سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں استفسار کیا ہے کہ 39 امیدواروں نے حلف نامے دیے، باقی 41 نے کیوں نہیں دیے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت جاری ہے، جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر بحث کی جا رہی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں  11 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، اور یہ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل

آج صبح جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو معروف وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنے دلائل کے آغاز سے پہلے جسٹس جمال مندوخیل کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کے دوران مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ دیا۔ اور موقف اختیار کیا کہ عدالت نے قرار دیا ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قراردے کر بحال کیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے سے قانون کے خلاف کام ختم کر سکتی ہے۔ جو بھی غلط ہوتا ہے اس کو سسٹم کو واپس لانے کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ کیس کی صورتحال کے مطابق ریلیف دیا جاتا ہے۔ آئینی خلاف ورزیوں کو سپریم کورٹ آئینی حل کے ذریعے درست کرتی آئی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 66 کہتا ہے کہ سیاسی جماعت اپنے ٹکٹ جاری کرتی ہے۔ اس میں تیسرے فریق کی اجازت کا تصدیق درکار نہیں ہوتی۔

معزز ججز کے سوالات اور سلمان اکرم راجہ کے جوابات

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا کوئی ثبوت دیا تھا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرائے گئے تھے اور ججز کی اکثریت نے اس کو تسلیم بھی کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا اکثریتی فیصلے میں پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر آبزرویشنز شامل ہیں؟ سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ فیصلے میں پوری تفصیل دی گئی ہے جو وقت کی قلت کی وجہ سے پورا نہیں پڑھ رہا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت تو موجود تھی مگر کچھ نے پارٹی سے وابستگی شامل کی کچھ نے نہیں کی؟

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے  کہ آپ کے 39 امیدواروں نے اپنی وابستگی ظاہر کی، باقیوں نے تو نہیں کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے 39 امیدواروں کی طرح باقی 41 بھی بیان حلفی جمع کرا دیتے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ  انہوں نے تمام دستاویزات جمع کرائی ہیں، سب نے پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کی تھی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ تو جتنی مرضی دستاویزات جمع کرا سکتے ہیں، یہ تو آپ کا پرائیویٹ ریکارڈ ہے، پبلک دستاویزات نہیں ہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ میں نے کیس سے متعلقہ ہی دستاویزات جمع کرائے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اب دیکھنا تو یہ ہے الیکشن کمیشن نے آئین سے روگردانی کی یا سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے۔

اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے سلمان اکرم راجہ سے پوچھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت کوئی ایکشن لیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے سمیت تمام اقدامات کو چیلنج کیا تھا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ  آپ کا ذاتی کیس تھا یا پی ٹی آئی کا؟ سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 24 دسمبر 2023 کو قرار دے دیا تھا کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں ہے،الیکشن کمیشن کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے یہ پورا معاملہ اس حد تک بگڑا۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ انٹراپارٹی الیکشن تو الیکشن کمیشن نے نہیں مانا تو اس کو کسی نے درست قرار دیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تسلیم کر لیا تھا۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے، جب آپ نے تسلیم کر لیا کہ انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں ہوئے تو اس کے نتائج تو ہوں گے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 11 ججز نے الیکشن کمیشن کی رول 94 کی وضاحت کو غلط قرار دیا۔ رول 94 کی وضاحت کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن نے ہمیں انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محروم کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ جب انٹرا پارٹی الیکشن نہیں تسلیم ہوئے تو بیرسٹر گوہر چئیرمین تو نہ ہوئے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے اور اس کی وضاحت الگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو نگران سیٹ اپ تو ہوتا ہو گا! سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ پارٹی کا سیٹ اپ ختم نہیں ہو جاتا یہ تو سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کرائے؟ وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کرائے تھے وہ بھی چیلنج ہو گئے، مرکزی کیس میں الیکشن کمیشن نے کئی دستاویزات لا کر دیں اور 2 دن لگا کر ہم نے ان پر بحث کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے اقدامات کو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے بھی غلط قرار دیا۔ الیکشن کمیشن فیصلے کے بعد بھی کسی فہرست کو تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے محروم کیا اور 23 کو کہا فہرستیں تسلیم نہیں کریں گے۔ جب کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ پر پی ٹی آئی کی وابستگی تسلیم نہیں کی تو عدالتوں میں آنا پڑا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر تو آپ کی کوئی فہرستیں نہیں ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ہم سے کوئی فہرستیں نہیں لے رہا تھا ہم نے اپنی ویب سائٹس پر اپلوڈ کیں۔ یہ ہماری فہرستیں نہیں لے رہے تھے ہم لاہور ہائیکورٹ گئے اور پھر انہوں نے اسکروٹنی کی میعاد بڑھائی۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی تسلیم نہیں کر رہا تھا تو کچھ امیدواروں نے آزاد کاغذات جمع کرائے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 1995میں جب پارٹی الیکشن ہوئے تو امیدواروں نے عوام دوست کا لیبل استعمال کیا تھا، کیا آپ نے پارٹی کی حیثیت کے بغیر کوئی ایسی اصطلاح استعمال کی کہ لوگ سمجھ جائیں؟ سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ سر! ہم نے ’خان کا سپاہی‘ جیسی اصطلاح استعمال کی تھیں، تبھی ووٹ پڑے۔ مجھے بانی پی ٹی آئی کے نام پر 1 لاکھ 60 ہزار ووٹ پڑے۔ ہم بانی پی ٹی آئی کی تصویر والے بینر لگاتے، روزانہ رات ان کو پھاڑ دیا جاتا اور صبح پھر لگاتے۔ ہمیں اتھارٹیز کہتی تھیں کہ الیکشن کمیشن کے احکامات ہیں کہ جہاں پی ٹی آئی لکھا ہو وہ بینر پھاڑ دو۔

جسٹس ہاشم کاکڑ کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ پارٹیوں کو جنرل سیٹوں کی بنیاد پر مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں،  5 یا 6 آزاد امیدواروں کے آنے سے تھوڑا فرق پڑتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ 33 فیصد سیٹیں لینے والی جماعت کو ایک بھی سیٹ نہ دی جائے،

اس موقع پر  جسٹس ہاشم کاکڑ نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رول 94 کی موجودگی میں آپ کے تمام دلائل غیر ضروری ہیں، رول 94 کی موجودگی میں چاہے کسی نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی لکھا یا نہیں فرق نہیں پڑتا۔ آپ رول 94 پر دلائل دیجیے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے رول 94 کو عدالتوں میں چیلنج کیا تھا، لاہور ہائیکورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن بھیج دیا، ہم سپریم کورٹ میں آئے، سپریم کورٹ نے الیکشن سے پہلے ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے، اکثریتی فیصلے میں ججز نے رول 94 کو کالعدم قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے پاکستان کے عوام کو حق دینا ہے، آپ نے مجھے یا کسی اور کو ریلیف نہیں دینا ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ سوال اس وقت تک سوال رہتا ہے جب تک آپ کو اس کا جواب معلوم نہ ہو۔ جب تک 94 کی ایکسپلینیشن آئین کا حصہ رہے گی باقی باتیں انرریلونٹ بن جاتی ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 8 ممبر ججمنٹ نے رول 94 کو الٹرا وائریز ڈیکلئیر کیا، 25 دسمبر کو فیصلہ آیا ہے، 31 دسمبر کو ہم عدالت آئے، ہم عدالت گئے وہاں درخواست دائر کی اس کے بعد کیس چلا۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کے بعد ہمارے پاس 3 دن تھے کسی بھی سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کے لیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کتنے امیدواران نے جیتے تھے؟ کیا انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا؟  جب پارلیمانی پارٹی نہیں ہے تو کیسے مخصوص نشستوں کی لسٹ میں 81 کو شامل کیا؟ کیا اس کو پہلے پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کیا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر ہم نے لسٹیں جمع کروا دی تھیں۔ جب ہم نے جمع کروائیں، ہمیں واپس ہو گئیں، پھر ہم عدالت گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اپ نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کب کروائی تھی؟ 24 تک آپ کو یقین تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ہو گی اس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 2 فروری کا آرڈر 7 فروری کو جاری کیا، پاکستان تحریک انصاف الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی الیکشن کمیشن الیکشن سے ایک دن پہلے یہ آرڈر کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ پی ٹی آئی مخصوص نشستیں سپریم کورٹ آف پاکستان سلمان اکرم راجہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی مخصوص نشستیں سپریم کورٹ ا ف پاکستان سلمان اکرم راجہ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان نے جسٹس جمال مندوخیل نے انٹراپارٹی الیکشن سلمان اکرم راجہ کا نے استفسار کیا کہ مخصوص نشستوں سے کہ الیکشن کمیشن الیکشن کمیشن کے الیکشن کمیشن نے نے ریمارکس دیے نے اپنے دلائل پارٹی الیکشن امیدواروں نے سیاسی جماعت تسلیم نہیں میں الیکشن سپریم کورٹ پی ٹی آئی انہوں نے قرار دیا رول 94 کی نہیں ہو نہیں کر کا جواب وکیل نے کے بعد کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

ہریانہ کا ہائیڈروجن بم

ڈاکٹر سلیم خان

امسال قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے 11ستمبر کو اپنے پارلیمانی حلقے رائے بریلی کے اندر یہ انکشاف کرکے پورے ملک کو چونکا دیا کہ ‘جب ہائیڈروجن بم آئے گا تو سب صاف ہو جائے گا” اور پھر جب وہ واقعی ہریانہ بم پھوٹا تو الیکشن سمیت بی جے پی کا سُپڑا صاف ہوگیا۔ اپنے دو روزہ دورے پر راہل گاندھی نے الزام لگایا تھاکہ ملک میں ووٹ چوری کرکے حکومتیں بنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ ”مہاراشٹر، ہریانہ اور کرناٹک کے انتخابات میں ووٹ چوری ہوئی ہے ۔ ہم نے اس کے بلیک اینڈ وائٹ ثبوت دیئے ہیں۔ انتظار کیجیے ، بہت جلد ووٹ چوری کے مزیدانکشافات سامنے آنے والے ہیں۔ بی جے پی والے پریشان نہ ہوں، ووٹ چوری کا ہائیڈروجن بم آنے والا ہے ، سب کچھ صاف ہو جائے گا”۔ اس وقت راہل گاندھی نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا تھا کہ بی جے پی ووٹ چوری کر کے جیتی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے ملک میں ایک کروڑ جعلی ووٹ بڑھائے ہیں۔اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنے "ووٹ چور گدی چھوڑ مشن کی مدد سے کارکنوں میں جوش بھرنے کے بعد نعرے لگوائے تھے ۔
راہل گاندھی نے اس وقت مہاراشٹر اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بی جے پی کی ووٹ چوری پکڑنے کا جوا الزام لگایا تھا اسے بالآخر انہوں نے مع شواہد ہریانہ تک پھیلا دیا۔ انہوں نے اس حکومت پر آئین کو خطرات میں ڈالنے اور عام لوگوں کے حقوق کو کچلنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا جو پھر ایک بار ثابت ہوگیا۔ راہل گاندھی نے اس ووٹ چوری کے اسکینڈل یعنی ‘ہائیڈروجن بم’ کو گرا کر ووٹ چوری اور ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات کو پہلے کرناٹک کے مہادیو پورہ کی مثال سے ثابت کیا اور اب ہریانہ کے حوالے سے کئی ثبوت پیش کیے ۔اس طرح الیکشن کمیشن کے ساتھ بی جے پی کی ملی بھگت کو منظر عام پر آگئی۔ کانگریس ہیڈکوارٹر میں ‘دی ایچ فائلز’ کے نام سے کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران راہل گاندھی نے ‘ووٹ چوری’ کے تازہ ثبوت پیش کر زبردست سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے ۔ ‘ووٹ چوری’ کے شواہد ایک پریزنٹیشن کے صورت میں پیش کرکے گاندھی نے کئی طرح کی بے ضابطگیوں کو طشت از بام کر دیا۔
راہل گاندھی نے اپنی کانفرنس میں یہ واضح کیا کہ انہیں کئی ریاستوں سے ووٹ چوری کی شکایات موصول ہوئی اور اب تحقیق کے بعد ہریانہ میں ووٹ چوری کا سچ سامنے لا یا جارہاہے جو 101 فیصد سچائی ہے ۔ ا س بابت سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ یہ دھوکہ دہی بوتھ کی سطح پر نہیں بلکہ مرکزی سطح پر ہوئی ہے ۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ میں ایگزٹ پول میں کانگریس آگے تھی۔ بعد میں بی جے پی جیت گئی۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان صرف چند ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں 25 لاکھ ووٹ چوری ہوئے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ کرناٹک کے مہادیو پورہ میں پیش آیا۔انہوں نے ہریانہ کے 10 بوتھوں پر ووٹ ڈالنے والی ایک لڑکی کو مثال کے طور پر پیش کیا جس نے جعلی شناختی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے 22 بار ووٹ ڈالا۔ یہ کام اس قدر ڈھٹائی سے کیا گیا کہ کئی ووٹر لسٹوں میں برازیلین ماڈل کی تصویر استعمال کی گئی۔ اپنی دھوکہ دہی کو چھپانے کے لیے ہریانہ میں دو بوتھوں سے ویڈیو فوٹیج کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
راہل گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں جملہ دو کروڈ ووٹرس ہیں ان میں کے ہر آٹھ میں سے ایک ووٹر فرضی تھا۔ جعلی فوٹو والے 100,000 سے زیادہ ووٹر تھے ۔ یہ سب کرنے کے باوجود بی جے پی کوصرف سوالاکھ ووٹ کے فرق سے الیکشن کمیشن کی مدد سے کامیاب کیا گیا ۔ اعدادو شمار سے ہٹ کر راہل نے بی جے پی رہنما سینی کی آڈیو ریکارڈنگ بھی چلا کر دکھا دی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بی جے پی کے پاس ”عظیم انتظام” ہے ۔ اس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاملات حل ہو جائیں گے ، فکر نہ کریں اور بی جے پی جیت گئی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملک بھر میں جعلی ووٹنگ ہو رہی ہے ۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں صریح جھوٹا قرار دیا۔اس طرح قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بی جے پی سے کیا جانے والا اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اتنے سارے ثبوت پیش کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کو شرم نہیں آئی ۔ اس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو دور یہ بھی نہیں کہا کہ ہم ان شواہد کی تفتیش کریں گے بلکہ الٹا راہل گاندھی کو دھمکی دینے پر اتر آیا۔
ملک کے اندر اس سیاسی بمباری کے بعد چند گھنٹوں کے اندر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا کہ کانگریس نے نظرثانی کے عمل کے دوران ووٹر لسٹوں پر کوئی اعتراض یا اپیل دائر نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کسی قتل کے بعد اگر مقتول کے وارثین نے شکایت درج نہیں کرائی تو کیا اس کی آڑ میں قاتل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن عین انتخاب سے قبل ووٹر لسٹ جاری کرتا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں تشہیر میں مصروف ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لسٹ کی سافٹ کاپی شائع نہیں کرتا جس سے جانچ پڑتال میں آسانی ہوتی ہو۔ پہلے تو خواتین کے ڈیٹا کی آڑ میں کچھ بھی شائع نہیں کرتا تھا۔ یہ عجب تماشا ہے کہ یوگی برقع کے خلاف بکواس کرتا ہے اور الیکشن کمیشن خواتین کی معلومات چھپاتا ہے ۔ اب پی ڈی ایف کی جو لسٹ شائع کی جاتی ہے اس کی جانچ پڑتال میں وقت لگتا ہے تو ای سی کو شکایت ہے کہ وقت کیوں لگا حالانکہ وہ خود اس کے لیے ذمہ دار ہے ۔ای سی آئی میں اگر ہمت ہے تو راہل گاندھی کے الزامات کی تردید کرے وہ تو ہوتا نہیں اس لیے تکنیکی حیلے بہانے بنا کر چوری چھپائی جارہی ہے ۔الیکشن کمیشن یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہریانہ انتخابات کے دوران برازیلی ماڈل کے نام پر ٢٢ ووٹ نہیں پڑے ؟
الیکشن کمیشن نے ان الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الٹا سوال کردیا کہ ‘راہل گاندھی جامع ووٹر لسٹ کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟’ ای سی کو پہلے الزامات کا جواب دینا چاہیے پھر سوال کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن یہ پوچھتا ہے کہ’پولنگ اسٹیشنوں پر موجود کانگریس پارٹی کے ایجنٹ کیا کر رہے تھے ‘؟ ۔ اس کا جواب اگر یہ ہے کہ وہ جھک مار رہے تھے یا غافل تھے تو کیا اس سے الیکشن کمیشن کو ووٹ چوری کا حق مل جاتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس کو ایک بھی شکایت نہیں ملی مگر جب اکھلیش نے ان شکایتوں کا پلندہ پیش کردیا تو اسے شرمسار ہونا پڑا مگر اصل بات یہ ہے کہ کس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا یہ پوچھنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ انتخابات کو غیر جانبداری کے ساتھ منعقد کرانے کے لیے اس نے کیا کیا ؟ کیونکہ بنیادی طور پر یہ کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
ای سی کی یہ بات درست ہے کہ ہریانہ میں انتخابی فہرستوں کے خلاف صفر اپیلیں تھیں مگرہریانہ کی 90 اسمبلی سیٹوں کے لئے ہونے والے انتخابات سے متعلق 22 درخواستیں فی الحال ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ان الیکشن پٹیشن قانون کے تحت مقدمات میں پارلیمانی، اسمبلی یا مقامی انتخابات کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ انتخابی درخواست نتائج کے اعلان کی تاریخ سے 45 دن کے اندر اسے دائر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ مدت گزر بھی جائے تب مجرم تو مجرم ہی رہتا ہے ۔
سیاست میں مثل مشہور ہے کہ جب لوہا گرم ہو تبھی ہتھوڑا مارنا چاہیے ۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے ”ووٹ چور گدی چھوڑ” کے نعرے کی تمازت سے انتخابی مہم کے دوران لوہا گرم کیا اور جب وہ نرم ہوگیا تو عین پہلی پولنگ کی شام کو یہ دھماکہ کردیا ۔ اس بہترین حکمتِ عملی نے بہاری رائے دہندگان کے اندر زبردست بیداری پیدا کردی ۔ ان لوگوں نے ووٹ کی چوری کے خطرات کو خوب اچھی طرح محسوس کرکے سب سے پہلے تو ووٹر فہرست کی جانب دوڑ پڑے اور اپنا نام تلاش کرنا شروع کردیا۔ امید ہے کہ اس بیداری کے بعد ووٹ دینے والے عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال اور اس کی حفاظت بھی کریں گے اور للن سنگھ جیسا کوئی بدمعاش دھاندلی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو سبق سکھا دیں گے ۔ اقتدار کی ہوس میں پاگل ہوکر بی جے کے رہنما آگ سے کھیل رہے ہیں اور اگر یہ خدا نخواستہ یہ بھڑک گئی تو اس کی قیمت پورا ملک چکائے گا۔ بہار کے نوجوانوں میں زبردست جوش و خروش ہے جسے تیجسوی ، راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی اور عمران پرتاپگڈھی کے خطابات عام میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہائیڈروجن بم نے نئی نسل میں جو بیداری پیدا کی ہے اس نے این ڈی اے کا سیاسی جنازہ اٹھا دیا ہے ۔ اس صورتحال پرمیرٹھ کی جواں سال شاعرہ ہمانشی بابرا کا یہ شعر صادق آتا ہے
آج اٹھا ہے مداری کا جنازہ لوگو
کل سے بستی میں تماشہ نہیں ہونے والا

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز منظور کر لیں
  • ہریانہ کا ہائیڈروجن بم
  • سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات
  • ٹی ایل پی امیدواروں کو انتخابی نشان کیس سماعت کیلیے مقرر
  • پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس، 27ویں ترمیم پر ارکانِ مجالس عاملہ کو اعتماد میں لیا گیا
  • ضمنی الیکشن میں ٹی ایل پی امیدواروں کو انتخابی نشان نہ دینے پر درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • چیئرمین جوڈیشل واٹر کمیشن کی تقرری سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
  • سپریم کورٹ: 27ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ ریمارکس، کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی
  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر ججز اور وکلاء کے درمیان دلچسپ مکالمہ