Express News:
2025-09-18@13:54:00 GMT

دانش کا تقاضا

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

سیاسی ترجیحات اس دور میں بھی تعلیم کے شعبے پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ ملک بھرکی بیشتر سرکاری یونیورسٹیاں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت نے برطانیہ سے ملنے والے 190 ملین پونڈ سے اسلام آباد میں ایک نئی دانش یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔

یہ یونیورسٹی اسلام آباد کے سیکٹر H-6 میں 100ایکڑ پر تعمیر ہوگی۔ اس یونیورسٹی کا پہلا سیشن 14، اگست 2026کو عملی طور پر متحرک ہوجائے گا۔ اسلام آباد سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لندن سے ملنے والی رقم سے ملک کے مختلف حصوں میں دانش اسکول قائم ہونگے۔

وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی کراچی اور حیدرآباد میں مختلف یونیورسٹیوں کے کیمپس کے قیام کا بیانیہ اپنی عوامی رابطہ مہم میں شامل کیا ہوا ہے۔

 اعلیٰ تعلیم کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ سرکاری یونیورسٹیوں کوگرانٹ دینے والے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.

E.C) نے گزشتہ مالیاتی سال کے بجٹ کے لیے 125 بلین روپے وفاقی حکومت سے مانگے تھے مگر وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کو صرف 65بلین روپے فراہم کیے۔ ایچ ای سی نے گزشتہ سے پیوستہ برسوں میں بھی بجٹ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا مگرگزشتہ پانچ برسوں سے اسلام آباد کا وفاقی بجٹ بنانے والی اتھارٹی نے ایچ ای سی کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بجائے مزید بجٹ کم کردیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو فراہم کی جانے والی Recurring Grant میں کمی کی گئی۔ 2018-19کے وفاقی بجٹ میں فی طالب علم یہ رقم 67,528 روپے تک محدود ہوگئی تھی۔

2023-24میں فی طالب علم 50,956 روپے تک محدود ہوگئی۔ قومی اسمبلی کی تعلیم کی ذیلی کمیٹی کو گزشتہ دنوں بتایا گیا تھا کہ ایچ ای سی کو جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد سے کم حصہ مل رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے منتخب اراکین نے یہ گزارش کی تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ مہیا کیا جائے مگر یہ گزارش قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور وزارت تعلیم کے درمیان گردش کرنے والے فائل کے صفحات کے درمیان مقید ہوگئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور سے ایچ ای سی کے بجٹ میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا جس کی بناء پر 160کے قریب یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران شدت اختیارکرگیا۔

اس بحران کا شکار تمام یونیورسٹیاں ہوئیں مگر وفاق کی یونیورسٹیوں کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں یہ بحران زیادہ شدید ہوگیا۔ وفاق کے زیرِ انتظام قائد اعظم یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اس بحران سے براہِ راست متاثر ہوئیں۔ ان یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ بحران وفاقی اردو یونیورسٹی میں ہے۔ بجٹ کی کمی کی بناء پر اساتذہ و عمال کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بے قاعدگی سے اساتذہ و عمال تنخواہوں اور رینٹل سیلنگ سے محروم ہیں۔

ریٹائر ہونے والے اساتذہ و عمال کی پانچ ماہ کی پنشن باقی ہے۔ 2017میں ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور عمال کو واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال یونیورسٹی میں مالیاتی بحران کی بناء پر تعلیمی معیار متاثر ہوا ہے ۔ جب ان وفاقی اردو یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریٹائرڈ اساتذہ نے تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں کے لیے احتجاج شروع کیا اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں اور صورتحال کی گونج پاکستان کی سینیٹ کی تعلیم کی ذیلی کمیٹی میں سنی گئی تو وفاقی وزارت نے ان تینوں یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے وزارت خزانہ کو 2.5 ملین روپے کی خصوصی گرانٹ کی منظوری کی استدعا کی۔

اگرچہ اس رقم سے تینوں وفاقی یونیورسٹیوں کا مالیاتی بحران مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا مگر وزارت خزا نہ اور وزیراعظم ابھی تک اس سمری کے مستقبل کے بارے میں کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے ایچ ای سی کے فنڈز میں خاطرخواہ کمی کی تو پھر وفاقی کابینہ کے سامنے سرکاری یونیورسٹیوں پر فنڈزکی کمی کا معاملہ آیا تو عقل مند بیوروکریسی کے کسی اہلکار نے یہ تجویز دی کہ یونیورسٹیوں کو مالیاتی طور پر خودکفیل ہونا چاہیے، یوں یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے طلبہ کی فیسوں میں خاطرخواہ اضافہ کریں اور پھر بھی معاشی صورتحال بہتر نہ ہو تو سرکاری یونیورسٹیوں کی زمینوں کی فروخت کی جائے۔

اس وقت ڈاکٹر بنوری ایچ ای سی کے چیئرمین تھے۔ انھوں نے ان دونوں تجاویز کی شدید مخالفت کی۔ ڈاکٹر بنوری کی یہ دلیل تھی کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں متوسط اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ ان طلبہ کے والدین کے لیے اتنی زیادہ فیسیں ادا کرنا مشکل ہوگا۔ ڈاکٹر بنوری کا استدلال تھا کہ چھوٹے شہروں کی یونیورسٹیوں میں فیسوں سے اضافے سے طلبہ کی تعداد کم ہوگی۔

اسی طرح ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنے وسیع تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کی زمینوں کی فروخت سے ایک طرف یونیورسٹیاں قیمتی اثاثوں سے محروم ہوجائیں گی تو دوسری طرف مختلف شہروں میں سرگرم لینڈ مافیا کے اہلکار زمینوں کی بندر بانٹ میں حصہ لینے لگیں گے مگر ڈاکٹر بنوری کا یہ بیانیہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اس بناء پر ڈاکٹر طارق بنوری کو ایچ ای سی کی قیادت سے محروم ہونا پڑا۔ طلبہ اور اساتذہ کے احتجاج پر یونیورسٹیوں کی قیمتی زمینوں کی فروخت کا معاملہ داخل دفتر ہوا۔

 میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ حکومت نے ایچ ای سی پر زور دیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے مختلف کورس کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کردیا جائے۔ بعض یونیورسٹیوں میں 100 سے 200فیصد تک فیسیں بڑھادی گئیں جس سے نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کو اپنی تعلیم نامکمل چھوڑنی پڑی۔ مگر سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوا بلکہ بعض یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح گرگئی۔

یونیورسٹیوں کا بحران تیز ہوگیا۔ خاص طور پر بلوچستان، اندرونِ سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں فیسوں کے اضافے سے منفی نتائج سامنے آئے۔  ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں کی اساتذہ کی انجمنوں کی فیڈریشن FAPUASA کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی نے حکومت کے دانش یونیورسٹی کے قیام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلے موجودہ یونیورسٹیوں کے بحران کو حل کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ماہِ رمضان میں بلوچستان اور بہاولپور یونیورسٹیاں میں اساتذہ اور عمال کو تنخواہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں 13فیصد طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے جاتے ہیں، اگر حکومت نے مالیاتی بحران پر توجہ نہ دی تو یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد مزید کم ہوجائے گی۔ وزیر اعظم کو اعلیٰ تعلیم کے مسائل کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے نئی یونیورسٹی کے قیام کے بجائے 190ملین پونڈز کی رقم سرکاری یونیورسٹیوں کے حالات بہترکرنے پر خرچ کرنی چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کو بچایا جائے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرکاری یونیورسٹیوں یونیورسٹیوں میں یونیورسٹیوں کی یونیورسٹیوں کے یونیورسٹیوں کو کی یونیورسٹیوں مالیاتی بحران ڈاکٹر بنوری ایچ ای سی کے نے ایچ ای سی اسلام آباد زمینوں کی حکومت نے کے قیام بناء پر کے لیے

پڑھیں:

جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔

اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔

آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔

جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔

ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔

چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔

اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔

جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔

متعلقہ مضامین

  • چینی کے بحران پر قابو پانے کےلئے سرکاری قیمت 177 فی کلو مقرر
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
  • وفاقی حکومت نے سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کو اسلام آباد کلب کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا
  • حکومت بلوچستان کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم، بحران کا خدشہ
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط