے، مگر پاکستان کی مربوط حکمت عملی نے اس خطرے کو بڑی حد تک محدود کرنے میں مدد دی ہے۔

انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے اور قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے میں نہ صرف داعش خراسان کو زبردست دھچکا پہنچا، بلکہ اس تنظیم کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو ہلاک یا گرفتار بھی کیا گیا۔

جنرل کوریلا کے مطابق اس اشتراکِ عمل کے دوران دہشت گردی کے کئی بڑے نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا گیا اور اس میں سب سے اہم کامیابی ایبے گیٹ بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری تھی، جسے بعد ازاں امریکی حکام کے حوالے کیا گیا۔ اس اہم کارروائی کی اطلاع بذاتِ خود پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جنرل کوریلا کو دی، جو اس سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور تعاون کا عملی مظہر ہے۔

جنرل کوریلا نے پاکستان کی جانب سے محدود وسائل کے باوجود انٹیلی جنس معلومات کے مؤثر تبادلے اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے کیے گئے اقدامات کو انتہائی مؤثر اور پیشہ ورانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش خراسان اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں متحرک ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان نے عملی کارروائیاں کر کے اس تنظیم کی کمر توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مزید برآں جنرل کوریلا نے واضح کیا کہ صرف 2024ء کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد حملے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جن میں سیکڑوں سیکورٹی اہلکار اور عام شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ان پے در پے حملوں کے باوجود پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے محاذ پر نہ صرف ثابت قدمی دکھائی ہے بلکہ مسلسل کارروائیوں کے ذریعے خطرات کو محدود کیا ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں داعش خراسان کی سرگرمیوں میں واضح کمی آئی ہے اور تنظیم کے متعدد نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا ہے۔ جنرل کوریلا نے اس پہلو کو بھی اجاگر کیا کہ پاکستان کی کوششوں نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کے مجموعی منظرنامے کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اپنے خطاب کے اختتام پر جنرل کوریلا نے امریکا کی جنوبی ایشیائی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو بیک وقت پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ضروری امر نہیں کہ بھارت کے ساتھ قربت کے باعث پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں۔ اس بیان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ امریکا خطے میں توازن برقرار رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو بیک وقت مضبوط رکھنے کا خواہاں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کیخلاف جنگ، پاکستان اور اسپین ایک پیج پر
  • بھارت الزامات لگانے کے بجائے اپنی دہشت گردی پر غور کرے،ترجمان دفتر خارجہ
  • بھارت کو اپنی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے پرغور کرنا چاہیے، دفترخارجہ
  •  امریکی سینٹرل کمانڈ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا
  • پاکستان کی انٹیلی جنس شراکت سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، امریکی اعتراف
  • پاکستان اہم ترین شراکت دار،تعلقات بھارت سے مشروط نہیں ہیں،امریکی فوجی سربراہ
  •  خطے کے استحکام میں روس کا کردار کلیدی، تعلقات بہتر ہوئے ہیں:    صدر زرداری 
  • پاک روس تعلقات گزشتہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں، آصف زرداری
  • پاک روس تعلقات مشترکہ مفادات کی بنیاد پر گزشتہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں، صدر مملکت
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟