کچھ دن پہلے ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی حیرت انگیز کارکردگی کا ذکر ہو رہا تھا۔ احباب کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ ان کے ویوز کئی ملین ہوتے ہیں۔ اس خبر نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ایک نوجوان کا کنٹنٹ کم از کم ایسا ہے کہ کئی ملین لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہمارے آس پاس کے سارے لوگ بڑے مصروف ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر بزرگوں کی بات سننا تو دور کی بات ہے یہاں بڑے بڑے دانشوروں اور فنکاروں کو اپنے پروگرامز میں اتنے لوگ نہیں ملتے۔ اس لحاظ سے یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ضرور ہیں جو عوام و خواص کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پسندیدگی کی سند بھی حاصل کرتے ہیں۔
میں نے تجسس ختم کرنے کے لیے ان سے خواہش کا اظہار کہ مجھے بھی یہ اعلیٰ مواد دکھایا جائے کیا تا کہ ایسے کمالات ِ فکر و فن کا بذات خود مشاہدہ کر سکوں جو جدید دور کے لاکھوں افراد میں پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔ جواب میں میرے سامنے کچھ ریلز رکھی گئیں۔ ریل کا احوال کچھ یوں تھا۔ ایک ریل میں دو لڑکیاں سلو موشن میں چلتی آ رہی ہیں اور اچانک ماتھے پر ہاتھ رکھ کر رک جاتی ہیں۔ ریل کا بیگراؤنڈ میوزک اسی پوز پر رکتا ہے اور ریل ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے گمان گزرا کہ مرزا غالب کے سہلِ ممتنع کی طرح اس ریل میں بھی بڑی حکمت آفرین بات بڑی سہولت سے کہہ دی گئی ہو گی اور ہم جیسے سادہ لوح ان رموز سے واقفیت نہ ہونے کے باعث کھوج نہیں پاتے ۔
میں نے کئی ملین ویوز رکھنے والی ایک اور ریل دیکھنا شروع کی۔ دو لڑکیاں مسکراتی ہوئی ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں، میوزک آن ہوتا ہے پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔.
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات پر ہمارے ہاں بہت بحث کی جاتی ہے ہم اس کے معیاری اور ضروری استعمال کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیائی فنکاروں سے کوئی ہم رنجش نہیں رکھتے بلکہ سستی شہرت کے حربوں اور سطحی یا گھٹیا قسم کے کنٹنٹ کی پیداوار اور اس پر وقت گزاری کے خلاف ضرور ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال تو ایک جانب ہے اور اس کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے کئی سروے کیے گئے اور تحقیق بھی کی گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق 2022 کے آغاز میں پاکستان میں فعال سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق، 90.8% شرکا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، جن میں سے 74% واٹس ایپ، 22.8% فیس بک اور 3.2% انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں۔ بعض تحقیقات مختلف اعدادو شمار
بھی پیش کرتی ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا کے استعمال کی نوعیت پر بات نہیں کی گئی۔ زیادہ تر افراد کی توجہ انٹرنیٹ کی طرف ہے اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر سستا اور سطحی مواد سامنے آ رہا ہے۔ مسخرے ہیرو بن رہے ہیں اور مسخرہ پن نوجوانوں کے وقت کا بڑا حصہ کھا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا کی آزادی کے بعد تخلیقی رجحانات دیکھنے میں آتے، ہر شعبے خصوصاً ادب، شاعری، ڈرامہ، ڈاکومینٹری، تجزیے، تبصرے، تنقید اور تفریح کے جدید اور معیاری کام سامنے آتے۔ سوشل میڈیا نہایت با صلاحیت لوگوں کو آگے لانے کا سبب بنا اور معاشرے کا تخلیقی معیار اور بلند ہوتا جاتا۔ لیکن موجود صورت ذوق کی گراوٹ ہے ساتھ ساتھ عوام میں تخلیقی صلاحیتوں کی کمی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اب ایک اور المیہ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی تیزی سے ترسیل کے ساتھ غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 70% افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور اس کے معیاری استعمال کی توجہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور اس کے معیاری استعمال کی توجہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان میں کا استعمال سوشل میڈیا استعمال کی کرتے ہیں اور اس کے لیے کے پاس
پڑھیں:
ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے میں یہ ٹارگٹ حاصل کیا، بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا،وزیراعلیٰ
24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے،گفتگو
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی۔راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا۔انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا، اور کہا تھا سب کو آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا، 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کر کے واپس لوٹا تھا۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کر کے گولیاں چلائیں۔دریں اثنا وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا سوشل میڈیا پر لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، سوشل میڈیا نے الیکشن میں ہمیں بالکل سپورٹ کیا، مجھے لوگوں نے ووٹ سوشل میڈیا پر نہیں پولنگ بوتھ پر جا کر دیٔے انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا کردار ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوشل میڈیا نے ہی سب کچھ کیا ہے، بغیر تحقیق کے الزامات لگانا ہماری اخلاقیات کی گراوٹ ہے، جب بانی پی ٹی آئی نے فائنل مارچ کی کال دی تو لوگ کیوں نہ آئے؟ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وی لاگ اور جعلی اکاونٹ بنانے سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی جاتی، ان ڈراموں کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہو رہے، گھوڑے ایسے نہیں دوڑائے جاتے ایسے دوڑائے جاتے ہیں۔اس موقع پر علی امین گنڈاپور نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کو ٹیڑھا کر کے گھوڑے دوڑانے کی ترکیب بتائی۔ انکے گھوڑے دوڑانے کے اسٹائل پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے قہقہ لگایا۔ انقلاب گھر بیٹھ کر انگلیاں چلانے سے نہیں آتے۔انھوں نے کہا پارٹی کے اندر ایک تناو ہے، گروپ بندیاں چل رہی ہیں، یہ گروپ بندیاں کس نے کی، میں نے نہیں بنائیں، میری گزارش ہے گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں، کوئی ایک شخص آکر بتائے میں نے کوئی گروپ بندی کی ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کمزور پوزیشن میں مذاکرات ہوتے ہیں نہ کہ جنگ ہوتی ہے، ہمیں کمزور کر کے گروپوں میں بانٹا جا رہا ہے، جلسہ ہے پشاور آئیں کوئی رکاوٹ نہیں، یہ ایسا نہیں کرینگے بس علی امین پر الزامات لگائیں گے۔انھوں نے کہا 5 اور 14 اگست کو کتنے لوگ نکلے؟ صرف باتیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک کر نے سے انقلاب نہیں آتے، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک سے انقلاب آتے ہوتے تو بانی پی ٹی آئی جیل میں نہ ہوتے۔