ابو محمد الجولانی دیگر ممالک کے حکام کے پروٹوکول کے برعکس، وائٹ ہاؤس کے عقبی دروازے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس ملاقات میں کوئی صحافی بھی موجود نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز شام پر قابض باغیوں کے سربراہ "ابو محمد الجولانی" کی امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ معمول کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ، دیگر ممالک کے حکام کو وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہتے ہیں، تاہم میڈیا میں آنے والی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ ابو محمد الجولانی دیگر ممالک کے حکام کے پروٹوکول کے برعکس، وائٹ ہاؤس کے عقبی دروازے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس ملاقات میں کوئی صحافی بھی موجود نہیں تھا۔ نیوز ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ شامی باغی سربراہ، ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کئے بغیر ہی وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ بہرحال اس ملاقات کے بعد، ترکیہ، شام اور امریکہ کے وزرائے خارجہ بالترتیب "حکان فیدان"، "اسعد حسن الشیبانی" اور "مارکو روبیو" نے ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں مذکورہ ملاقات میں ہونے والی بات چیت کے اہم نکات پر عمل درآمد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں دیگر موضوعات کے علاوہ شامی باغیوں اور كُرد فورسز كے درمیان ایگریمنٹ سمیت دمشق کے تل ابیب کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ شام سے پابندیاں ہٹانے کا معاملہ بھی اس اجلاس میں موضوع بحث رہا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس

پڑھیں:

ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟

اسلام ٹائمز: ایرانی قوم نے ایران اور امریکہ کے درمیان عدم مفاہمت کیوجہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے اور اسی بنیاد پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اس ملک کی زیادتیوں کیخلاف مزاحمت اور جدوجہد کی پالیسی اور نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ قومی اتحاد اور سماجی یکجہتی کی روشنی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش اور محنت سے ایک مضبوط ایران کی تعمیر سے تمام مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس راستے پر ایمان اور روحانیت کی طاقت پر بھروسہ نیز اللہ تعالیٰ کی مدد پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی

بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔ اس فارمولے کی بنیاد پر ایران میں رہنے والے بعض افراد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اختلافات کو ختم کیا جانا چاہیئے اور اس ملک کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ملک کے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع معاہدہ ہونا چاہیئے۔ اس نظریہ اور مفروضے کے برعکس ایک اور قول یہ ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر ایران اور امریکہ کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہے۔ اس نظریئے میں سب سے آگے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے سیاسی اور گروہی نظریات سے بالاتر ہو کر سمجھنا چاہیئے کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے اور کون سا غلط ہے۔؟

اس معاملے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے، جب قومی مفادات کے تناظر میں ہر فریق کے اسباب اور نکات پر غور کیا جائے۔ مثال کے طور پر پہلا نظریہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کے ہر طرح کے دباؤ اور پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے ترقی کا راستہ بند ہوگیا ہے اور اس ملک کی ترقی کا واحد راستہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے بارے میں امام خمینی (رح) کے اسی نقطہ نظر کے ساتھ تاکید کی ہے کہ ایران کی حقیقی ترقی کی شرط یہ ہے کہ امریکہ آگے نہ آئےو کیونکہ امریکہ ایران کی ترقی کا سخت مخالف ہے۔ سیاسی عقلیت کی کسوٹی پر اور قومی مفادات کے اشاریہ کی بنیاد پر ان دو آراء کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

رہبر معظم کے نقطہ نظر سے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مکتب، روحانیت، انصاف اور عقلیت کی تین جہتوں کا حامل ہے۔ درحقیقت امریکہ کے بارے میں امام کا نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ امریکہ بڑا شیطان ہے اور ہم امریکہ سے تعلقات نہیں چاہتے ہیں، ایک مضبوط دلیل پر مبنی ہے۔ امام کا استدلال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ہر ملک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ امام کا خیال تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات نہ صرف ایرانی قوم کے لیے  فائدہ مند نہیں ہیں، بلکہ یہ تعلق ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک مثال کے ساتھ واضح کیا کہ اس تعلق سے ایران کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ رشتہ بھیڑیئے اور بھیڑ کا رشتہ ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بھیڑ کے بھیڑیئے کے قریب آتے ہی کیا ہوگا اور کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان ہوگا۔ یہ مثال عقلی دلیل پر مبنی ہے۔ بھیڑیئے کی دلچسپی بھیڑوں کی جان لینے میں ہے۔

امریکہ ایک متکبر مزاج ملک ہے اور وہ دوسروں پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ امریکہ دنیا کی غالب طاقت بن کر دوسروں کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ اس ملک کے قائدین پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایران کو دنیا پر امریکہ کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کے اہم مفادات اور فطری حقوق جیسے سیاسی آزادی، قومی وقار، علاقائی سالمیت کا تحفظ اور امریکہ کے غلبہ اور تسلط پسندانہ مفادات کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ مفادات کا یہ تصادم حکمت عملی کی نوعیت کا نہیں ہے، جسے دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سٹریٹجک اور متضاد مفادات کی سطح پر فطری ہیں۔

گذشتہ 46 سالوں کے دوران امریکہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایرانی قوم کے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں ہوگا۔ 12 روزہ جنگ کے پہلے ہی دن ٹرمپ نے اس جنگ میں فتح کا تصور کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ بنیادی طور پر امریکہ ایران جیسے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کے حامل ایک آزاد ملک کو برداشت نہیں کرتا، وہ بھی ایسا ملک جس کا ترقی پذیر جغرافیائی محل وقوع اتنا اہم اور اسٹریٹجک ہو۔ ایرانی قوم کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کی تمام تر وجوہات میں سب سے اہم اسلامی انقلاب سے اس کی دشمنی ہے۔ یہ دشمنی امریکہ کی زیادتیوں میں پنہاں ہے۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کو طاقت کے حصول کی راہ پر ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے۔ ایک مضبوط ایران کی تعمیر کا نظریہ، جس پر کئی سالوں سے رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا اور تاکید کی ہے، اسی مقصد کے لیے ہے۔

ایرانی قوم کا روشن مستقبل ایرانی قوم کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ ایران اور ایرانیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ تسلط پسند امریکہ کے خلاف مضبوط اور ہمہ گیر پیشرفت کریں۔ امریکہ کی غنڈہ گردی اور جبر کا مقابلہ، مضبوط ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ملک کے مسائل مذاکرات، مفاہمت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ذریعے حل کرنے کی سوچ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایرانی قوم عقلیت سے کام لیتی ہے اور خارجہ پالیسی میں قومی مفادات کے اشاریہ کے ساتھ عقلیت اور حساب کتاب کی بنیاد پر اپنے طرز عمل کو منظم کرتی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے تاریخی تجربات سے سبق حاصل کرنے کا بھی خیال رکھتی ہے۔ انگلستان کے شر سے چھٹکارا پانے کے لیے مصدق کا امریکہ سے رابطہ کرنے کا تجربہ، جس کی وجہ سے بالآخر اینگلو امریکن بغاوت کے ذریعے ڈاکٹر محمد مصدق کی قومی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ تجربہ ایرانی قوم کے سامنے ہے۔

یا کرنل قذافی کے دور میں لیبیا کا تجربہ، جس نے مغرب اور امریکیوں پر بھروسہ کرکے ملک کو زوال اور تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ سوڈان اور عمر البشیر کے امریکہ کے قریب پہنچنے میں غلط حساب کتاب کا تجربہ، جس کا نتیجہ سوڈان کی تقسیم اور تباہ کن خانہ جنگیوں کی صورت میں نکلا۔ ایرانی قوم نے ایران اور امریکہ کے درمیان عدم مفاہمت کی وجہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے اور اسی بنیاد پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زیادتیوں کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کی پالیسی اور نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ قومی اتحاد اور سماجی یکجہتی کی روشنی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش اور محنت سے ایک مضبوط ایران کی تعمیر سے تمام مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس راستے پر ایمان اور روحانیت کی طاقت پر بھروسہ نیز اللہ تعالیٰ کی مدد پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے، جو مومنوں کو  سکون بخشتا ہے: "ولا تهنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین"

متعلقہ مضامین

  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • پاک افغان جنگ بندی کے لیے ترکیہ اور ایران سرگرم، کیا اس بار کوششیں کامیاب ہوسکیں گی؟
  • شٹ ڈاؤن جاری رہا تو امریکی شرح نمو منفی ہوسکتی ہے، وائٹ ہاؤس کے معاشی مشیر نے خبردار کردیا
  • پیوٹن نے جوہری تجربے کی تیاری کا حکم دے دیا، روسی وزارتِ خارجہ کی تصدیق
  • جنوبی افریقا میں جی 20اجلاس منعقد ہونا افسوسناک ہے‘ٹرمپ
  • ترک صدر کی شہباز شریف سے ملاقات، پاک افغان جنگ بندی اور غزہ میں استحکام پر زور
  • ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان اور وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے درمیان ملاقات ،فیلڈ مارشل کی شرکت
  • جنوبی افریقہ میں جی 20 اجلاس میں کوئی امریکی عہدیدار شریک نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی ایٹمی دھمکیوں اور بڑھکوں پر چین کا سخت ردِعمل