نیب کے اعلیٰ افسر کی اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس سے لاش برآمد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایک اعلیٰ افسر کی اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس سے لاش برآمد ہوئی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس فور میں واقع گیسٹ ہاؤس سے نیب کے افسر کی لاش برآمد ہوئی ہے، جن کا نام وقاص احمد خان تھا اور وہ گریڈ 19 میں تھے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ وقاص احمد کی موت کے حوالے سے ابھی کچھ معلوم نہیں، ان کا کمرہ اندر سے لاک تھا، جبکہ جسم پر تشدد کا بھی کوئی نشان موجود نہیں۔
مرنے والے نیب افسر وقاص احمد لاش کو اسلام آباد کے پولی کلینک اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ اور مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والے نیب افسر وقاص احمد خان کا تعلق لاہور سے تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسلام اباد پولیس تحقیقات گیسٹ ہاؤس لاش برآمد نیب افسر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد پولیس تحقیقات گیسٹ ہاؤس لاش برا مد نیب افسر وی نیوز اسلام ا باد کے لاش برا مد گیسٹ ہاؤس
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔