اردو میں خاکہ نگاری کا پہلا نمونہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی‘‘ کی صورت میں ملتا ہے، تاہم اس سلسلے میں بعد میں آنے والی کتابوں میں ’’مردم دیدہ‘‘ کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چراغ حسن حسرت کے یہ مضامین جامع اور مختصر ہیں، اسلوب رواں دوا شستہ اور دلچسپ ہے۔ ’’مردم دیدہ میں چند ایسے مشاہیر کی زندگی کے متعلق مضامین ہیں جن سے مصنف کے ذاتی طور پر مراسم رہے۔ حسرت صاحب کی خوش طبعی اور لطیف شگفتہ انداز بیاں نے کتاب کو دل آویزی بخش دی ہے۔
پہلا خاکہ آغا حشر کاشمیری کا ہے، لکھتے ہیں ’’آغا حشر اور ڈرامہ تینوں لفظ (آغا+حشر+ڈرامہ) میرے نزدیک بہت ڈراؤنے اور بھیانک تھے۔ پھر جب ہمارے ہاں ایک ڈرامیٹک کلب کی بنیاد پڑی اور اسیر حرس، سفید خون اور ’’خواب ہستی‘‘ کے نام ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگے تو آغا حشر کا نام بھی ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگا۔ اس دور افتادہ مقام پر لے دے کے یہی ایک تفریح تھی، اس لیے بوڑھے بچے، جوان سب تھیٹر دیکھے جاتے تھے۔‘‘
’’میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا، جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھا جسے لوگ زندہ ناچ گانا بھی کہتے تھے اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا، یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے، جیسے طالب بنارسی، احسن، بے تاب، مائل سب کے سب تھیٹر کی لنکا کے باون گز تھے۔ لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کہاں تھی۔ بے چارے ڈراماٹسٹ تھیٹر کے منشی کہلاتے تھے۔‘‘
’’چارپائی پر آغا صاحب لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے، ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے، سر پر انگریزی فیشن کے بال، ڈاڑھی منڈی ہوئی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سفید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا، محفل میں بیٹھا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے، جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے، ان کے ملنے والوں میں اکثر لوگ ضلع جگت میں طاق تھے اور پھبتی کسنے میں بھی ان کا کوئی جواب نہ تھا اور جب شام کو صحبت گرم ہوتی تین تین چار چار آدمی مل کے آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چو مکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا تھا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔
’’جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا مقصود ہوتا، اسے اس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بے چارہ حیران رہ جاتا تھا۔ گالی۔۔۔۔ کا نام سن کر کچھ لوگ کہیں گے گالی دینا کہاں کا اخلاق ہے؟ لیکن آغا کنجڑے قصائیوں جیسی گالیاں تھوڑا ہی دیتے تھے۔ انھوں نے گالی کو ادب و شعر سے ترکیب دے کر ایسی خوش نما چیز بنا دیا تھا کہ اگر مرحوم کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو ان کا شمار فنون لطیفہ میں ہونے لگتا۔‘‘
’’آغا مطالعے کے بڑے شوقین تھے، بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی، کھڑے ہوگئے، اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستے میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق پر پڑیاں باندھ کے دے دیں، یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی، نوکر سے پوچھ رہے ہیں، اس پڑیا میں کیا ہے؟ شکر۔۔۔۔ اچھا شکر کو ڈبے میں ڈالو، پڑیاں خالی کر کے لاؤ، اسے پھینک نہ دیجو، یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ آغا مناظرے کے میدان کے شیر تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے۔ باقاعدہ تعلیم تو واجبی سی تھی لیکن مطالعے نے انھیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔‘‘
آغا حشر نے بڑی عمر میں مختار بیگم سے شادی کر لی تھی جو فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔ وہ کہتے تھے بڑھاپے کا عشق بڑا کافر ہوتا ہے جس پہ مرتا ہے اسے مار رکھتا ہے۔ پتا نہیں کیوں اتنے طویل خاکے میں مختار بیگم کا ذکر تک نہیں۔
دوسرا خاکہ ہے شفا الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی کا، جس کا عنوان ہے ’’شفا الملک‘‘۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
’’اصل میں ادیبوں اور شاعروں کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ بہت دبلے پتلے اور ہمیشہ کے روگی ہوں گے، اگرچہ پنجاب کے بعض ادیبوں نے بہت حد تک اس خیال کی تردید کردی ہے جن لوگوں نے صرف اسی قسم کے بعض پنجابی ادیب دیکھے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اچھا ادیب گاماں پہلوان سے کیا کم ہوگا۔‘‘
’’ایک دن مطب میں بیٹھے تھے کہ ایک نازک اندام ہندو عورت آئی، اس کا دوپٹہ گوٹے سے لپا ہوا تھا۔ حکیم عبدالحمید خاں کے سامنے اور تو کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اپنے ایک ہم درس کو جو دوائیں دے رہا تھا پکار کر کہا ’’خمیرہ گاؤ زبان پہ ورق نقرہ پیچیدہ۔‘‘
’’ایک دن آغا حشر اور حکیم صاحب آم کھا رہے تھے، آغا آم کھاتے جاتے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے کہ بھئی حکیم صاحب بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنؤ کا سفیدہ اس کے آگے کیا ہے؟ حکیم صاحب نے کہا جی ہاں، لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پہ لٹو ہیں۔ آغا بھڑک گئے، بات یہ تھی کہ آغا مرحوم بنارس کے رہنے والے تھے اور ایک ٹانگ سے لنگڑے تھے۔ اس لیے لنگڑے کی پھبتی ان پہ ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ بیٹھتا ہے۔‘‘
’’حکیم صاحب کے پاس ہر طرح کے مریض آتے تھے جن میں بعض نامی گرامی طوائفیں بھی تھیں، یہ لوگ ضلع جگت اور پھبتی میں طاق ہوتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی ان سے نوک جھونک ہو جاتی تھی، ایک دفعہ ایک سیاہ فام طوائف علاج کرانے آئی، حکیم صاحب کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی اس نے سن رکھی تھی، اس لیے آتے ہی ان پر ایک دو پھبتیاں کہہ دیں، گرمی کے دن تھے اور اس نے جالی کا کرتا پہن رکھا تھا، جس سے اس کا سارا جسم جھلکتا نظر آتا تھا، حکیم صاحب اس کی باتیں سن کر بولے ’’آپ اپنی کہیے یہ باورچی خانہ میں سفیدی کیسی کرا رکھی ہے؟‘‘
دیوان سنگھ مفتون کے خاکے میں لکھتے ہیں:
’’دیوان سنگھ سکھ تو ضرور ہے لیکن مذہبی تعصب کی چھاؤں اس پر نہیں پڑی۔ اکالیوں سے اس کی ہمیشہ ٹھنی رہی ہے اور تارا سنگھ سے مقدمہ بازی بھی ہوتی رہتی ہے۔ شہید گنج کے جھگڑے میں اس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ خیر یہ تو پرانی باتیں ہیں، ڈاکٹر قریشی کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا تو دیوان سنگھ نے صاف لکھ دیا کہ بے چارہ ڈاکٹر بے گناہ ہے۔‘‘
مولانا ظفر علی خاں کے متعلق یہ تحریر دیکھیے:
حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے
اور عاشق میں کیا برائی ہے
یہ شعر دراصل مولانا ظفر علی خاں کے متعلق ہے۔ بات یہ ہے کہ مولانا حقہ کے بڑے رسیا ہیں، جب شعر کہتے ہیں تو حقہ ضرور پیتے ہیں اور جب حقہ پیتے ہیں تو شعر ضرور کہتے ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز یہ تھا کہ حقہ بھروا لیا اور شعر کہنے بیٹھ گئے۔ طبیعت کی روانی کا یہ حال کہ کبھی کبھی فی کش ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی خود لکھتے ہیں کبھی کسی سے لکھوا لیتے ہیں۔‘‘
علامہ اقبال کے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ایک دفعہ بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ چوہدری شباب الدین کا ذکر چھڑ گیا، کہنے لگے ’’ میں نے ایک بڑھیا دیکھی، جو اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی، میں نے پوچھا ’’تو کون ہے؟‘‘ کہنے لگی ’’میں طاعون ہوں‘‘ میں نے کہا ’’تو بھاگ کے کہاں جا رہی تھی؟‘‘ کہنے لگی ’’میں شہر کی طرف جانا چاہتی تھی، لیکن وہاں شباب الدین پہلے سے موجود ہے، میری کیا ضرورت رہ گئی۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکیم صاحب لیکن آغا تھے اور اس لیے
پڑھیں:
زباں فہمی253؛بازاری زبان اور بازاری زبان کی لغت
فارسی لفظ ’بازار‘ اُن منفرد الفاظ میں شامل ہے جو اُردو سے فرینچ میں داخل ہوئے اور پھر اِنگریزی میں۔ برطانوی اور امریکی انگریزی دونوں ہی میں اسے اصل معنیٰ اور صحیح ہجّے یعنی Bazaarکے ساتھ برقرار رکھا گیا، جبکہ ہمارے کالے (دیسی) انگریز یا ’برگر‘ (یعنی مسٹر براؤن) زیادہ ’انگریز‘ ہیں، اس لیے، اس کے ہجّے Bazar کرنا درست سمجھتے ہیں نیز وہ بجائے بازار کے مارکیٹ کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
( ہمارے یہاں رومن رسم الخط کو آسان سمجھ کر، اپنا اُلٹا سیدھا بیان اس میں لکھنے والوں کی قلعی کھُل جاتی ہے جب اُنھیں یہ بتانا پڑجائے کہ فُلاں لفظ یا اسم کے انگریزی ہجّے یہ کیوں ہیں اور وہ کیوں نہیں؟ اردو کا اپنا رسم الخط ایسے لوگوں کو مشکل لگتا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ آسان لکھنے کی کوشش میں بعض اوقات، رومن رسم الخط میں لکھنے کا شوق، تحریرمیں کسی گالی کو راہ دیتا ہے)۔
فرہنگ ِ آصفیہ میں ’بازار‘ کا اندراج اس طرح ملتا ہے: بازار۔ف (فارسی)، اسم مذکر۔ خریدوفروخت کی جگہ، ہاٹ،پینٹھ، چوہٹّا، سُوق۔
علمی اردو لغت (جامع) از وَارِث سرہندی میں کچھ وضاحت سے یوں بیان کیا گیا: بازار۔ (ف۔امذ)، وہ راستۂ عام جس پر دُکانیں ہوں۔ منڈی، مارکیٹ ، خریدوفروخت کی جگہ۔۲)۔ نرخ، بھاؤ ۔۳)۔ خریدوفروخت، بِکری، مجمع عام۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کرتا چلوں کہ لفظ بازار دنیا کی متعدد زبانوں میں جُوں کا تُوں یا تلفظ کے تغیر کے ساتھ موجود ہے۔ عربی کے مصری لہجے میں ’سُوق‘ کی بجائے ’بازار‘ رائج ہے، اسی طرح انڈونیشیا کے خودمختار صوبے آچیہ (دارالسلام آچے) کی زبان باہسا آچیہ ۔یا۔Acehnese (آچے نیز) میں ’بازار‘ موجود ہے، اَرمنی یا آرمینی میں ’بازار‘ (ویسے عربی لفظ سُوق کا محرّف ’شُوکا‘ بھی رائج ہے)، افریکانس میں باسار، آسامی میں وَجار، اسپین کی زبان Asturian (استوریئن) میں بازار، آذری میں بَازار، انڈونیشیا کے جزیرے بالی کی زبان بالی نیز میں بازار، روسی مسلم قوم بشکیر [Bashkirs] کی زبان بشکیر میں بازار، انڈونیشیا کی قوم Toba Batak(توبا باتک) میں بازار، بیلارُوسی میں بَازار، بھوج پوری میں بازار، آسام (ہندوستان) کی باغی قوم بوڈو کی زبان میں ہٹائی بَجار، بوسنیائی میں بازار،بُلغار میں بازار،انڈونیشیا کی زبان Betawi (Batavian،Jakartanese ) میں بازار، فلی پینز کی زبان Bikol میں بھی بازار، بشناق یعنی بوسنیائی میں بازار، منگولوں کی زبان Buriat/Buryat میں بازار، برمی زبان میں جار، کیٹالِن میں بَسار، فلی پِینز کی زبان Cebuano میں بَسار، چھتیس گڑھی (اردو/ہندی کی بولی) میں بازار، کارسِیکا (Corsica) کی زبان Corsican (Corsu) میں بازار، کروشیئن [Croatian] میں بھی بازار، ڈینش میں بازار، دَری (افغان یا قدیم فارسی) میں بازار، دیویہِی (مالدیپ کی زبان) میں بازار، ڈوگری میں بازار، ولندیزی [Dutch] میں بازار، مصنوعی زبان اسپرانتو میں Bazaro (بازارو)، اسٹونیئن میں Basar یعنی باسار، Faroese میں بازار، فیجی اَن میں بازار، فلی پِینو میں بازار، فی نِش [Finnish] میں باساری، فرینچ میں بازار (البتہ خالص پیرس والی فرینچ میں تلفظ : بازاغ)، فری زیئن [Frisian] میں بازار، Friulian میں بازار، گالیسئن (Galician) میں بازار، افریقی ملک یوگینڈا میں بولی جانے والی زبان گینڈا (Ganda)یاLuganda میں بازار، جارجی یا گُرجستانی [Georgian] کو ہماری گوجری زبان کی ماں بھی سمجھا جاتا ہے، اُس میں بازار کو ’’بازاری‘‘ کہتے ہیں، المانوی عُرف جرمن میں ’بازار‘ ہی ہے مگر ہجّے Basar ہیں۔ یونانی زبان میں ’پازاری‘ ہے تو Guarani(گُو۔رانی) میں Bazar-pegua، گجراتی میں بازار، مگر تلفظ باجار،Haiti (ہیتی) کی مخلوط زبان یعنی Haitian Creole میں ( ہندوستانی کے غالب اثرات کی وجہ سے) بازار ہی ہے، چھِن [Chin]، میاں مار کی زبان ہا۔کا۔چھِن میں بھی بازار، افریقی زبان ہَوسا (Hausa) میں بازار، ہَوائی کی زبان ’’اولے لو ہوائی ی‘‘ (Olelo Hawaii) میں بھی بازار کہتے ہیں، مگر حیران کُن طور پر عبرانی [Hebrew] میں بازار کا نام ’شُوق‘ ہے جو عربی میں جاکر سُوق ہوگیا۔ ابھی زبانوں کی فہرست باقی ہے، مگر قصداً ادھوری چھوڑ رہا ہوں۔
یہاں دیگر اَلفاظ نقل ہوئے تو ناواقفین کے لیے باری باری اُن کا ذکر بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لفظ ہاٹ ہندی اور بنگلہ میں مشترک ہے۔ بنگلہ میں تو لفظ بازار بھی مقبول ہے (البتہ چونکہ بنگلہ میں حرف ’ج‘ کی ادائی ’ز‘ اور ’ز‘ یا ’ذ‘ کی ادائی ’ج‘ کے طور پر کی جاتی ہے;گویا بنگلہ میں یہ باجار بولا جاتا ہے) اور بنگلہ دیش میں ایک جگہ کا نام ’کاکسس بازار‘ بہت مشہور ہے۔ بازار کے لیے عربی میں سُوق موجود ہے اور زمانہ قدیم تا جدید یہ لفظ غیرعرب بھی سمجھتے اور بولتے رہے ہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں، بازاری زبان کی۔ لفظ ’’بازاری‘‘ بھی فارسی ہی سے مستعار ہے اور صفت کے طور پر نیز مختلف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے۔ معانی : ا)۔ بازار سے نسبت رکھنے والا، عام، معمولی، مروّج ب)۔ بازار کے بیٹھنے والے، اوباش، شُہدے، بے اعتبار (فرہنگ ِ آصفیہ)
’بازاری‘ سے بننے والی تراکیب میں بازاری زبان، بازاری عورت (اردو: اسم مؤنث، کسبی، بِیسوا، پاتُر، پُتُریا) اور بازاری گپ (اردو: اسم مؤنث، افواہ، ہَوائی) شامل ہیں۔ مؤخرالذّکر توجہ طلب ہے کہ لفظ ’گپ‘ فرہنگ ِ آصفیہ کے عہدِتالیف (بیسویں صدی کے آغاز سے ذرا قبل) تک نہ صرف انگریزی سے اردو میں شامل ہوچکا تھا، بلکہ اس سے مرکب الفاظ بھی تشکیل دے دیے گئے تھے۔
بازاری زبان کی مختلف جہتیں ہیں اور یہ تمام کی تمام عوامی بول چال کا حصہ ہیں۔ ہم انھیں تحتی بولی، ذیلی بولی، چالو بولی یا زبان عُرف Slangکے زُمرے میں شامل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سُوقیانہ، فُحش، مُبتذل، کسی مخصوص طبقے، گروہ یا شعبے میں مروج مخصوص ومحدود بولی ٹھولی کے الفاظ، فقرے، محاورے نیز گالیاں شامل ہیں۔ اگر کوئی بولی کسی خاص طبقے یا شعبے یا گروہ تک ہی محدود ہو تو اُسے Jargon کہا جاتا ہے۔
ممتاز ادیب، صحافی، سیاح اور مکینیکل انجینئرعبیداللّہ کیہر صاحب کی اٹھارہویں کتاب، ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ اپنی نوعیت کی اوّلین نہ سہی، مگر بہت مفید اور حوالہ جاتی قسم کی کتاب ہے، گرچہ مختصر ہے۔ اوّلین اس لیے نہیں کہ اس کا موضوع Slang ہی کی ایک قسم Jargon ہے اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ’اردو کی اوّلین سلینگ لُغت‘ بہت پہلے منصہ شہود پر آچکی ہے۔ اُس سے مدتوں پہلے کم از کم چار سے پانچ ایسی لغات منظرعام پرآئیں جن میں Jargon کا انتخاب یا مجموعہ شامل کیا گیا تھا۔ (کیہر صاحب کی انیسویں کتاب ’سفرنامہ نجدوحجاز‘ جلد منصہ شہود پر آئے گی)۔
’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ کا پہلا اندراج ’پھُلترو‘ ہے۔ {یہ بہت مشہور لفظ ہے جسے پھُلن ترو‘ اور (کیہر صاحب کی اطلاع کے لیے) فُل تھرو‘ بھی کہتے ہیں، جبکہ آنلائن دستیاب پنجابی لغات کے مطابق صحیح تلفظ ہے: پھُل۔تَرو‘}۔ زیرِنظر ’ڈکشنری‘ میں پھُلترو کی تعریف یوں بیان کی گئی کہ اس سے مراد، دُم کی طرح لٹکتی ہوئی کوئی چیز ہے۔ مزید لکھا گیا کہ یہ مزاحیہ اصطلاح دراَصل انگریزی کے Pull through سے نکلی ہے۔
جنریٹر چلانے کے لیے استعمال ہونے والی ڈوری کو بھی اِسی نام سے پُکارا جاتا ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ پہلا نکتہ تو صحیح ہے کہ یہ Pull throughکا اُردو اور پنجابی محرّف ہے، مگر موصوف نے اس باب میں اصل نکتہ نظراَنداز کردیا کہ ’پھُلترو‘ درحقیقت، برطانوی دور میں بندوق کی صفائی کرنے کے لیے استعمال ہونے والا برش۔یا۔آلہ ہے جسے Pull through device کہتے ہیں یا کہتے تھے۔ یوٹیوب پر موجود ایک وڈیو میں کسی صاحب نے یہی بتایا جو میں ماضی میں کسی کتاب میں بھی پڑھ چکا تھا، البتہ وڈیو والے صاحب نے پنجابی میں فقط اُس کے فُحش استعمال کی طرف ہی اشارہ کیا۔ فیس بک پر ایک صاحب عامرجلیل نے ہماری کہی ہوئی مندرجہ بالا بات اس طرح واضح کی کہ ’’برطانوی ہندوستانی فوج کے سپاہی جو رائفلیں استعمال کرتے تھے۔
ان کی نالی میں بارود کے ذرّے رہ جاتے تھے۔ ہدایت تھی کہ ان ذرّوں کو گرم پانی سے صاف کیا جائے۔ تاہم وقتی طور پر اُنہیں دھات کی سلاخ سے۔ یا۔ ڈور سے بندھے فلالین کے ٹکڑے سے صاف کیا جاتا تھا۔ اس ڈور کے ایک سرے پر دھات کا ٹکڑا ہوتا تھا۔ صفائی کے اس آلےPull through نے پنجابی زبان کو ایک نیا لفظ پھلترو دیا‘‘۔ ابھی یہ مضمون لکھتے ہوئے عبیداللّہ کیہر صاحب کو بھی آگاہ کیا تو اُنھوں نے کہا کہ جی بالکل یہ بھی ہے۔ ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ میں پھُلترو کی بابت یہ بھی لکھا ہوا دیکھا کہ کسی کا اِزاربند (کمربند) لٹکتا دیکھ کر بھی مذاق اُڑاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اِس کا ’پھُلترو لٹک رہا ہے‘۔ اب یہاں کیہر صاحب ہی کی نہیں، بلکہ خاکسار کی بھی معلومات میں اضافہ ہوا کہ ’پنجابی لغات ‘ (آنلائن ) کی رُو سے اس لفظ کے مندرجہ ذیل معانی ہیں:
’’چوپایوں کے قضیب کا غلاف، قُنب، قضیب، بچّے کا آلت، (پھلترو لٹکائے ہوئے);جب پاجامہ وغیرہ کے نیچے کپڑا پھٹ کر لٹک رہا ہو تو کہتے ہیں‘‘۔
[https://punjabilughaat.com/]
کیہر صاحب کی ڈکشنری میں بعض مفید اِندراجات، دیگر لغات سے مختلف بھی ہیں جیسے ’’کھڑپینچ‘‘۔ اُن کے بیان کے مطابق اس مرکب لفظ کا مفہوم یوں ہے: کھڑپینچ عام طور پر کسی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو ہرفن مولا ہو اور مشکل سے مشکل کام بھی کر دِکھائے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی سلینگ لغت میں اس کے بالکل برعکس یہ بتایا گیا ہے: ا)۔ مصیبت، پریشانی، شورغوغا، ہنگامہ آرائی، جھگڑا، فساد جیسے کھڑپینچ مت کرو۔ ب)۔ وہ شخص جو جھگڑا کرے، شور شرابا کرنے والا، فسادی، جھگڑالو جیسے وہ بڑا کھڑپینچ آدمی ہے۔
کیہر صاحب نے ’کھڑپینچ‘ کا اصل مطلب بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’وہ پیچ جو کسی سطح کو کاٹتے ہوئے خود ہی اندر چلا جائے، اُسے کہیں گے، کٹ پیچ۔ یہی لفظ کٹ پیچ، زبان کے ردّوبدل سے، پہلے ’کھڑپیچ‘ بنا اور پھر ’کھڑ پینچ ‘ ہوگیا۔ یعنی ایسا پیچ جو سوراخ بھی خود کرے ، اپنا راستہ بھی خود بنائے اور کام بھی مکمل کردے، وہ ہوا کھڑپینچ۔ چنانچہ یہ لفظ ایسے شخص کے لیے بھی بولا جانے لگا جو مشکل حالات میں بھی اپنا راستہ نکال لے‘‘۔
’’ماموں بنانا ‘‘ کراچی سمیت تقریباً پورے مُلک میں مشہور Slang ہے اور ہمارے فاضل دوست بھی یہ جانتے ہیں، چنانچہ اُنھوں نے اسے کراچی کے کھاتے میں ڈال کر بطور ِ حوالہ ذکر تو کردیا، مگر کمال ِحیرت ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ’ماموں بنانا‘ یعنی بے وقوف بنانا، ایک ہندوستانی فلم ’’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ کا باربار دُہرایا گیا فقرہ ہے۔ اسی طرح ’’بھرم ‘‘ اور ’’بھرم بازی‘‘ کے مفاہیم میں بھی محترم عبیداللّہ کیہر چُوک گئے کہ یہ بھی ہندوستانی فلموں کی دین ہے، ورنہ معیاری اُردو میں بھرم کے معانی یہ ہیں: بھروسا، اعتبار، ساکھ، شک، شبہ، گمان، ظن، دھوکا، ظاہری ناموری، شہرت، راز، بھید (فرہنگ ِ آصفیہ)۔ ہم نے اپنے گھرانے میں اس لفظ کا استعمال رُعب کے معنوں میں بھی دیکھا ہے، شاید ایسا اختلاف محض مخصوص علاقائی بول چال تک محدود ہو۔
’’ہٹ جا، ہَوا آنے دے ‘‘ کے مشہور عوامی فقرے کے بارے میں لکھتے ہوئے، مشہور فلسفی دیوجانس (یا دیوژن)کلبی (Diogenes the Cynic) کے ذکر میں کیہر صاحب نے سہواً اُس کی عرفیت ’قلبی‘ لکھ دی۔ یہ کلب یعنی کُتّے کی نسبت سے کلبی ہے۔
’’کراچی کی بازاری ڈکشنری ‘‘ میں لفظ ’چراند‘ کے اصل معنیٰ چمڑے کی بُو صحیح درج کیے گئے، (نیز بال، روغن یا ہڈّی جلنے کی بُو: فرہنگ آصفیہ) لیکن یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ لفظ اصل میں چراہند تھا جو کثرتِ استعمال سے چراند بن گیا۔ مثال:
ا)۔ ’’گوگل، کچھ بال، کچھ چمڑا آگ پر رکھا جس کی چراہند اور بدبو نے سارا گھر سڑا دیا‘‘۔: افسانہ از نادرجہاں (اردو ویب ڈاٹ آرگ)
ب)۔ ’’آنسوگیس کی بُو سے لے کر خودسوزی کرنے والوں کے زندہ بدن سے اُٹھتی جلتی چربی کی چراہند تک، وہ کون سا عذاب تھا جو پاکستانیوں کے اعصاب پر سے نہیں گزرا‘‘۔: ’’بیس برس بعد۔ از وجاہت مسعود، مشمولہ بی بی سی اردو ویب سائٹ (مؤرخہ 18اکتوبر2007ء)۔
فاضل لغت نویس ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ مرتب کرتے ہوئے کہیں کہیں بہت زیادہ عجلت کا شکار محسوس ہوئے کہ انھوں نے بعض مشہور الفاظ، فقروں اور کہاوتوں کا مشہور پس منظر بھی معلوم کرنے کی زحمت نہ اُٹھائی جیسے ’’بیزتی (بے عزتی) خراب ہونا‘‘۔ یہ کراچی والوں کی ایجاد نہیں، بلکہ اہل پنجاب کا مشہور ترین Slang ہے، البتہ وہاں بہ اختلاف ِ تلفظ ’بِستی ‘ خراب ہوتی ہے اور کچھ عرصہ قبل خاکسار کے واٹس ایپ حلقے بزم زباں فہمی میں اس کے صحیح تلفظ کی بحث بھی چھِڑی تھی۔ اسی طرح ’پنگا‘ کے متعلق بھی ادھوری معلومات درج کی گئی ہیں۔ یہ لفظ قدیم اردو میں ان معانی میں بطور صفت مستعمل تھا: وہ شخص جس کے پیروں میں کجی ہو، پاؤں پھِرا ہوا، کج قدم (فرہنگ آصفیہ) مگر پنجاب میں پنگا اور پنگا لینا کچھ اور ہی ہے۔ پہلے یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں ، پھر راقم کا پرانا انکشاف:
’’پنگا ایسا لفظ ہے جس کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ پنجابی ڈکشنری مرتب ہورہی تھی، مرتبین کے سامنے ''پنگا'' کا لفظ آیا، سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے لیکن اس کا متبادل لفظ نہ مل سکا۔ تھک ہار کر اہل علم کا وہ وفد ایک دیہاتی بزرگ کے پاس گیا اور اس سے لفظ پنگا کا درست متبادل اور معنی پوچھے۔ دیہاتی بزرگ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولا 'دوستو! لفظ پنگا کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی یک لفظی معنی ہے۔ آپ یہ لکھ دیں کہ پنگے کا مطلب معلوم نہیں لیکن پنگا لینا ہر کسی نے ہوتا ہے‘‘۔ (ہر کسی کو لینا ہوتا ہے: س ا ص)
’’پنگا‘‘ (کالم) از لطیف چودھری۔ مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 23 جون 2023(آنلائن دستیاب)۔ اب ذرا میرا ’انکشاف‘ تیسری مرتبہ ملاحظہ فرمائیں:
ٹیلیوژن ، صحافت اور تدریس میں خاکسار کے بزرگ معاصر پروفیسر سلیم مغل کے انکشاف کے مطابق، پنگا سے مراد کسی درخت کی وہ نرم شاخ ہے جسے پکڑ کر نیچے تک لائیں اور پھر چھوڑ دیں تو وہ واپس اپنی جگہ پر چلی جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ’پنگا لینا‘ جو عملاً کسی معاملے میں کسی کی بے جا مداخلت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
’’ہم کیا شکار پور سے آئے ہیں‘‘ کے ذیل میں سائیں کیہر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک شکار پور تو وہ ہے جو ہمارے سندھ میں ہے، لیکن سُنا ہے کہ ایک بھارت میں بھی ہے۔ اب یہ خدا جانے اِدھر والے شکارپور کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا اُدھر والے..............سائیں! آپ واقعی بہت بھولے ہیں اور کم از کم سندھ والے شکار پور کے تو نہیں۔ ماضی میں اسی سلسلہ زباں فہمی میں اسی راقم نے مضمون لکھا تھا : ’’شکار پور ... اور ... شکارپور‘‘۔ یہ 21 نومبر 2021ء کو شایع ہوا تھا اور ایکسپریس ڈاٹ پی کے پر دستیاب ہے:
https://www.express.pk/story/2249175/zban-fhmy- shkarpwrawr-shkarpwr-2249175
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہندوستانی شکارپور کے لوگ بے وقوف مشہور ہیں ، جبکہ ہمارے شکارپور کے لوگ چالاک۔
’’سیانا پن‘‘ کی بجائے ’’سیانڑا پن‘‘ یا ’’سیانڑ پتی‘‘ یا ’’شیانڑ پتی‘‘ کراچی والے بولتے ضرور ہیں، مگر جناب! یہ ہمیں ہندوستانی شہر بمبئی سے ملا ہے (جسے ممبئی لکھنا مجھے گراں گزرتا ہے)۔ ابھی بندہ اس ستّر (70) صفحات والی ڈکشنری کے صفحہ نمبر 25 تک ہی پہنچا ہے، مگر ’زباں فہمی‘ کے لیے مختص ڈھائی ہزار الفاظ پر مشتمل صفحہ پورا ہورہا ہے....اس لیے اسے وہیں چھوڑنا مناسب ہے۔