Nai Baat:
2025-07-26@14:24:14 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ نے صبر کرنے والے غزہ کے مظلوم عوام کو ظالم و سفاک وحشی اللہ کے دھتکارے ہوئے اسرائیل پر فتح فرمائی۔ اللہ نے دیکھا دیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پچاس ہزار شہادتوں لاکھ سے زیادہ زخمیوں، سیکڑوں ملبے تلے دبے ہوﺅں، لاکھوں بے یارو مددگار سڑکوں پر پڑے ہوﺅں، سیکڑوں گم شدہ، ٹوٹے پھوٹے خیموں پناہ گزیں، لاکھوں اسرائیل جیلوں میں بند فلسطینیوں کی قربانیاں رگ لائیں ۔ اللہ نے انہیں فتح عطافرمائی۔ اسرائیل غزہ کو اپنے تکبر کے زور پر مٹانے نکلا تھا۔ مگر ذلیل ہو کر اور شکست فاش کھا کر واپس اپنے خول میں جا چھپا۔ اس کا نظارہ دنیا نے اسرائیل کی دفاعی کمیٹی میں دیکھا کہ متعصب وزیر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ اسرائیلی دجالی ریڈیو کی خبر کے مطابق، موساد کاچیف یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے جو اسرائیل کو پیناپڑا۔ اسرائیل اس حال تک پہنچ چکاہے کہ اسے پیئے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ 33 یرغمالیوں کے بدلے 90 فلسطینی خواتیں اور بچے رہاہو گئے ہیں۔ اسرائیلی باقی قیدیوں کے بدلے 2000 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔ غزہ میں عوام جشن منا رہے ہیں۔ دنیا کے امن پسند عوام بھی خوشیاں منا رہے ہیں۔نیتن یاہو اب اپنی حکومت نہیں بچا سکتے۔ جلد اس کے حکومت بھی ختم ہوجائے گا۔
دنیا کی یہ واحد اور منفردجنگ ہے، کس طرح اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کوکئی عشروں سے غزہ کی پٹی میں قید کیاہوا تھا ۔ باہر کی دنیا سے کوئی چیز ان تک پہنچنے نہیں دی جاتی تھی۔غزہ کے قید بستی کے مظلوموں کی امداد کے لیے ایک دفعہ ترکی کے اردوان نے ایک بحری جہاز میں انسانی ہمدردری کے تحت ضرورت کی اشیا ءپہنچانے کی کوشش کی تو اسرائیل فوج نے بین الاقوامی سمندر میں اس جہاز پر حملہ کیا۔ جہاز کے کئی امدادی کارکنوں جن میں انٹر نیشنل برادری کے صحافی بھی شامل تھے، فوجی کارروائی کر کے شہیدکیا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لائی گئی امداد کو غزہ تک نہیں پہنچنے دیا۔
ظلم کی انتہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کی زمین پر رہنے ، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت سفاک یہود نے نہیں دی ہوئی تھی ۔ بہادر فلسطینیوں نے پھر زیر زمیں سرنگوں کاو ہ جال بچھایا۔ جسے جدید دنیا دیکھ کر دنگ ہو گئی۔ان ہی سرنگوں میں اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کیں۔ ان کے اندر ایسے جدید یاسین۔ 5 میزائل تیار کئے، جو دنیا کے میزائلوں سے سو گناسستے اور کارکردگی میں سو گنا زیادہ ہیں۔ یہ وہی یاسین۔5 میزائل ہیںجن کی مار کی وجہ سے غزہ کی گلیوں میں جگہ جگہ اسرائیل کے جلے اور تباہ شدہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے مرکاوا ٹینک اور فوجی گاڑیاں اسرائیل کی شکست کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔ ان جلے ہوئے تباہ شدہ ٹینکوں کی باقیات پر غزہ کی خواتین کپڑے سکھانے کے لیے ڈالتی نظر آئی۔ جنگ بندی کے بعد ان تباہ مرکاوانکوں پر غزہ کے مظلوم فتح کی خوشیاںمناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
472 دنوں تک مسلسل دن رات غزہ کے مظلوم شہریوں پر اسرائیل بمباری جاری رہی۔ غزہ کی اسی فی صد رہائشی عمارتیں ملبے کاڈھیربنا دی گئیں۔ سکولوں ہسپتالوں کو بمباری کر کے ملبے میں بدل دیا۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق نوے لاکھ ٹن بارود برسایا گیا۔ جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ غزہ کے ملبے کو اُٹھانے کے سو ٹرک بیس سال میں اس ملبے کو ٹھکانے لگا پائیں گے، اس میں اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیل فوج غزہ سے نامراد ہو کر نکل گئی۔ جنگ بندی کے بعدفلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربکف مجاہدین نے جب غزہ کی سڑکوں پر پریڈ کی تو غزہ کے مرد، خواتین، بچے بوڑھے ان کے استقبال کے لیے غول کے غول باہر نکل آئے۔ دشمن نے دیکھا یہ تو پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور اور با ہمت ہیں۔ غزہ کے لوگ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ فتح کی خوشی سے اللہ کے سامنے سجدے کر رہے ہیں۔ مرکزی سڑکوں پر فلسطین کے جھنڈے لہرا دیئے گئے ہیں۔ غزہ میں پھرسے زندگی لوٹ آئی ہے۔ معاہدے کے مطابق چھ سو امدادی ٹرک شمالی غزہ کے لیے رفح کراسنگ سے داخل ہوئے ہیں۔ یہ سپلائی روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔ غزہ کے تین انٹری پوئنٹ سے ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ میں داخل ہو نگے۔
پنجابی کی کہاوت سنتے رہے ہیں ” ڈریے رب قادر کولوں جیہڑا چڑیاں توں باز مراندہ ہے“ طوفا ن اقصٰی کیا ہے۔ مومن کی ایک یلغار ہے۔ آئیں اس پر بات کریں۔1948 ءسے باہرسے فلسطین پر آکر دہشت گرد یہودیوں نے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا۔ ڈھائی ہزار سال سے آباد فلسطینیوں کو کہا کہ فلسطین تمھارا نہیں یہ تویہودیوں کاہے۔ جبکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہود آٹھ سو سال سے زیادہ فلسطین میں کبھی نہیں رہے۔ فلسطینی اُسی دن سے قابض یہودیوں سے فلسطین آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔شہید یحییٰ السنوار جس کو اسرائیل نے عمر قید کیا ہوا تھا۔ ایک یہودی یرغمالی کے بدلے رہائی پائی تھی۔ یحییٰ السنوار نے ایک پلاننگ سے جنگی منصوبہ بنایا۔حماس کے مجاہدین کہر بن کر ہوائی، بحری، بری راستوں سے ساری رکاوٹیں توڑ کر اسرائیل کے اندر داخل ہوئے۔ اسرائیل ناقابل شکست ہونے کا تکبر زمیں بوس کر دیا۔ اس کا ڈوم سکیورٹی نظام دھرے کادھرا رہ گیا۔ اسرائیل کے ڈھائی سو کے قریب نوجی اور سویلین کو یرغمال بنا کر غزہ کی سرنگوں میں قید کر لیا۔ اور کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے قید فلسطینی مرد و خواتین کو جب تک اسرائیل رہا نہ کرے ، ان یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل، امریکا، مغرب اور بھارت سب مل کر 472 دن مسلسل بمباری اور جدید خفیہ ذرائع استعمال کرنے کے باوجود حماس سے یرغمالی رہا نہ کرا سکے۔ پھر اللہ نے اپنی تدبیر اور مظلوموں کو فتح نصیب کرانے کے لیے دشمن کو دشمن سے ہی شکست کاسامان کیا۔ وہی ٹرمپ جو حماس کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیتا تھا کہ یرغمالی چھوڑ دو ورنہ غزہ پر قیامت ڈھا دوں گا۔ مجبورہو گیا اور وحشی بنجمن نیتن یاہو وزیر اعظم اسرائیل کو غزہ کی جنگ کو 20 جنوری اقتدار سنبھالنے سے پہلے جنگ بند کرنے پر مجبور کیا۔آج غزہ آزاد ہے۔ اگر دشمن نے مکر کیا ۔ جنگ بندی معاہدہ توڑا۔ تو پھر حماس نے تل ابیب فتح کر کے اس پر فلسطینی جھنڈے لہرانے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت حماس نہیںروک سکے گی۔ ان شاءاللہ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے مظلوم کے مطابق اللہ نے رہے ہیں غزہ کے غزہ کی کے لیے

پڑھیں:

تنازعہ فلسطین اور امریکا

اقوام عالم غزہ میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ رہی ہے اور جنگ بند کرانے کے لیے کہیں سنجیدہ کارروائی نظر نہیں آ رہی حالانکہ 20روز پہلے کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط مان لی ہیں جب کہ حماس نے بھی کہا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ ’’حتمی‘‘ جنگ بندی تجویزکا جائزہ لے رہی ہے۔

برطانوی اخبار دی ٹائمز نے بھی بتایا تھا کہ قطری ثالثوں نے دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے ذاتی ہتھیار حوالے کردیں۔لیکن یہ سب کچھ عملی صورت اختیار نہ کر سکا۔اب غزہ کی زمینی صورتِ حال بدستور خون ریزی میں ڈوبی رہی۔اسرائیل غزہ میںمسلسل وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے ‘اسرائیل ٹارگٹڈ کارروائیاں کر کے غزہ میں فلسطینیوں کے گھر تباہ کر رہا ہے ‘غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ‘صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے لیے غذائی قلت سنگین ہونے لگی ہے۔

کئی گھرانے فاقے سے دوچار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اگلے روز بھوک سے مزید 10فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ اب تک غذائی قلت سے اموات کی تعداد سو سے زیادہ ہو گئی جن میں80 بچے شامل ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک6ہزار کے قریب فلسطینی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔میڈیا کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ کی پٹی پر مسلسل اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں‘ان حملوں سے 17فلسطینی شہری مارے گئے ہیں جب کہ مرنے والوں میں چار بچوں اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے۔شہداء میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں۔

غزہ کی یہ صورت حال ہے۔ غزہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جب تک غزہ سے تمام فلسطینی انخلا پر تیار نہیں ہوں گے‘اسرائیل کی فوجی کارروائی جاری رہے گی جب کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ بھی اس سلسلے میں مصلحت کوشی اختیار کرتے ہوئے چپ رہے گی کیونکہ صدر ٹرمپ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ کوفلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرانے کے حق میں ہیں اور اگر فلسطینی اس پر تیار ہو جائیں تو انھیں کسی متبادل جگہ پرآباد کرایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام فلسطینیوں کو پورا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر کے دیا جائے گا اور انھیں گھر بھی بنا کر دیے جائیں گے لیکن فلسطینی کسی بھی صورت میں غزہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ادھر 115 عالمی امدادی اداروں نے ایک دستخط شدہ انتباہی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امداد کے مکمل محاصرے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔غزہ میں موجود گوداموں میں کئی ٹن خوراک، پانی اور ادویات موجود ہیں لیکن امدادی اداروں کی ان تک رسائی کو روکا گیا ہے۔مکمل سیز فائر ،امداد کے لیے تمام زمینی راستوں کو فوری کھولا جائے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے منتظر شہریوں کا قتل ناقابلِ جواز ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مسلم ممالک اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی روکنے کی کوشش کریں۔

ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی صدر قتل عام روکنے، بنا رکاوٹ امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کرائے۔اسلامی ممالک اسرائیلی مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے یا گھونٹ پانی کے لیے فلسطینیوں کا مرنا ناقابلِ قبول ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہاں قحط ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے اور بدترین غذائی قلت کے سبب لوگ مر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی ایوین جیل پر اسرائیلی حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

اقوام عالم کی لیڈر شپ اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام مسلسل غزہ کے لیے ہمدردانہ بیانات دے رہے ہیں ‘لیکن یہ بیانات محض بیانات ہی ہیں کیونکہ اسرائیل پر ان بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس قسم کے ہمدردانہ بیانات تو امریکا کے صدر بھی دیتے رہتے ہیں لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عملی کام کیا جائے لیکن عملی کام کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔

روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور ان کے پاس ویٹو پاور بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دو ممالک نے بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر محض سفارتی حد تک ہی فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کیاگیا ۔

پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کے لیے کلید رہیں گے۔

سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کے حوالے سے استقبالیہ تقریب میں اسحاق ڈار نے کہا عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔

سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر اپنی زیرصدارت مباحثے میں اسحاق ڈار نے کہا مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔ غزہ میں انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے، ہر طرف بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، پاکستان مسئلہ فلسطین کے لیے اصولی موقف، یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کو فوری ممکن بنایا جائے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے چارٹر کے اعتبار سے بہت مضبوط ادارہ ہے۔ اس ادارے نے دنیا میں کئی اہم ممالک کے بارے میں متفقہ فیصلے کیے ہیں ‘کئی ملکوں کو آزادی بھی ملی ہے جس میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ان میں انڈونیشیا سے آزاد ہونے والے ملک مشرقی تیمور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مشرقی تیمور کو آزادی ملی ہے ۔اسی طرح جنوبی سوڈان کو بھی ایک آزاد ملک کا درجہ ملا ہے لیکن فلسطینیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا کردار زیادہ اہم نہیں رہا ہے۔

اس حوالے سے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ہر فورم میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے معاملات میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ تنازع کشمیر بھی ایسے ہی تنازعوں میں شامل ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھی امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کا طرز عمل یکطرفہ چلا آ رہا ہے اور سب نے بھارت کی حمایت کی ہے۔

اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام کی دہری اور امتیازی پالیسیوں کے باعث فلسطین میں مسلسل خونریزی جاری ہے حالانکہ اگر امریکا اور مغربی یورپ چاہیں تو فلسطین کا تنازع حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسرائیل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کو دبا کر رکھے یا وہ اکیلا عرب ملکوں پر بھاری ہو سکے۔

اسرائیل دراصل امریکا کا ہی دوسرا نام ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کا تنازعہ حل کرائیں گے۔ لیکن وہ صدر بننے کے بعد تاحال اس تنازعے کو حل نہیں کرا سکے۔ امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے، وہ مشرق وسطی میں مستقل قیام امن کے لیے ایک بیلنس پالیسی اختیار کرے تاکہ جس کا جو حق ہے وہ مل سکے۔

اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اصولی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پالیسی امریکا کے طویل المیعاد مفادات کے حق میں ہے۔ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کرائی جائے اور اس تنازعہ کا مستقل حل نکالا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • یہ کوئی نرسری نہیں، یہ رنگوں اور خوشبوؤں کی ایک دنیا ہے
  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق، دنیا کو بتائیں والد کو کرپشن پر سزا ہوئی: عطا تارڑ
  • تنازعہ فلسطین اور امریکا
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ