غزہ میں حماس کے سربراہ نے کہا ہے کہ چند روز قبل امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی بنیاد پر طے پایا ہے کہ اسرائیلی امریکی قیدی کی رہائی کے بعد، غزہ کی گذرگاہیں کھول دی جائیں گی اور انسانی امداد عوام تک پہنچے گی۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں حماس کے سربراہ نے کہا ہے کہ چند روز قبل امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی بنیاد پر طے پایا ہے کہ اسرائیلی-امریکی قیدی کی رہائی کے بعد، غزہ کی گذرگاہیں کھول دی جائیں گی اور انسانی امداد عوام تک پہنچے گی۔ فارس نیوز کے مطابق، غزہ میں حماس کے سربراہ نے کہا ہے کہ چند روز قبل امریکہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر طے پایا ہے کہ اسرائیلی امریکی قیدی کی رہائی کے بعد غزہ کی گذرگاہیں کھول دی جائیں گی اور انسانی امداد عوام تک پہنچائی جائے گی۔ خلیل الحیہ نے آج اتوار کی شام تصدیق کی کہ اس فلسطینی تحریک نے حالیہ دنوں میں امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان مذاکرات کی بنیاد پر حماس، اسرائیلی-امریکی قیدی عیدان الیگزینڈر کو رہا کرے گی، اور اس کے بدلے میں غزہ کی گذرگاہیں کھول دی جائیں گی اور انسانی امداد علاقے میں داخل ہوگی۔ اس سے قبل، صہیونی چینل کان کے سیاسی امور کے رپورٹر سلیمان مسودہ نے خبر دی تھی کہ پس پردہ مذاکرات جاری ہیں اور حماس کو مسلسل اچھے تجاویز موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصر، قطر اور صہیونی حکومت نے حماس کو ایسی تجاویز پیش کی ہیں جن میں زندہ قیدیوں کی رہائی کی پیشکش شامل ہے، اور اس کی ضمانت امریکہ دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس تجویز کے مطابق، جنگ بندی کے پہلے دن ہی جنگ کے خاتمے سے متعلق مذاکرات شروع ہوں گے۔ خلیل الحیہ نے اس بات پر زور دیا کہ حماس فوری طور پر سنجیدہ اور جامع مذاکرات شروع کرنے، جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے آزادانہ انتظام کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں طویل مدت کے لیے امن اور استحکام کو یقینی بنانا ضروری ہے، اور اس معاہدے میں غزہ کی تعمیر نو اور محاصرے کے خاتمے جیسے نکات بھی شامل ہیں۔ آخر میں، غزہ میں حماس کے سربراہ نے قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ میں حماس کے سربراہ نے امریکی قیدی کی رہائی کے اسرائیلی امریکی قیدی کی بنیاد پر مذاکرات کی انہوں نے کے ساتھ اور اس نے کہا

پڑھیں:

مودی ٹرمپ تعلقات میں تلخی کب آئی؟ بلومبرگ نے امریکی صدر کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ بھی بتادی

واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست 2025ء ) معروف امریکی جریدے بلومبرگ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں آنے والی تلخی اور امریکی صدر کے بظاہر پاکستان کی جانب سے جھکاؤ کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ امریکی جریدے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے کارڈ بہت اچھے طریقے سے کھیلے ہیں اور یہ ان چند ممالک میں سے ہے جس نے اپنے سخت حریف بھارت کے برعکس سوئٹزرلینڈ اور برازیل کے بعد زیادہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دور میں اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پہلی بات چیت اس وقت ہوئی جب بھارت اور پاکستان اس سال کے شروع میں جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا پاکستان نے کھلے عام خیر مقدم کیا، جب کہ بھارت نے امریکی صدر کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے جنگ بندی کی ثالثی کی تھی۔

(جاری ہے)

بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جہاں سے وائٹ ہاؤس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات نیچے کی طرف چلے گئے، دریں اثنا پاکستان کے پاس کچھ اثاثے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی دلچسپی کو جنم دیا کیوں کہ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے اور تانبے کے وسائل میں سے ایک ہیں، جس کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ ہونے والے معدنیات کا ایسا ہی معاہدہ چاہتا ہے، یہ امریکی سرمایہ کاری کو محفوظ بناتا ہے، ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ "تیل کے بڑے ذخائر" دریافت کرنے کیلئے کام کرنے کے بارے میں بھی کہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کے نمائندے پاکستان بھارت جھڑپوں کے وقت اسلام آباد پہنچے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا، یہ سب پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے لیے وائٹ ہاؤس میں لنچ کی ایک سرپرائز میٹنگ پر اختتام پذیر ہوا جس کے فوراً بعد پاکستانی حکومت نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرے گی۔

امریکی جریدے نے بتایا کہ امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان 17 جون کو 35 منٹ طویل گفتگو ہوئی، یہ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ انڈین وزیراعظم سے ملاقات کیے بغیر جی 7 سمٹ سے واپس گئے تھے، جس کے بعد ٹیلیفونک گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی جو انہوں نے مسترد کردی کیوں کہ مودی کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ان کی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کروائیں گے۔

رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی آئی، مودی اور ٹرمپ کی اس کال کے بعد کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی جب کہ امریکی صدر کی جانب سے بھارت پر ٹیرف کا اعلان دو طرفہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، بھارت نے ابھی تک امریکی ٹیرف پر جوابی رد عمل نہیں دیا اور مودی امریکہ کی طرف جھکاؤ کی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم اور قیدی 804 میں کوئی فرق نہیں، بدمعاشوں کو بدمعاشوں کی طرح جواب ملے گا، شرجیل میمن
  • غزہ پر مکمل قبضے کے اسرائیلی منصوبے کے بارے نیتن یاہو کا ٹرمپ کو فون
  • حماس کے ہتھیار ڈالنے سے انکار پر اسکے خاتمے کے سوا کوئی چارہ نہیں، نیتن یاہو
  • سندھ حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات کامیاب، احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ
  • نیتن یاہو کی پالیسیاں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں، حماس رہنماء محمود مرداوی
  • انجینئر رشید کے حامیوں کا سرینگر میں احتجاج، رہائی کا مطالبہ
  • اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کرے، وولکر ترک
  • اسرائیل کو 22 ارب ڈالر کی امریکی امداد
  • امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے
  • مودی ٹرمپ تعلقات میں تلخی کب آئی؟ بلومبرگ نے امریکی صدر کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ بھی بتادی