امریکی شہریت اب صرف پیدائش سے نہیں ملے گی، سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
امریکی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برتھ رائٹ سٹیزن شپ ختم کرنے سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے.
امریکی میڈیا کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے برتھ رائٹ سٹیزن شپ (پیدائش کی بنیاد پر شہریت) ختم کرنے سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کےحق میں فیصلہ دیا ہے،جسے صدر ٹرمپ نے اپنی بڑی فتح قرار دیا ہے، اس فیصلے کے بعد بعض امریکی ریاستوں میں یہ حکم نامہ فوری طور پر نافذ العمل ہو جائے گا، جبکہ دیگر ریاستوں میں اسے مقامی سطح پر قانونی ضوابط کے مطابق لاگو کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے فیصلے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری بہت بڑی فتح ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکی شہریت کے نظام میں اصلاحات کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔
واضح رہے کہ برتھ رائٹ سٹیزن شپ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت ہر اس شخص کو شہریت فراہم کرتی ہے جو امریکا کی سرزمین پر پیدا ہوتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کے والدین کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ صدر ٹرمپ اس شق کو غیر قانونی تارکین وطن کی حوصلہ افزائی قرار دیتے رہے ہیں اور صدارتی دور میں اسے ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا تھا، جس پر کئی حلقوں نے قانونی اور اخلاقی اعتراضات اٹھائے تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد امریکا میں امیگریشن پالیسی ایک نئے دور میں داخل ہو سکتی ہے، جہاں شہریت کا حق اب صرف پیدائش کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوگا بلکہ والدین کی قانونی حیثیت بھی فیصلہ کن عنصر سمجھی جائے گی۔ یہ فیصلہ ملک بھر میں شدید سیاسی، قانونی اور سماجی مباحث کو جنم دے سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا برتھ رائٹ سٹیزن شپ ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا برتھ رائٹ سٹیزن شپ ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ برتھ رائٹ سٹیزن شپ ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائیگا
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائیگا WhatsAppFacebookTwitter 0 27 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ عدالت عظمی کا آئینی بینچ مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائے گا۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی آینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جواب الجواب کی حد تک دلائل محدود رکھیں، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیے، بہت ہوچکا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں رول 94 کو غیر آئینی نہیں کہا گیا، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا، مختصرحکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مختصر آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جو شارٹ آرڈر میں نہیں وہ تفصیلی میں نہ آئے، سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو تو تفصیلی کی ضرورت کیا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جس چیز کو شارٹ آرڈر میں غیرقانونی نہیں کہا اسے تفصیلی میں کیسے کہہ سکتے؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلے میں مختصر حکم نامے سے کہاں انحراف کیا گیا؟ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم پچاس سو وجوہات لکھ سکتے ہیں، جو دلائل دیے گئے جواب الجواب میں انہی پر جواب دیا جائے، میں چاہتا ہوں سپریم کورٹ کا وہی وقار، عزت بحال ہو، جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ جاتا ہے کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی سی بارے 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں، نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجز ہونا پڑتا ہے، جو چیز ہنس کر خوشی سے لے سکتے ہیں وہ لڑ کر نہیں لیا جاسکتا، کسی کی تضحیک کرکے کچھ بھی نہیں لیا جاسکتا۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نیایک ایسی جماعت میں شمولیت کی جسیمخصوص نشستیں نہیں مل سکتی تھیں، اگر سب آزاد امیدوار نئی جماعت بھی بنا لیں تو بنا سکتے ہیں، ایسی صورت میں بھی مگرانہیں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہیمخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم ازکم ایک نشست جیتنا لازم ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتی، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے، اصل غلطی پی ٹی آی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے یہ کہا کہ جنہوں نے غلطی کی پی ٹی آئی تحقیقات کروائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی کیس میں فریق بننے کی درخواست نہیں کی۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست جو دائر ہوئی اس میں فریق بنانے کا لکھا ہوا ہے، کیا انتحابات سے متعلق مقدمات میں طریقہ کارضروری ہوتا ہے، مکمل انصاف کا اختیار اس کیس میں کیسے استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طریقہ کار کسی بھی کام میں بہت ضروری ہوتا ہے،
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پشتوں کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل کچھ روز کے لیے دیا، جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دی، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، یہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، پھر بھی ہمیں گالیاں پڑھ رہی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے جذبات میں نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے اسٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کاغذات نامزدگی دیکھے، کچھ لوگ غلط بیانی سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ہم نے قوم کو گمراہ نہیں حقیقت بتانی ہے، ذاتی علم پر بطور گواہ آسکتا ہوں جج نہیں، پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو خود دھکا دیا کہ اس جماعت میں جائیں۔وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ جو چیزیں زیر بحث نہیں آئیں اس پر فیصلہ کیسے دیا گیا؟ اکثریتی فیصلے میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، فیصلے کے مکمل انصاف کے پیرا گراف پر نظرثانی ہونی چاہئے۔
اٹارنی جنرل نے رول 94 کو غیر آئینی قرار دینے کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رول 94 کو کہیں چیلنج ہی نہیں کیا گیا تھا، کیس کے دوران کسی نے اس پر دلائل بھی نہیں دیے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کسی نے اس پر دلائل نہیں دیے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل کسی نے نہیں کیا، ریکارڈنگ نکال کر دیکھ لیں، تفصیلی فیصلے میں رول 94 کی وضاحت کو کالعدم کیا گیا، مختصر حکم نامے میں رول 94 کا ذکر ہی نہیں تھا۔جسٹس نعیم افغان اختر نے کہا کہ رول 94 پر میں نے فیصل صدیقی سے پوچھا بھی تھا، فیصل صدیقی نے کہا تھا ہم رول 94 کو چیلنج نہیں کررہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں رول 94 سے متعلق پیراگراف حذف کرنا ہوگا، الیکشن ایکٹ کا رول 94 اس کے نتیجے میں وضاحت سمیت بحال ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی جماعت کا آئینی حق صرف ایک رول سے چھینا جاسکتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعت کا وجود تو رہے گا مگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر اس کے امیدوار آزاد ہوں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ آپ کی تشریح ہے آئین یا قانون میں ایسا نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر صرف انتخابی نشان ہی ختم ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کرسکتی۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کی معاونت کی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جبکہ مختصر فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا۔یاد رہے کہ 6 مئی 2025 سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔تاہم، بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، اسحاق ڈار اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، اسحاق ڈار مون سون سیزن کا آغاز،ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے سی ڈی اے متحرک نائب وزیراعظم جولائی میں امریکا سمیت 4 اہم ممالک کا دورہ کریں گے آئندہ برس حج کے خواہشمندوں کیلئے حکومت کا بڑا اعلان، آخری تاریخ مقرر پاکستان نے کان کنی کی صنعت میں پہلا گولڈ سرٹیفکیشن حاصل کرلیا وفاقی حکومت نے سالانہ عبوری محصولات کے اعداد و شمار جاری کرنے پر پابندی لگادیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم