اسلام آباد:

بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی بانی پی ٹی آئی سے دشمنی نہیں بلکہ ڈر ہے۔

پنجاب حکومت اور شریف خاندان مودی سے لڑنے کے بجائے ہم سے لڑ رہے ہیں، کیا بانی پی ٹی آئی کو شہباز شریف فون نہیں کر سکتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ مودی کو جو تھپڑ لگے ہیں وہ اس کا بدلہ لے گا اور مودی کو جواب دینے کے لیے بانی پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، خواجہ آصف کہہ رہا ہے کہ بھارت سے کشمیر میں جاری دہشتگردی پر بات چیت ہوگی، ہوسکتا ہے مجھے سننے میں غلطی ہو خواجہ آصف سے وضاحت لے لیں۔

صحافی نے سوال کیا کہ کیا جنید اکبر کو بانی پی ٹی آئی نے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے استعفا دینے کا کہا ہے؟ علیمہ خانے کہا کہ کل سے آپ لوگوں کی رپورٹنگ دیکھ کر حیران ہوں، عمران خان نے جنید اکبر پر مزید بھروسہ کر کے تحریک چلانے کی ذمہ داری تھی۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کو لگتا ہے عہدہ بہت بڑی چیز ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کے لیے تحریک بڑی چیز ہے، تحریک انصاف کے لیے تحریک سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

علیمہ خان کا کہنا تھا کہ 20 ماہ قبل میرا نام ای سی ایل میں شامل ہوا تھا، آج عدالت نے ای سی ایل سے نام نکالنے کا فیصلہ دے دیا، اب دیکھتے ہیں فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی علیمہ خان نے کہا کہ

پڑھیں:

افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ طالبان حکومت نے دہشت گرد عناصر کو پناہ دے کر ان کی سرگرمیوں کو فروغ دیا، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے ریاستِ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی حمایت یا معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔

دوسری جانب ایران نے پاکستان اور طالبان حکومت میں ثالثی کی پیشکش کردی ہے، جب کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے افغانستان کے ساتھ مستقل امن کے قیام کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دورے کا مقصد فریقین کے درمیان پائیدار امن قائم کرنا اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنا ہے۔

 افغانستان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خطے کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتے آئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پر محیط تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور نسلی رشتے ایسے ہیں جو کسی حد تک ایک دوسرے سے جدا کیے ہی نہیں جا سکتے۔ مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں یہ تعلقات تناؤ، بداعتمادی اور عدم تعاون کا شکار رہے ہیں۔ خاص طور پر طالبان حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح سرحد پار سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا، اس نے پاکستان کے صبر اور تحمل کی آزمائش لی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ یہ واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ یہی اصول نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا بھی بنیادی تقاضا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے تازہ بیان نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے کہ افغان طالبان حکومت دہشت گرد تنظیموں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو اپنے زیرِ اثر علاقوں میں سرگرمیوں کی اجازت دے کر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

یہ دونوں تنظیمیں پاکستان کی ریاست، عوام اور اداروں کے خلاف مسلح کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے حملوں میں معصوم شہری، سیکیورٹی اہلکار اور عام عوام نشانہ بنتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی حکومت یا گروہ ان عناصر کو پناہ دیتا ہے یا ان کی حمایت کرتا ہے تو وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں کہلا سکتا۔

 پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ آرمی پبلک اسکول سے لے کر سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے انجینئرز اور مزدوروں تک، ہر شعبے نے اس ناسور کا درد برداشت کیا ہے۔ ان قربانیوں کے بعد جب دہشت گرد عناصر دوبارہ سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں سے حملے شروع کرتے ہیں تو یہ نہ صرف قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ سفارتی اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان نے بارہا یہ امید ظاہر کی کہ طالبان حکومت اپنے وعدوں کے مطابق ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی، لیکن اب تک عملی طور پر ایسا کوئی واضح اقدام سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارت کاری پر مبنی رہی ہے۔ اسلام آباد نے افغانستان کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے ہمیشہ بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ ثالثی میں ہونے والے مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان طاقت کے استعمال کو آخری آپشن سمجھتا ہے۔

تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ طالبان نمایندوں نے مذاکرات کے دوسرے اور تیسرے دور میں نہ صرف عملی پیش رفت سے گریز کیا بلکہ الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کے ذریعے ماحول کو کشیدہ بنانے کی کوشش کی۔ اس طرزِ عمل نے یہ تاثر دیا کہ افغان حکومت یا تو دہشت گرد گروہوں پر اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہے یا ان کے وجود کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔اس تمام صورتحال میں ایران کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے درمیان ٹیلی فونک رابطے نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ خطے کے ممالک اب کسی نئی کشیدگی یا جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایران نے درست نشاندہی کی کہ پاک افغان تنازع کا پرامن حل نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ ایران نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے سرحدی تنازعات کے حل کے لیے تہران میں ثالثی کی پیشکش کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ خطے میں امن کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے بھی ایران کو اپنی حالیہ سفارتی کوششوں سے آگاہ کیا اور دونوں ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا کہ خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے مستقل مشاورت اور تعاون ناگزیر ہے۔دوسری جانب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی افغانستان کے ساتھ مستقل امن کے قیام کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ وفد پاکستان میں متعلقہ حکام سے مذاکرات کرے گا اور فائر بندی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے گا۔ صدر اردوان کا یہ اقدام نہ صرف ترکیہ کے سفارتی کردار کو مستحکم کرتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک سنجیدہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ترکیہ کی غیر جانب دارانہ حیثیت اور دونوں ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اس ثالثی کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی حمایت کی ہے۔ چاہے سوویت قبضے کا دور ہو یا امریکی انخلا کا وقت، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، انسانی امداد فراہم کی اور عالمی سطح پر افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے آواز اٹھائی۔ اس کے باوجود جب افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملے ہوتے ہیں تو یہ احسان فراموشی کے مترادف ہے۔

طالبان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ان کا دشمن نہیں، بلکہ ایک ایسا پڑوسی ہے جس نے ہمیشہ ان کے استحکام کی خواہش کی ہے، اگر افغانستان میں امن قائم ہوگا تو اس کے سب سے بڑے فوائد بھی افغان عوام ہی کو حاصل ہوں گے۔پاکستان کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی سفارتی پالیسی کو مزید فعال بنائے۔

ایک طرف ایران، ترکیہ اور قطر جیسے دوست ممالک کو ساتھ ملا کر ایک علاقائی سفارتی بلاک تشکیل دیا جائے جو طالبان حکومت پر دباؤ ڈال سکے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا جائے تاکہ عالمی برادری کو یہ احساس ہو کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا پھیلاؤ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اگر افغانستان اپنی ذمے داریوں سے فرار اختیار کرتا رہا تو پاکستان کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ تاہم پاکستان کی ترجیح بدستور یہی ہے کہ خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے مواقع پیدا کیے جائیں، تاکہ عوام دہشت گردی اور بداعتمادی کے اندھیروں سے نکل کر خوشحالی کے سفر پر گامزن ہوں۔

یہ وقت ہے کہ افغان قیادت حقیقت پسندی سے کام لے۔ الزام تراشی، تاخیری حربے اور غیر ذمے دارانہ بیانات سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ طالبان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ دنیا اب انتہا پسندی کی سیاست کو قبول نہیں کرے گی۔

عالمی برادری، خصوصاً مسلم ممالک، ایک پرامن اور مستحکم افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خیرسگالی اور تعاون کے رشتے قائم کرے۔پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے، لیکن اپنی خود مختاری اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اگر طالبان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی رہی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی کے سائے میں کوئی ملک ترقی نہیں کر سکا۔

 پاکستان کے عوام، حکومت اور ادارے امن کے داعی ہیں۔ مگر امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اب دنیا کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی پالیسی واضح ہے، جو ملک یا گروہ اس ناسور کو پناہ دے گا، وہ خود اس کی لپیٹ میں آئے گا۔ تاریخ کا یہی سبق ہے اور یہی مستقبل کا اشارہ۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن صرف سرحدی معاملہ نہیں بلکہ پورے خطے کی ترقی، تجارت، توانائی اور ثقافتی تبادلے کا ضامن ہے۔ اگر دونوں ممالک عقل و فہم سے کام لیں، سفارتکاری کے دروازے کھلے رکھیں اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں تو نہ صرف خطے میں استحکام ممکن ہے بلکہ جنوبی ایشیا ایک نئے ترقیاتی دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ طالبان حکومت اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کرے، دہشتگرد عناصر کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرے اور پاکستان کے ساتھ تعاون کا نیا باب کھولے۔یہ ادراک ضروری ہے کہ امن کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ سب کا مفاد ہے۔

طاقت وقتی طور پر خاموشی تو لا سکتی ہے مگر پائیدار امن صرف باہمی احترام، اعتماد اور سنجیدہ سفارتکاری سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے، اب وقت طالبان حکومت کا ہے کہ وہ دنیا کو دکھائے کہ وہ واقعی ایک ذمے دار ریاست بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسی ریاست جو نہ صرف اپنے عوام بلکہ اپنے پڑوسیوں کے لیے بھی امن و سلامتی کا ذریعہ بن سکے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، علامہ ساجد نقوی
  • ہرجانہ کیس: عمران خان کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • ہرجانہ کیس، عمران خان کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • شہباز شریف کی جانب سے ہرجانے کا کیس، عمران کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • جس نے بھی آئین دشمنی کی وہ نشان عبرت بن گئے‘مجاہدچنا
  • 17 سیٹ والے حکومت نہیں کرسکتے، فیصل جاوید
  • عمران خان کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری