شرکاء جلوس کا کہنا تھا کہ عاشورہ کا جلوس صرف غمِ حسین کا اظہار نہیں بلکہ ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا عہد ہے، یہ جلوس نسلِ نو کو وہ پیغام دیتا ہے، جو کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین نے اپنے لہو سے تحریر کیا کہ ظلم کے سامنے جھکنا گناہ ہے اور حق کیلئے قربانی دینا فخر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے مختلف شہروں میں آج یومِ عاشورہ کے موقع پر نواسۂ رسول حضرت امام حسین اور ان کے باوفا ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد میں جلوسِ عزا برآمد ہوئے۔ ہیوسٹن اور ڈیلس میں ہونے والے ان جلوسوں میں ہزاروں عزاداروں نے شرکت کی، جہاں ہر دل پرسوز، ہر آنکھ اشکبار اور ہر سینہ ماتم گاہ بنا نظر آیا۔ ہیوسٹن میں مرکزی جلوس کا اہتمام انجمن پاسبانِ عزا کی جانب سے کیا گیا، جہاں شہر بھر سے مختلف مذہبی و عزاداری تنظیموں، انجمنوں اور اداروں نے شرکت کی۔ مرد، خواتین اور بچے سیاہ لباس میں ملبوس، سر جھکائے، دلوں میں کربلا کا درد لیے، حق کے پیغام کو بلند کرنے کے لیے لبیک یاحسین کی صدا کے ساتھ شریک ہوئے۔ جلوس کے راستے میں جگہ جگہ تعزیے، علم مبارک، تابوت اور پانی کی سبیلیں لگائی گئی تھیں، جن کے گرد عزاداروں کا ہجوم عقیدت و احترام سے سرشار دکھائی دیا۔

ڈیلس میں عاشورہ کا جلوس انجمن سرکارِ وفا کی قیادت میں ڈاؤن ٹاؤن کے جان ایف کینیڈی میموریل کے سامنے سے برآمد ہوا، اس جلوس کی قیادت معروف سماجی و مذہبی شخصیت علی رضوی نے کی۔ جلوس میں مومن سینٹر، علم سینٹر اور درِ حسین سے وابستہ عزاداروں سمیت ہزاروں مومنین و مومنات، خواتین، بزرگ اور بچوں نے شرکت کی۔ علمائے کرام نے جلوس کے شرکاء سے خطاب میں سانحۂ کربلا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ امام حسین کے یزید جیسے ظالم حکمراں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرکے صرف تاریخ نہیں بدلی بلکہ انسانیت کو جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ شرکاء جلوس کا کہنا تھا کہ عاشورہ کا جلوس صرف غمِ حسین کا اظہار نہیں بلکہ ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا عہد ہے، یہ جلوس نسلِ نو کو وہ پیغام دیتا ہے، جو کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین نے اپنے لہو سے تحریر کیا کہ ظلم کے سامنے جھکنا گناہ ہے اور حق کے لیے قربانی دینا فخر ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے سامنے

پڑھیں:

ایسے امام سے گزر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251129-03-6
شرَفِ عالم
میں: یہ تو شاید بال ِ جبریل میں اقبال کی ایک غزل کا شعر ہے، جو کچھ یوں ہے

تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر

وہ: ہاں اور اقبال نے یہ غزل اپنے قیام ِ لندن کے دوران کم وبیش ایک صدی قبل کہی تھی۔ محض پانچ اشعار کی یہ مختصر ترین غزل میری دانست میں اقبال کے فلسفے اور شاعری میں پنہاں اس پیغام کا مکمل نچوڑ ہے جسے انہوں نے گاہے گاہے مختلف پیرایۂ بیان میں ادا کیا ہے۔ اس غزل میں جہاں وہ ایک عام انسان کے لیے اس عارضی دنیا کو ایک رہ گزر سمجھتے ہوئے اس کے اصل مقام ومرتبے کو واضح کررہے ہیں وہیں ربّ کے ساتھ بندے کے اس بے غرض تعلق کی تشریح بھی کررہے ہیں جس کا اصل میں بندے سے مطالبہ ہے، یعنی بندگی کی غرض جنت کے انعام اور دوزخ کے عذاب سے ماورا ہونی چاہیے۔

میں: لیکن میں توصرف اسی لیے نیک عمل کرتا ہوں کہ انعام میں جنت ملے گی اور دوزخ کی آگ سے بچ جائوں گا۔ اس کے علاوہ ایک بندے کو اورکیا چاہیے؟

وہ: یقینا ایسا ہی ہے اور یہی ایمان لانے کے بعد عملی زندگی کا تقاضا بھی ہے کہ انسان دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے نیک کاموں کے ذریعے آخرت میں آتش ِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ لیکن بندگی ٔ بے غرض کے موضوع پر کسی اور دن بات کریں گے۔ آج اقبال کی زیر نظر موضوع کے تناظر ہی میں گفتگو کرتے ہیں۔ اقبال نے اس غزل کے ابتدائی دو اشعار میں انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کی آخرت کے مقابلے میںدنیا کو ترجیح دینے اور عبادات کو محض ایک رسم اور عادت کی طرز پر ادا کرنے کے عمل کو بڑی خوب صورتی سے اُجاگر کیا ہے۔ تیسرے شعر میں اس کی وجہ بھی اسی مہارت کے ساتھ بیان کردی ہے۔ تینوں اشعار کو ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہےؔ۔

تو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دل کشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار
طائرکِ بلند و بال دانہ و دام سے گزر

میں: یعنی بقول اقبال مغرب کی مادی ترقی کی چکا چوند اور تہذیبی بداعمالیاں ایک پرکشش اور خوشنما جال کی طرح ہیں جن کے فریب میں مبتلا ہوکر مسلمان کیا ہر سماج ہر مذہب کے انسان نے اپنی اخلاقیات، عبادات اور روایات ہر چیز کو فراموش کردیا ہے، جس طرح بلندیوں پر محو پرواز کوئی پرندہ کسی شکاری کے دانہ دنکا دکھانے پر اس کے جال میں آپھنستا ہے۔

لیکن آج کا موضوع ابھی بھی وضاحت طلب ہے کہ تم کس امام سے گزرنے کی بات کررہے ہو؟ یہاں تو نہ کوئی امام ہے نہ رہبر۔ میرے خیال سے تو اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ساری امت کسی رہنما یا امام کی راہ دیکھ رہی ہے۔ جسے دیکھو یہی رونا روتا رہتا ہے کہ کاش ہمارے پاس کو اچھا لیڈر ہوتا تو آج ہماری قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔

وہ: بات بالکل واضح ہے۔ مغربی تہذیب وثقافت، لباس، طرزِ معاشرت اور اقدار کے سحر میں آکر مغرب کو اپنا امام بنانے کا جو کام ہم نے ایک ڈیڑھ صدی پہلے شروع کیا تھا وہ آج تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ جس قوم کو دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دینا تھا وہ تو خود اپنے خالص اسلامی معاشرے میں بھی کسی ایسے فرد کو اپنا رہبر منتخب کرنے سے قاصر ہے جس کی رہنمائی اسے زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ دکھا سکے۔ آج نہ ہماری عبادت بے غرض ہے نہ سیاست۔ ہماری عباد ت میں خدا کا ذکر تو ضرور ہے مگر افسوس کہ ہماری زندگیوں اور طرزِ معاشرت میں خدا کہیں موجود نہیں۔ سیاست میں سادہ لوح عوام کو جھانسا دینے کے لیے ایک نعرے یا بیانیے کی حد تک خدا کبھی کبھی نظرآجاتا ہے مگر حقیقت میں محض ایک سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ وہ شاطر اور عیار لیڈر عوام کی اس نفسیات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ ہم مذہب کے معاملے میں خاصے جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ تم دیکھ لو گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال میں چند ہی چیدہ شخصیات ہیں جو اپنی اقوام کے لیے صحیح معنوں میں رہنما کے منصب کو کسی حد تک پورا کرتی نظر آئی ہیں۔

میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اس وقت دنیا میں کوئی بھی رہنما ایسا نہیں جو رہبری کا حق دار یا اس کا اہل ہو؟

وہ: حقیقی معنوں میں دیکھو تو یہ معاملہ لیڈر یا رہنما سے زیادہ آج کے انسان کا ہے۔ مغربی تہذیب، اس کے تعلیمی نظام، سیاسیات اور معاشرت کے زیر اثر گزشتہ کئی صدیوں سے جو انسان پروان چڑھ رہے ہیں وہ انسان کے بجائے جانوروں کی صفات سے زیادہ قریب ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ بظاہر کسی نہ کسی لباس میںنظر آتے ہیں۔ لہٰذا جیسے انسان ہیں انھی میں سے کچھ لیڈر بھی سامنے آجاتے ہیں۔ کہیں کوئی عیاش صدر ہے، تو کہیں کوئی چور اور ڈاکو، کہیں کوئی اپنی سیاست اور گدی بچانے کے لیے مذہبی تعصب کو ہوا دے رہا ہے تو کہیں کسی رہنما کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں۔

میں: تو پھر اقبال جس امام سے صرف ِ نظر کرنے کی بات کررہے ہیں وہ مسجد کا امام نہیں بلکہ وہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو ہم نے برسوں سے اپنا قبلہ وکعبہ بنایا ہوا ہے؟

وہ: اقبال دونوں ہی کی بات کررہے وہ امامت ِ نماز ہو یا امامت ِ نظام۔ اگر نماز پڑھانے والا امام حضوریٔ قلب سے ناآشنا ہے تو نہ اس کی نماز میں کوئی کیف و سرور ہوگا اور نہ ہی اس کے پیچھے کھڑے مقتدیوں کے قیام وسجود میں۔ اور حضوریٔ قلب خطابت کی گھن گرج سے نہیں دل کی نرمی اور عمل کی گرمی سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ اورجہاں تک رہی بات امامت ِ نظام کی تو جماعت اسلامی کے امیر محترم حافظ نعیم الرحمن نے لاہور کے اجتماع ِ عام سے بدل دو نظام کی جس تحریک کا آغاز کیا ہے اس کا اصل پیغام وہی ہے جو اقبال برسوں پہلے اور نبی آخری الزماں محمدؐ صدیوں پہلے دے گئے تھے۔ اور نظام بدلنے کے لیے امام بدلنا ہوگا، قوم کو ایک ایسا امام درکار ہے جس کے دل میں خوف ِ خدا، حب ِ رسولؐ اور عوام کا درد ہو، جو کسی جاہ و منصب کے بجائے رضائے الٰہی اور آخرت میں قربت ِرسولؐ کا طلب گار ہو۔ بقول اقبالؔ

تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ڈپٹی جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی کی بدین میں مختلف برادریوں سے تعزیت
  • سینیٹر مشاہد حسین ایشیا۔یورپ پولیٹیکل فورم کے چیئرمین منتخب
  • باجوڑ میں سالارزئی قوم کا گرینڈ جرگہ، حکومت کے سامنے آٹھ مطالبات رکھ دئیے
  • امریکی شہری کو فیس بک پر ’اجنبی کا پیغام‘ 2 لاکھ 80 ہزار ڈالر میں پڑا
  • امریکی ریاست ٹیکساس میں بم بنانے کا دعویدار افغان شہری گرفتار
  • امریکی ریاست ٹیکساس میں بم بنانے کا دعویٰ کرنیوالا افغان شہری گرفتار
  • ٹیکساس، ٹک ٹاک پر بم بنانے کا دعویٰ کرنے والا افغان شہری گرفتار
  • آزاد فلسطینی ریاست اور اسرائیلی مظالم پر جوابدہی ناگزیر؛ عالمی یوم یکجہتی پر وزیراعظم کا پیغام
  • ایسے امام سے گزر
  • امیگریشن کے قوانین میں سختی کے بعد امریکی شہریوں کے غیر ملکی بیویاں گرفتار