جنگ بندی کو علاقائی امن و استحکام کے مفاد میں قبول کیا ہے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں وزیراعظم نے لکھا کہ ہم صدر ٹرمپ کی قیادت اور خطے میں امن کے لیے فعال کردار کے لیے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس موقع پر سہولت فراہم کرنے پر امریکا کو سراہتا ہے اور ہم نے جنگ بندی کو علاقائی امن اور استحکام کے مفاد میں قبول کیا ہے۔
وزیراعظم نے نائب امریکی صدر صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن کے لیے ان کی گرانقدر خدمات انجام دیں۔
شہباز شریف نے مزید لکھا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ جنگ بندی مسائل کے حل میں ایک نئی شروعات کی نشاندہی ہے، جس کے بعد امن، خوشحالی اور استحکام کا سفر شروع ہوگا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک بھارت جنگ اور پسِ پردہ عالمی سازش
اسلام ٹائمز: ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا فائدہ صرف اسلحہ فروشوں اور عالمی سازشی قوتوں کو ہوگا، جبکہ تباہی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آئے گا۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنگ کی بجائے مذاکرات، مفاہمت اور علاقائی استحکام کو فروغ دیں، نیز عالمی ایوانوں میں ظلم اور سازشوں کو بے نقاب کریں۔ لیکن داخلی طور پر جو عدم استحکام کے بنیادی عوامل کارفرما ہیں، جنگ بندی کے بعد انکا مواخذہ ضرور ہونا چاہیئے۔ نیز مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا پاکستانیوں کو ہمیشہ استعمار طاقتوں کی غلامی میں زندگی گزارنی ہے، یا اپنے اوپر انحصار کرکے ایک طاقتور ملک بننا ہے۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.com
جنگ ایک ایسی آگ ہے، جو انسانیت کے سبز باغوں کو خاکستر کر دیتی ہے۔ یہ نہ صرف جسموں کو زخمی کرتی ہے بلکہ روحوں کو بھی مفلوج کر دیتی ہے۔ ہر گولی ایک خواب کو مار دیتی ہے، ہر میزائل ایک مستقبل کو اُڑا دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ نے کبھی مسئلے حل نہیں کیے، بلکہ صرف نفرتوں کی فصل کو ہرا رکھا ہے۔ حقیقی فتح تو امن کی ہے، جہاں محبت کی تلوار نفرت کی دیواریں توڑ دیتی ہے۔ ہر جنگ کے پسِ پردہ کچھ خوانخوار اور سفاک عالمی طاقتیں ضرور ہوتی ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر انسانیت کو خون کے آنسو رُلاتی ہیں۔ یہ طاقتیں ہتھیاروں کی تجارت، وسائل پر قبضے، یا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تنازعات کو ہوا دیتی ہیں، مگر اس آگ میں جلنے والے بے گناہ بچے، ماں باپ، عام لوگ اور معصوم خواب ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کبھی بھی "انسانیت کی بھلائی" کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ یہ سرمایہ داروں، اسلحہ سازوں اور سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب تک طاقت اور لالچ کی یہ دوڑ رہے گی، دنیا امن کی حقیقی معنویت سے محروم رہے گی۔ آج کی صدی میں وہ سفاک اور خونخوار بھیڑیا کچھ مخفی طاقتیں ہیں۔ جس کا محور و مرکز امریکہ ہے اور اسرائیل اس کا ہراول دستہ ہے۔ غزہ کے ہولوکاسٹ سے لے کر میدانِ مقاومت کے صفِ اول کی شخصیات اور عبدِ صالحین کے سرخ لہو تک، ان کے نجس ہاتھ ہر مظلومیت کے داغدار ہیں۔ "صدی کی ڈیل" کی ناکامی نے انہیں شدید زخم دیئے ہیں اور "نیو ورلڈ آرڈر" کی طرف پیش قدمی کے لیے انہوں نے ایک نئی عالمی حکمت عملی ترتیب دی ہے، جو ایک خواب ہی رہے گی۔
مگر مقاومت کے محاذوں پر، خصوصاً ایران، غزہ، لبنان، یمن اور عراق میں، انہیں جو ذلت آمیز اقتصادی اور سکیورٹی شکستیں ہوئی ہیں، یوکرین جنگ اور غزہت جنگ میں ان کا مالی اور اسٹریٹیجک نقصان ناقابلِ برداشت تھا۔ "IMF" اور "CBO" کے مطابق، "3 ٹریلیئن ڈالر" سے زیادہ کا نقصان انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے اور اپنے مفادات کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے اب انہی عالمی قوتوں نے جنوبی ایشیا کی طرف رخ کیا ہے۔ پاک بھارت تنازعے کو پراکسی جنگ کی شکل دینا اور خطے میں کشیدگی کو بھڑکانا اسی خفیہ منصوبے کا حصہ ہے۔ اس نئی سازش کا مقصد نہ صرف ہتھیاروں کی منڈی کو گرم رکھنا ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کے قدرتی وسائل، معدنیات اور سیاسی مستقبل کو اپنی گرفت میں لینا بھی ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو پاکستان معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور سفارتی دباؤ کی وجہ سے داخلی سطح پر کمزور ہوچکا ہے۔ پاک فوج اور حکومت، جنگی خطرے کو ایک موقع سمجھتے ہیں کہ عوام کو قومی اتحاد کے نعرے پر جمع کریں اور فوج کو "محافظِ وطن" کے طور پر پیش کرکے اپنی ساکھ بحال کریں۔ "بقا کی جنگ" کا بیانیہ بنا کر سیاسی سوالات اور تنقید کو ثانوی بنانے کی کوشش کی جائے گی، کیونکہ ستر فیصد عوام کا پاک فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا؟ کب، کیوں اور کیسے ہوا؟ کس نے ملک کو اس حالت تک پہنچایا؟ اس سوال کے جواب کے لیے مقتدر حلقوں کو ضرور سوچنا چاہیئے۔
لیکن اس تمام صورتِ حال میں، ملکی عدم استحکام کے تمام تر عوامل کو کنارے پر رکھ کر عوام، دانشوروں، میڈیا اور مذہبی و سماجی قیادت پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگی جنون کا حصہ بننے کے بجائے ہوش اور حکمت سے کام لیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا فائدہ صرف اسلحہ فروشوں اور عالمی سازشی قوتوں کو ہوگا، جبکہ تباہی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آئے گا۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنگ کی بجائے مذاکرات، مفاہمت اور علاقائی استحکام کو فروغ دیں، نیز عالمی ایوانوں میں ظلم اور سازشوں کو بے نقاب کریں۔ لیکن داخلی طور پر جو عدم استحکام کے بنیادی عوامل کارفرما ہیں، جنگ بندی کے بعد ان کا مواخذہ ضرور ہونا چاہیئے۔ نیز مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا پاکستانیوں کو ہمیشہ استعمار طاقتوں کی غلامی میں زندگی گزارنی ہے، یا اپنے اوپر انحصار کرکے ایک طاقتور ملک بننا ہے۔؟