جنت میں جانے کی شرط اور غامدی خیالات
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
آج کل ایک بات تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی نہیں جائیں گے بلکہ ہر وہ شخص جس کا تعلق کسی بھی مذہب فرقے یا گروہ سے ہو اپنے اچھے کاموں کی بنا پر جنت کا حقدار ٹھیرے گا۔ جس کے لیے قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔ کیا نجات کے لیے مسلمان ہونا لازمی ہے؟ کیا جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ایک آیت کا ترجمہ و تشریح: ’’(یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے) مسلمان ہوں یا یہودی، صابی ہوں یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا‘‘۔ (ترجمہ: تفہیم القران)
’’سلسلۂ عبارت کو پیش ِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصْود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ یہاں تو یہْودیوں کے اِس زعمِ باطل کی تردید مقصْود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دْوسرے انسانوں سے نہیں ہے، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دْور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے، وہ ایمان اور عمل ِ صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے ربّ سے اپنا اجر پائے گا۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسٹروں پر‘‘۔ (تفہیم القران: ۔ سْورَۃْ البَقَرَۃ حاشیہ نمبر: 80)
درج بالا مضمون میں جو کچھ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس کا تمام مفسرین نے الفاظ کے کچھ ردو بدل سے ایک جیسا ہی ترجمہ کیا ہے جو قرآن کہتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ لوگوں نے جاوید احمد غامدی کو مفسرین کی فہرست میں شامل کردیا سب جانتے ہیں کہ غامدی کو امریکی برانڈڈ اسلام کا پرچار کرنے کے لیے پاکستان بھیجا گیا ہے۔ جس پر مختلف حلقہ حل و عقد اپنی تشویش کا متعدد بار اظہار بھی کر چکے ہیں۔ دیگر تفاسیر میں جو تفصیلات موجود ہیں وہ لگ بھگ ایک ہی ہیں۔ غامدی صاحب نے جہاں الفاظ کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے وہیں ایک مسلمان کی اور ایک کافر کی تفصیل بھی بیان کردیتے تو مدعا کھل کر بیان کیا جا سکتا تھا۔ ان کا یہ جملہ خاصہ معنی خیز بلکہ قابل گرفت بھی ہے کہ ’’محض پیغمبروں پر ایمان لانے سے وہ کسی خاص گروہ میں شامل ہونے سے جنت کا مستحق نہیں ہوجاتا۔ اصل قابل گرفت بات یہ ہے ’’محض پیغمبروں کو مان لینے سے‘‘ یعنی پیغمبروں پر ایمان لانا غامدی صاحب کے نزدیک ایک واجبی سی ضرورت ہے جس کے بغیر بھی ایک انسان اپنے اچھے اعمال کی بنا پر جنت میں جا سکتا ہے، جو پیغمبر ہی کو نہ مانے وہ اللہ کو اپنا ربّ کیسے مانے گا۔ یہودیوں کے زعم باطل کی جو بات کہی ہے وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے سورہ جمعہ میں اسی مضمون کو اس مفہوم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ: اے گروہ یہود اگر تم کو اللہ کا مقرب ہونے کا اتنا ہی زعم ہے تو خدا سے ملاقات کے لیے موت کی تمنا بھی کرو، یقین جانو یہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرتے رہے ہیں‘‘۔
پیغمبروں پر ایمان لانا مسلم ہونے کے لیے بنیادی ایمانی شرائط میں سے ہے اور ایمان مفصل میں جن چیزوں پر ایمان لانا ہے پیغمبروں پر بھی ایمان لانا ہے۔ اس کے ساتھ پچھلی انبیا کی امتوں پر آگے آنے والے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جیسے ابراہیم ؑ پر ایمان لانے والے پر لازم تھا کہ وہ اسماعیل ؑ پر ایمان لائے اسماعیل ؑ پر ایمان لانے والے پر لازم تھا کہ اسحاقؑ پر پھر یعقوبؑ پر پھر یوسف ؑ پر ایمان لائے۔ جیسے یہودی اگر صرف اسحاقؑ پر ایمان لائیں اور بعد کے پیغمبروں کو جھٹلائیں اور پیغمبروں کو قتل کریں تو وہ کیسے خدا کے مقرب اور چہیتے ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ سیدنا موسیٰؑ کو نبی پیغمبر اور رسول ماننے کے باوجود سرزمین فلسطین میں جنگ کی غرض سے صرف اس بنا پر داخل نہ ہوں کہ وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں، اے موسیٰؑ تم جاؤ اور تمہارا خدا جائے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ قدم قدم پر اللہ کے حکم سے سرتابی کرنے والے یہودی جن کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ آخر میں انہی یہودیوں نے نبی کریمؐ کے ساتھ معاہدے کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ مدینے پر حملہ کرنے کی سازش بھی کی۔
مدعا یہ کھل کر سامنے آیا کہ گزشتہ امت کے صرف وہ اہل ایمان جنت کے مستحق ٹھیریں گے جو وہ اپنے نبی، رسول یا پیغمبر کی دی ہوئی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا رہے اب ظاہر ہے نبی کی تعلیمات میں اللہ کی عبادت کے ساتھ حسن سلوک، نیک اعمال سب ہی شامل ہوں گے وہ چاہے یہود کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں چاہے سیدنا عیسیٰؑ کے ماننے والوں میں شامل ہوں۔ جبکہ توریت انجیل اور زبور میں نبی مہربان محمدؐ کی آمد کی بشارت دی گئی مگر یہودیوں اور عیسائیوں کی قلیل تعداد ہی نبی کریمؐ پر ایمان لائی باقی سب نے ماننے سے انکار کردیا یعنی ایک نبی کے انکار نے انہیں کافر بنا دیا۔ قرآن کریم کی واضح آیت موجود ہے کہ کافر کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی ناممکن ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اب چاہے یہ یہود و نصاریٰ دنیا میں کتنے بھی اچھے اچھے کام کرتے رہیں ان کا اجر ان کو بس اسی دنیا میں مل جائے گا اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ان یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی کو قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ: ’’تم اہل ایمان، یہود و نصاریٰ کو اپنی دشمنی میں سب سے آگے پاؤگے‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ جنت میں جانے کے لیے اچھے اعمال کے ساتھ پیغمبروں پر غیر متزلزل ایمان لانا بنیادی شرط ہے اور آخر میں اللہ ربّ العزت نے اتمام حجت فرماتے ہوئے یہ بھی وضاحت کر دی کہ سیدنا محمدؐ کو خاتم النبیین بھی تسلیم کرنا ہوگا، وگرنہ اس اقرار کے بغیر تم بدستور کافر ہی ٹھیرائے جاؤگے۔ جسے غامدی صاحب نے ’’محض پیغمبروں کو ماننا‘‘ کے الفاظ سے اس شرط کو ساقط کرنے کی کوشش کی ہے۔
سورہ النباء کی آخری آیت میں فرمایا گیا کہ جب کافر دوزخ کا عذاب دیکھے گا تو کہے گا، کاش میں مٹی ہوتا۔ اسی مفہوم کے تحت ایک جگہ فرمایا گیا ہے کافر چاہے گا کہ کسی طرح عذاب جہنم سے بچ جاؤں، اس سے کہ زمین کے برابر بھی سونا دے گا بلکہ اتنا ہی اور دے دے تب بھی دوزخ کی آگ سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ یہ باتیں مسلمان کے لیے نہیں کہی گئی۔
فارمولا یہ طے پایا کہ ایمان مفصل پر ایمان رکھنے والے ہی جنت میں جائیں گے اور ایسا گروہ روئے زمین پر صرف مسلمانوں کا ہی گروہ ہے کیونکہ مسلمان اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہر چیز پر ایمان رکھتے ہی۔ جیسے اللہ پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، روز قیامت پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ مسلمان اگر دوزخ میں گیا بھی تو اتنی ہی سزا پائے گا جتنے اس نے گناہ کیے ہوں گے اور اگر جنت میں گیا تو وہاں ہمیشہ رہے گا یہ نہیں ہوگا کہ جتنے نیک اعمال کیے تھے بس اتنے ہی عرصے کے لیے جنت میں رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پر ایمان لانا پیغمبروں کو پیغمبروں پر کے ساتھ نے والے گروہ سے کے گروہ کے لیے
پڑھیں:
گریٹا تھنبرگ کی امن مشن کشتی،غزہ جانے والی امداد کو روکنے کا حکم، اسرائیلی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ (Israel Katz) نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی امدادی کشتی میڈلین کو غزہ پہنچنے سے قبل روک دے، یہ کشتی اسرائیلی ناکہ بندی توڑ کر غزہ کے مظلوم شہریوں تک امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میڈلین کشتی اس وقت مصر کے ساحل کے قریب موجود ہے اور غزہ کی جانب بڑھ رہی ہے، کشتی میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 12 افراد سوار ہیں، امدادی مشن کا آغاز 6 جون کو اطالوی جزیرے سسلی سے کیا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہود مخالف گریٹا اور اس کے حماس نواز ساتھیوں کو میں صاف پیغام دیتا ہوں کہ واپس لوٹ جاؤ، تمہیں غزہ تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا،فوج اس کشتی کو زبردستی روک کر اسرائیل کے بندرگاہی شہر اسدود منتقل کرے گی، جہاں عملے کو گرفتار اور بعد ازاں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
دوسری جانب گریٹا تھنبرگ نے کشتی پر سے پیغام دیا کہ وہ اسرائیلی ناکہ بندی، غزہ میں جاری جنگی جرائم اور انسانی بحران کے خلاف آواز بلند کرنے آئی ہیں، کشتی علامتی طور پر کچھ ضروری امدادی سامان جیسے چاول اور بچوں کا دودھ لے جا رہی ہے، تاکہ دنیا کو اس انسانی المیے کی شدت کا احساس دلایا جا سکے۔
فریڈم فلوٹیلا کی ترجمان کے مطابق کشتی اس وقت غزہ سے 160 ناٹیکل میل (تقریباً 296 کلومیٹر) دور ہے اور عملہ کسی بھی ممکنہ اسرائیلی حملے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے امدادی مشن کو روکا ہو۔ 2010 میں اسرائیلی کمانڈوز نے ترک بحری جہاز ماوی مرمرا پر حملہ کرکے 10 کارکنوں کو شہید کر دیا تھا جو غزہ کے لیے امداد لے جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 36 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 80 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات دنیا بھر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔