آئی پی ایل دوبارہ شروع ہوئی تو بھی آسٹریلوی کرکٹرز نہیں آئیں گے
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
آسٹریلوی کرکٹرز کی سکیورٹی خدشات کے باعث انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) میں دوبارہ شمولیت غیریقینی ہوگئی۔
آسٹریلوی اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کیساتھ جنگی تنازع کے بعد آئی پی ایل کو ملتوی کردیا گیا تھا تاہم ایک روز بعد معاملات معمول آنے کے سبب لیگ کے مستقبل کے حوالے سے باز گشت تیز ہوگئی ہے۔
تاہم لیگ دوبارہ شروع ہونے پر آسٹریلوی کرکٹرز کی سیکیورٹی کے باعث انکی شرکت غیر یقینی ہے۔
مزید پڑھیں: نامور کرکٹرز کو کھلانے کا غرور! غیرملکی آئی پی ایل چھوڑنے کو تیار
دوسری جانب آئی پی ایل فرنچائزز سن رائزرز حیدرآباد، راجستھان رائلز اور چنئی سپر کنگز پہلے ہی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں لیکن ٹیموں کے ایک یا اس سے زائد کچھ میچز باقی ہیں۔
آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز، ٹریوس ہیڈ اور ناتھن ایلس وہ کھلاڑی ہیں، جو باہر ہونیوالی ٹیموں کا حصہ تھے۔
مزید پڑھیں: پاک بھارتی کشیدگی نے ہیڈن کی ٹی وی پریزینٹر بیٹی کو خوف میں مبتلا کردیا
واضح رہے کہ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے تاہم بھارتی بورڈ نے جنگ بندی کے بعد فرنچائزز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی کھلاڑیوں کو روک لیں۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی؛ آئی پی ایل کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟ حیران کُن رپورٹ سامنے آگئی
قبل ازیں آسٹریلوی ٹیم مینجمنٹ نے خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ پاک بھارت جنگ کے باعث صورتحال مزید خراب ہوئی تو پیٹ کمنز، مچل اسٹارک، جوش ہیزل ووڈ اور ٹریوس ہیڈ واپس روانہ ہوسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی پی ایل ا سٹریلوی
پڑھیں:
نیویارک، جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانیے کی گونج
مسعود پزشکیان نے نیو یارک میں رہبر انقلاب کے اس بیان کو دوبارہ پڑھا اور بیان کیا کہ کوئی عقل مند سیاستدان دھمکی کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق نہیں کرتا، حقیقتاً امریکہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے باعزت اصولوں کی پاسداری کا واضح پیغام ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس میں خطاب کے دوران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے موضوع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے گزشتہ شب کے بیانات کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو ایک اہم پیغام دیا ہے۔ پزشکیان نے اپنے پاس ایک صفحے پر لکھے رہبر انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو دوبارہ بیان کیا کہ امریکی فریق ایسے مذاکرات کرنا چاہتا ہے، جن کا نتیجہ ایران میں جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کا خاتمہ ہو، یہ مذاکرات نہیں ہیں، یہ دھمکی اور زبردستی ہے، کوئی بھی باوقار قوم ایسے مذاکرات کو قبول نہیں کرتی، جو دھمکی کے ساتھ ہوں، اور کوئی بھی عقلمند سیاستدان اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
یہ موقف ایسے حالات میں دہرایا گیا ہے جب حالیہ دنوں میں بعض اندرونی اور بیرونی سیاسی دھاروں نے ایرانی صدر کی امریکی صدر کے ساتھ "ممکنہ ملاقات" کے مسئلے کو ایک تشہیری مہم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ پزشکیان کی جانب سے ان بیانات کی دوبارہ بیان کئے جانے میں دو اہم پیغامات ہیں، پہلا امریکہ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے ریڈ لائنز اور اصولوں کی پاسداری، اور دوسرا رہبر انقلاب اسلامی کے اس اٹل اور عزم مندانہ موقف کی تائید و تکرار، جو انہوں نے گزشتہ شب کی تقریر میں بیان فرمایا۔ پزشکیان کے اس اقدام کو بہت سے لوگوں نے حکومت کی جانب سے "باعزت مذاکرات، دباؤ اور دھمکی کے تحت نہیں" کی حکمت عملی کے تسلسل میں ہم آہنگی کی علامت قرار دیا ہے۔