Express News:
2025-11-05@02:13:22 GMT

را کے وسطی ایشیا میں سرگرم ایجنٹ ٹی ٹی پی کے بینک رولر

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

لاہور:

مغربی میڈیا نے انکشاف کیاہے کہ گینگسٹر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے وسطی ایشیا میں سرگرم ایجنٹ پاکستان دشمن تنظیم ٹی ٹی پی کے بینک رولر بن گئے۔

’’را‘‘ کے دیے ڈالروں سے ہی ٹی ٹی پی نے افغان صوبوں، کنر، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے عسکری تربیتی کیمپ کھول لیے جہاں تنخواہ دار ریکروٹوں کو جنگی تربیت دیکر اہل پاکستان پر حملہ کرنے بھیجا جاتا ہے۔

مغربی ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی امیر’’ را‘‘ سے ماہانہ 45 ہزار ڈالر تنخواہ لے رہا۔افغان طالبان کے پاس تو اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کو پیسہ نہیں، وہ ٹی ٹی پی کی مالی مدد خاک کریں گے۔

ٹی ٹی پی امریکہ کے چھوڑے اسلحے کی بھاری مقدار پر بھی قبضہ کر چکی۔امریکی محکمہ دفاع کی رو سے امریکی فوج جاتے ہوئے ’’7 ارب ڈالر‘‘مالیت کا اسلحہ افغانستان چھوڑ کر گئی تھی جس میں 78 ہوائی جہاز، 40 ہزار ملٹری گاڑیاں اور 3 لاکھ ہتھیارشامل تھے۔

افغان طالبان اس اسلحے کی حفاظت نہ کر سکے اور بہت سا ٹی ٹی پی، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے ہتھے چڑھ گیا، وہ اب پاکستان میں دہشتگردی کیلیے استعمال ہوتا ہے۔

افغان حکومت ان تنظیموں کی متشدد سرگرمیاں نہیں روک پا رہی جبکہ بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے ، خواتین کے حقوق غضب کرنے اور اپنے انتہا پسندانہ نظریات عوام پر ٹھونسنے میں مشغول ہے،گوریلا تنظیمیں بتدریج افغان صوبوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی

پڑھیں:

عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے سرگرم (اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی)
  • جامعہ کراچی: 2 طلبہ تنظیموں میں تصادم، پولیس اہلکار، متعدد طلبا زخمی
  • بھارت تاجکستان میں فضائی اڈے سے بے دخل، واحد غیر ملکی فوجی تنصیب چِھن گئی
  •  امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر کے کابل میں داخل ہو رہے ہیں، افغانستان
  • ملک میں توانائی، آئی ٹی اور معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں: احسن اقبال
  • وسطی ایشیا میں بھارتی موجودگی کا خاتمہ، تاجکستان نے بھارت سے اپنا ایئربیس واپس لے لیا
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع