صاحبو اس میں کوئی کلام نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی ایک حکومت کا بگاڑا نہیں بلکہ ہر ایک نے اس میں حصہ ڈالا ہے، خاص کر جنرل پرویز مشریف کے دور سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان کا تیر بہدف علاج کوئی نہ ڈھونڈ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں حالات جس قدر بگڑگئے ہیں، ان کا کوئی ایک سادہ حل ممکن نہیں، بیک وقت کئی پہلوؤں پر کام کرنا ہوگا۔
یہ بھی درست کہ بلوچستان میں بہت سے مسائل جینوئن ہیں، وہ دور کرنے ہوں گے، لوگوں کی محرومیاں، شکایات کو سننا ہوگا، ان کا حل نکالنا ہوگا، وہاں روزگار کے مواقع ہوں، معیشت ترقی کرے، خوشحالی آئے، عام آدمی کی زندگی میں آسانی ہو تو خود بخود شدت پسندی کمزور پڑے گی۔
یہ سب باتیں بجا۔ ہم ہر قسم کے ان اقوال زریں، دل خوش کن باتوں کے حامی ہیں، ان پر ضرور عمل کیا جائے۔ اس وقت مگر سب سے اہم اور ترجیحی کام دہشتگردوں کا خاتمہ ہے۔ یہ وقت ہے کسی بھی قسم کے اگر، مگر، چونکہ چناچہ کے بغیر دہشتگردی کی غیر مشروط مذمت کرنے کا، ان شدت پسند درندوں کے خاتمے، ان کے نیٹ ورک کو توڑنے، جڑیں اکھاڑنے اور مکمل قلع قمع کرنے کا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بی ایل اے کے دہشتگردوں نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ کسی قسم کے مذاکرات نہیں چاہتے، وہ پرامن حل چاہتے ہی نہیں۔ وہ شاید یہی چاہتے ہیں کہ ان کی گردنیں مار دی جائیں، ورنہ زومبیز کی طرح وہ عام آدمی پر حملہ آور ہوکر اسے کاٹ کھائیں گے، اس کا خون کر دیں گے۔ اس لیے یہ سروائیول کی جنگ ہے۔ دہشت گرد بچیں گے یا پاکستان اور اس کے عوام۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیموں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بی ایل اے ہو یا ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف ان دونوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی ہے کہ ہر قسم کے مذاکرات اور امن کی کوشش کا دروازہ بند کردیا ہے۔
دنیا بھر میں شدت پسند تنظیمیں، حتیٰ کہ علیحدگی پسند گروہ بھی اپنا سیاسی ونگ بناتے ہیں جو مسلح کارروائیوں سے الگ تھلگ رہ کر صرف سیاسی جدوجہد کرتا ہے۔ برطانیہ میں آئرش ری پبلک آرمی نے ایسا کیا تھا، حل بھی ان کے اسی سیاسی ونگ نے نکالا۔ افغان طالبان قابض امریکی افواج سے لڑ رہے تھے، مگرقطر میں دفتر کھول کر سیاسی مذاکرات کی آپشن دے رکھی تھی جو آخرکار کامیاب بھی ہوئی۔ خود غزہ میں برسرپیکار حماس کا سیاسی ونگ بالکل الگ کام کرتا رہا ہے، دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
البتہ سری لنکا کے تامل ٹائیگرز نے بھی یہی غلطی کی تھی۔ وہاں تامل ٹائیگرز کے سربراہ پربھاکرن کی طاقتور شخصیت یوں غالب ہوئی کہ سیاسی ونگ اپنا کام ہی نہیں کر پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلے کا حل ڈھونڈنے والوں کو آخرکار پربھاکرن کا خاتمہ کرکے تامل ٹائیگر کے پورے نیٹ ورک کا صفایا کرنا پڑا، تب علاقے میں امن قائم ہوا۔
ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تامل ٹائیگرز کی جدوجہد کسی نظریے سے زیادہ ایک نسل پرستانہ سوچ پر استوار تھی۔ ان کے لیے سنہائی آبادی ہر حال میں ناقابل قبول تھی۔ یہی بلوچ شدت پسند دہشت پسند تنظیمیں کر رہی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ نسل پرست گروہ ہے ۔ ان کے نزدیک صرف بلوچ ہی انسان ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر تمام آبادیاں اور گروہ خدانخواستہ کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر۔ یہ بات انہوں نے پاکستانی عوام کو بار بار بتائی اور ابھی جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے میں ایک بار پھر زوردار طریقے سے واضح کردی۔
اس حملے میں انہوں نے بلوچ مسافروں کو تو جانے دیا، جبکہ پنجابی، سندھی، پشتون، سرائیکی مسافروں کو الگ الگ دائروں میں بٹھا کر باری باری انہیں گولیاں ماری گئیں۔ انہوں نے پشتونوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ ان کی درندگی اور سفاکی ایسی تھی کہ روزے داروں تک کو نہیں چھوڑا گیا، لوگ چوبیس گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہے اور ان نہتے عام آدمیوں کو یوں درندگی سے مارا گیا کہ عینی شاہدوں کے بیان کے مطابق پورا پورا برسٹ ان کے جسم پر خالی کیا گیا۔
لوگ منت سماجت کرتے رہے کہ وہ کئی بچوں کے اکیلے کفیل ہیں اور لیبر کا کام کرتے ہیں، مگر جنونی قاتلوں نے نہایت سفاکی اور وحشت کے ساتھ انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا۔
یہ قطعی طور پر ناراض بلوچ نہیں۔ یہ سفاک، بے لحاظ اور ظالم دہشت گرد ہی ہیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے گزشتہ روز کہا کہ ہم امن جرگہ کرنے کو تیار نہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ بیان بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ اور ازحد کمزوری لیے ہوئے ہے۔ جن دہشتگردوں نے صوبائی حکومت کی رٹ کی دھجیاں آڑا دیں، دن دیہاڑے ٹرین یرغمال بنالی۔ مسافروں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اتنا بڑا بحران کھڑا کردیا، ہمارے دشمن ممالک میں اس ایشو کو اچھالا گیا، ان کے میڈیا نے اسے بے پناہ کوریج دی۔ پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ ایسا کرنے والے کیا کسی قسم کے امن جرگے کے مستحق ہیں؟
یہ بات کہنا بھی اپنی کمزوری ظاہر کرنا ہے۔ ان کے خلاف سخت ترین اور تباہ کن آپریشن کی ضرورت ہے۔ ان کا نیٹ ورک توڑا جائے، ان کی اعلیٰ قیادت اور صف اول و دوم کے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے، ان کا صفایا ہو اور تامل ٹائیگرز کی طرح یہ بھی قصہ پارینہ بن جائیں۔
بلوچستان میں عام آدمی کی بھلائی اور ویلیفیئر کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، وہ سب اپنی جگہ ہوتا رہے، مگر دہشتگردوں کا ہر حال میں خاتمہ ہو۔ انہیں اب چھوڑنا بدترین بزدلی، کمزوری اور شرمناک پسپائی ہوگا۔ ان پر پلٹ کر وار کرنے اور کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔
آخری تجزیے میں جعفر آباد ٹرین پر حملے کرنے والے دہشتگرد درندوں سے بھی بدتر تھے۔ ان کی قید سے بھاگ جانے والے مسافروں کی روداد ایسی ہولناک اور تکلیف دہ ہے کہ یقین نہیں آتا۔ نہایت درندگی، بے شرمی اورسنگدلی سے انہوں نے نہتے مسافروں کو گولیا ں ماریں۔
یہ بدبخت جنونی، نسل پرست، ریسسٹ اور جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ایسے کہ ان کے خلاف قانون کو پوری قوت سے حرکت میں آنا چاہیے۔ جو ایسے درندوں کی حمایت میں کچھ لکھے یا بات کرے، اس پر تف ہے۔
بی ایل اے کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت بن گیا۔ کسی کو یہ بات بری لگتی ہے تو لگتی رہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اب یہ دہشتگرد بچیں گے یا پاکستان کے عوام۔ محرومی اور شکایات کا حل یا مداوا دہشتگردی سے نہیں ہوسکتا، یہ بات ہر ایک کو سیکھنا ہوگی۔
فیصلے کا وقت آ پہنچا، فیصلہ کن وار کا وقت بھی، یہ وقت دہشتگردوں کے خلاف ایک بڑے، ہمہ گیر، وسیع اور دہشتگردی کے اس عفریت کی جڑیں تک کاٹ دینے والے آپریشن کا ہے۔ بھرپور انٹیلی جنس ورک کے بعد ایک مؤثر ترین آپریشن کرنے کا وقت۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تامل ٹائیگرز مسافروں کو سیاسی ونگ کی ضرورت انہوں نے کرنے کا کا وقت بی ایل یہ بات قسم کے
پڑھیں:
IMF شرائط:حکومت کیلئے بڑے فیصلے،ریلیف دینا ناممکن
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جب کہ وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے اقتصادی سروے جاری کردیاہے جس میں دعویٰ کیاگیاہے کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی گروتھ)دواعشاریہ سات فیصدتک پہنچ گئی ہے جب کہ 2023میں جی ڈی پی کی شرح منفی تھی ،اسی طرح درآمدات میں گیارہ اعشاریہ سترہ فیصداضافہ بتایاگیاہے اور افراط زرچاراعشاریہ چھ اور اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ بائیس سے گیارہ فیصدپرآگیاہے،فائلرزکی تعدادبڑھ کر سینتیس لاکھ تک پہنچ گئی اوررواں سال ترسیلات زر ریکارڈاضافے کے ساتھ اڑتالیس ارب ڈالرتک پہنچنے کاامکان ظاہرکیاگیا،فی کس آمدنی ،جو1824ڈالرہے،ا س میں گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ چھ فیصداضافہ ظاہرکیاگیاہے،لائیوسٹاک میں چاراعشاریہ سات،پولٹری میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصداضافہ دیکھنے میں آیاتاہم اہم فصلوں گندم اور کپاس میں ساڑھے چودہ فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے،وزیرخزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ صنعتی ترقی میں چاراعشاریہ 77فیصداضافہ ہوا،رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا،اگراسی رفتارسے آبادی بڑھتی رہی تو یہ 40کروڑتک پہنچ جائے گی پھرسوچئے ملکی معیشت کاکیاہوگا،جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کاتعلق ہے اس کاباضابطہ اعلان بجٹ تقریرمیں کیاجائے گااب تک کی معلومات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداور پنشن میں ساڑھے سات فیصداضافہ کیاجارہاہے،آئی ایم ایف پروگرام کے باعث پاکستان کی معیشت کواستحکام ملا،کڑی شرائط کے باعث عام آدمی کو مشکلات کاسامناکرناپڑا،مہنگائی ایک ریکارڈسطح تک گئی اوراب مہنگائی بڑھنے کی رفتارکم ہوکرچارفیصدتک ہونے کادعویٰ کیاگیاہے،آئی ایم ایف کے بغیرحکومت کوئی بھی بڑافیصلہ نہیں کرسکتی،کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث حکومت کی مجبوری ہوتی ہے، ،بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے سے پہلے کابینہ میں اس کی منظوری دی جائے گی،اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ معاشی مشکلات کومدنظررکھتے ہوئے بعض مشکل فیصلے لیناحکومت کی مجبوری ہیلیکن ٹیکسز کے معاملے میں حقائق کو مدنظررکھ کرایسے فیصلے کئے جانے چاہئیں جس سے غریب اور متوسط طبقے پر مزیدبوجھ نہ پڑے،نئے بجٹ میں تنخواہ دارطبقے کے لئے نمایاں ریلیف اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرناوقت کاتقاضااوردیرینہ مطالبہ ہیجسے پورا کیاجاناچاہئے،ملک جب بھی معاشی بحران کاشکارہواتو سب سے زیادہ قربانی ہمیشہ تنخواہ دارطبقے نے ہی دی،جس پرہربجٹ میں ٹیکسوں کابوجھ ڈالاگیا،یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ شدید مالی دباؤ اور معاشی چیلنجز کا شکار ہے، مہنگائی ، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ نے عام تنخواہ دار افراد کی زندگی کو نہایت مشکل بنا دیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے افرادکی خوشحالی براہِ راست ملکی ترقی سے جڑی ہے، اگر یہ طبقہ مالی پریشانیوں میں مبتلا رہے تو اس کا اثر ملکی پیداوار، سماجی استحکام اور معیشت کی مجموعی کارکردگی پر منفی پڑتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس نظام کو اس طرح ترتیب دے جو تنخواہ دارطبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالے، اسی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے یانفاذ کی روش نہ صرف تک کی جانی چاہئے۔
Post Views: 5