کراچی کی وفاقی اردو یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین نے پنشن اور واجبات کی عدم ادائیگی پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

جامعہ اردو کے اساتذہ و ملازمین نے آج بروز منگل کو کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرے میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ 

مظاہرین کے بینرز اور پلے کارڈز پر پنشن کی ادائیگی اور ٹریزرار دانش احسان کو عہدے سے ہٹانے کے نعرے درج تھے۔ 

بیوروکریٹس کی وی سی تعیناتی, انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کا احتجاجی مظاہرہ

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) کے احکامات پر پیر کو انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ایک بینر پر درج تھا کہ جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری 7 اساتذہ اور ملازمین کی موت کے ذمے دار ہیں کیونکہ یہ سب پنشن کی عدم ادائیگی کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

کنوینر ریٹائرڈ ملازمین کمیٹی ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ ملازمین کئی ماہ سے پنشن سے محروم ہیں، ہمارے کئی ساتھی بر وقت علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے کے سبب انتقال کر گئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب ہم گورنر ہاؤس کی جانب احتجاجی مارچ کر رہے ہیں جہاں اردو یونیورسٹی کا جلسۂ تقسیم اسناد ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

سرکاری جامعات کا تعلیمی،انتظامی اور مالیاتی بحران

سرکاری یونیورسٹیاں تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ سابق حکومت کے دور سے شروع ہونے والا بحران تاحال ختم جاری ہے۔ جب سے موجودہ وفاقی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، وہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔حکومت نے مختلف وزارتوں کی تنظیمِ نو کر کے کئی ہزار آسامیاں ختم کی ہیں مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ اور افسران کے اخراجات میں کمی نظر نہیں آرہی ۔ روزنامہ ایکسپریس کی 27 مئی کی رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ ای سی نے سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ز اور رکیٹرزکو جون کے آخری ہفتے میں رباط (مراکش) میں ہونے والی کانفرنس میں بھجوانے کے لیے خطوط جاری کیے ہیں۔

سرکلر میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلرز اپنی یونیورسٹی کے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے کانفرنس میں شرکت کریں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت وفاق کے زیرِ انتظام یونیورسٹیوں کو فنڈز دیتی ہے۔ حکومت سندھ ہر سال کئی بلین کی گرانٹ سندھ کی یونیورسٹیز کو دیتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب سندھ کی کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کسی غیر ملکی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہو تو وہ حکومت سندھ کو اطلاع دیتے ہیں۔

صوبائی حکومت کے بورڈز اور یونیورسٹیز کے محکمہ کے سیکریٹری ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وائس چانسلرکو کسی غیر ملک میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے این او سی جاری کرتے ہیں۔ این او سی میں یہ بات واضح طور پر تحریرکی جاتی ہے کہ دورہ کے اخراجات کے لیے حکومت سندھ یا متعلقہ یونیورسٹی کے فنڈز استعمال نہیں ہوںگے۔

حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقائق سامنے آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور سے وفاقی بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے مختص رقوم میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی جاری رہا اور اب موجودہ حکومت کے دور میں فنڈز میں 40 فیصد تک کمی کردی گئی ہے۔ اس وقت ملک کی بیشتر یونیورسٹیاں شدید انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ وفاق کے زیرِ نگرانی قائم یونیورسٹیوں کے حالات کار بہت زیادہ خراب ہیں۔

صرف ایک وفاقی اردو یونیورسٹی کے بحران کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی ایک خصوصی قانون کے ذریعے قائم ہوئی۔ یہ قانون ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن امریکا سے لائے تھے۔ اس نئے قانون کی بناء پر یونیورسٹی مسلسل مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ اس قانون میں ایسی شقیں بھی شامل ہیں جن پر پاکستان کے مخصوص حالات کے مدنظر عملدرآمد ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب تک 2 درجن کے قریب وائس چانسلر یونیورسٹی میں آئے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی رخصت کردیے گئے۔

ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو یونیورسٹی کے پاس 67 کروڑ روپے سے زیادہ رقم پنشن ڈپازٹ میں موجود ہے جس کے سالانہ منافع کا اندازہ لگایا جائے تو یہ کروڑوں میں ہوگا مگر 2017سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور عمال جن کی مکمل تعداد سو سے زیادہ ہے کو واجبات نہیں ملے۔

اساتذہ اور عمال کے کل واجبات 20 کروڑ کے قریب ہیں۔ اساتذہ نے یونیورسٹی کے مختلف بینکوں میں موجود ڈپازٹ کے بارے میں معلوم کیا تو انتظامیہ نے اس رقم کی موجودگی سے انکارکیا مگر جب اساتذہ نے وفاقی محتسب کی عدالت میں یہ مدعا رکھا اور وفاق کے انفارمیشن کمیشن کی مدد حاصل کی تو انکشاف ہوا کہ 67 کروڑ روپے سے زائد مختلف بینکوں میں موجود ہیں مگر اس رقم کو پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

ریٹائرڈ اساتذہ کو پانچ ماہ سے پنشن نہیں ملی۔ یونیورسٹی کے اساتذہ و عمال کی 3ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی ، گزشتہ 11 ماہ سے رینٹل سیلنگ ادا نہیں کی جاسکی۔ طبی سہولتیں مکمل طور پر بند ہیں۔ اس پورے سال میں 9 ریٹائرڈ اساتذہ انتقال کرچکے ہیں اور غیر تدریسی عملہ کے 5افراد کا انتقال ہوچکا ہے۔ معاملہ صرف تنخواہوں اور پنشن کی عدم ادائیگی کا نہیں ہے بلکہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی کئی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کی نہیں ہے بلکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی بھی مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔

یہ معاملہ وفاق کی یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ سال میں کئی دفعہ اساتذہ اور عمال کو تنخواہوں اور ریٹائرڈ اساتذہ اور عمال کو پنشن ادا نہیں کر پاتی۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں کا مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر ریاض شیخ نے لکھا ہے کہ ایچ ای سی ہر کچھ عرصے بعد نئی ہدایات جاری کرتا رہتا ہے اور تازہ ترین ہدایت یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کسی کانفرنس کے انعقاد سے قبل اس کے موضوع کے لیے انتظامیہ سے منظور کرائیں گے اور صرف منظور شدہ موضوعات پر ہی کانفرنس و سیمینارکرانے کی اجازت ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایچ ای سی نے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے سوشل سائنسزکے پروگرامز میں مزید مذہبی مضامین شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے کی نتیجے میں سماجی علوم میں تحقیق کا دائرہ مزید محدود ہوجائے گا ۔

 منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر ڈاکٹر احسن اقبال نے گزشتہ سال ایچ ای سی کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا بڑا ادارہ ایچ ای سی کی قیادت جدید تقاضوں کے وژن سے محروم ہے اور ایچ ای سی کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد ضایع ہوگئی ہے۔

حالیہ دنوں میں ایچ ای سی کے اعلیٰ افسران کے آپس جھگڑوں اور ایک افسرکو برطرف کرنے کی خبریں ذرایع ابلاغ پر نشر ہوئیں۔ بہرحال سرکاری یونیورسٹیوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا جائے جو ایچ ای سی کے معاملات کی تحقیقات کرے۔ اسی طرح بے جا اخراجات کے ذمے دار افسروں کا احتساب بھی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تنخواہوں میں 50 ، پنشن میں 100 فیصد اضافہ؟ملازمین کیلئے اہم خبر آ گئی
  • گلگت: اساتذہ کا احتجاجی دھرنا 12ویں روز بھی جاری
  • بجٹ:سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کتنے فیصد اضافے کا امکان ہے؟
  • (ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی ) گورنر ہاؤس، سٹی ناظم و دیگر بااثر افراد کو 5ہزار پلاٹ الاٹ
  • جامعہ کراچی: ڈاکٹر سعدیہ گرلز ہاسٹل پرووسٹ مقرر
  • گلگت بلتستان کے تمام اساتذہ کی سکروٹنی اور سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا حکم
  • سرکاری جامعات کا تعلیمی،انتظامی اور مالیاتی بحران
  • بانی نے کہا اب احتجاجی تحریک کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، بیرسٹر گوہر
  • ادب و موسیقی کی شام: ریڈیئنس ایونٹس نے عجمان میں "ابھی کچھ لوگ باقی ہیں" کا شاندار انعقاد کیا
  • کپواڑہ میں قابض انتظامیہ کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ