استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد علاقائی قوّتیں اور پاکستان کے دوست ممالک بھی دونوں ممالک کے درمیان قیامِ امن کے حوالے سے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔

7 نومبر کو آذربائیجان کے یومِ فتح تقریبات میں وزیراعظم شہباز شریف نے شرکت کی جہاں دارلحکومت باکو میں وزیراعظم شہباز شریف اور ترکیے کے صدر رجب طیب اُردوان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی قائم رکھنے پر بات چیت کی گئی۔

صدر رجب طیّب اُردوان نے کہا کہ تُرکیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو غور سے دیکھ رہا ہے اور وہ مذاکرات اور استحکام کی حمایت کرتا رہے گا۔ صدر طیّب اردوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تُرک وزیرِ خارجہ خاقان فیدان، ترک وزیرِ دفاع یاسر گولیر، اور تُرک انٹیلی جینس چیف ابراہیم کالِن اگلے ہفتے اِسلام آباد کا دورہ کریں گے اور دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی، ایران نے مصالحتی کردار کی پیشکش کردی

دوسری طرف برادر اِسلامی مُلک ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے گزشتہ روز افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فونک گفتگو کی جس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے متعلق بات چیت کی گئی۔ افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

اصل مسئلے کے بجائے افغان مذاکرات کاروں نے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا: پاکستانی وزارتِ خارجہ

افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان مُتّقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کوئی ذمّے داری اُٹھانے کو تیار نہیں جبکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اپنے مفصّل جواب میں مذاکرات کی ناکامی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 4 برس میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور پاکستان نے فوجی و شہری نقصانات کے باوجود انتہائی تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔

پاکستان نے اس عرصے میں اس امید کے ساتھ افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری روابط استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی کہ طالبان انتظامیہ دہشتگرد گروہوں، بالخصوص ٹی ٹی پی، کے خلاف مؤثر اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے تجارت، انسانی امداد، ویزوں کی سہولت اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے لیے مثبت سفارتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے افغانستان کی استحکام، امن اور خوشحالی کو اولین مقصد کے طور پر رکھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی جانب سے پاک افغان جنگ بندی کا خیرمقدم، قیام امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیدیا

تاہم، ان تمام مثبت اقدامات کے باوجود طالبان انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی بنیادی توقع، یعنی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینا، پوری نہیں کی گئی، اور اس کے بجائے مسئلے کے اصل پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا گیا، جو نہ صرف بین الاقوامی ذمہ داریوں سے انحراف ہے بلکہ افغانستان اور خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی مضر ہے۔

افغانستان اپنی ذمے داریوں سے انحراف کر رہا ہے، پاکستان وزارتِ خارجہ

پاکستان وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی بنیادی توقع یہ رہی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، تاہم طالبان انتظامیہ اس اہم ذمہ داری پر عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات کرنے سے مسلسل گریز کرتی رہی ہے اور اس کے بجائے اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو غیر متعلقہ اور ضمنی معاملات کے ساتھ خلط ملط کر کے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرتی رہی ہے جو اسے اپنی بین الاقوامی اور داخلی ذمہ داریوں سے بری ظاہر کرے۔

اکتوبر 2025 میں افغانستان کی جانب سے جاری حملوں کے جواب میں پاکستان کا ردعمل اس کے اس عزم اور ارادے کی عکاسی تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے ریاستِ پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن قرار دیے جا چکے ہیں، اور جو بھی ان کی سرپرستی، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان اور اس کے عوام کا خیر خواہ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان اپنے قومی مفادات اور اپنے شہریوں کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کا اسپن بولدک اور چمن سیکٹر میں بھرپور جواب، افغان طالبان نے جنگ بندی کی درخواست کر دی

افغان مذاکرات کار صرف بات چیت کو طول دینا چاہتے تھے

استنبول میں ہونے والا دوسرا دور دراصل دوحا میں ہونے والے پہلے دور میں طے پانے والے اقدامات کے لیے ایک مانیٹرنگ میکنزم طریقہ کار ترتیب دینے کے لیے تھا، تاہم طالبان انتظامیہ کے نمائندے عملی اقدامات سے گریز کرتے رہے اور اپنے پہلے کیے گئے وعدوں سے پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کی، ساتھ ہی الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول کو متاثر کیا۔

پاکستان نے مسلسل اس اپنے بنیادی مطالبے پر زور برقرار رکھا کہ افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد عناصر کے خلاف قابلِ تصدیق اور ٹھوس کارروائی کی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔ ترکی اور قطر جیسے برادر ممالک کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کرنے والا ہر شخص یہ باآسانی دیکھ سکتا تھا کہ طالبان انتظامیہ محض عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی تھی، بغیر اس کے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے عناصر کے خلاف کوئی عملی اور قابلِ تصدیق اقدام کیا جائے۔

پاکستان کے بنیادی تحفظاتی خدشے کے حل کے بجائے افغان انتظامیہ نے مفروضاتی الزامات اور جذباتی بیانیے کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، مذاکرات کو طول دیا اور غیر ضروری بحث میں الجھ کر کسی ٹھوس اتفاقِ رائے تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

استنبول افغانستان پاکستان ترکیہ اور ایران.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استنبول افغانستان پاکستان ترکیہ اور ایران پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاکستان اور افغان کے درمیان کشیدگی طالبان انتظامیہ میں پاکستان پاکستان نے پاکستان کے کہ پاکستان مذاکرات کی کی جانب سے کرتے ہوئے اور اس کے کے بجائے بات چیت کی کوشش کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

ترک صدر کی شہباز شریف سے ملاقات، پاک افغان جنگ بندی اور غزہ میں استحکام پر زور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

باکو : ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی ختم کرکے جنگ بندی کے عمل کو برقرار رکھنا خطے کے امن کے لیے نہایت اہم ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران   گفتگو  کرتے ہوئے کہا کہ ترک صدر   نے کہا کہ ترکیہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور پاک افغان سرحدی تناؤ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور دونوں ممالک کے درمیان استحکام کے لیے جاری مذاکرات کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا،  انہوں نے امید ظاہر کی کہ ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات سے دیرپا امن اور باہمی اعتماد کی راہ ہموار ہوگی۔

ترک صدر نے اس موقع پر پاکستان اور ترکیہ کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، خاص طور پر تجارت، توانائی اور دفاعی صنعت میں تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔

اردوان نے مزید کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت داری نہ صرف خطے کی ترقی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

غزہ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ جنگ بندی کے عمل کو برقرار رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ملاقات کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے آذربائیجان کی یومِ فتح کی تقریب میں شرکت کی، جہاں انہوں نے فوجی پریڈ بھی دیکھی۔ اس تقریب میں مختلف ممالک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور آذربائیجان کی کامیابیوں کو سراہا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان سے کشیدگی، ترک وفد اسی ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گا: اردگان بات چیت جاری رہنی چاہئے، ایران 
  •  افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی، ایران نے مصالحتی کردار کی پیشکش کردی
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
  • ترک اعلیٰ حکام اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے، افغانستان سے کشیدگی پر بات چیت ہوگی, صدر اردوان
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ
  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • ترک صدر کی شہباز شریف سے ملاقات، پاک افغان جنگ بندی اور غزہ میں استحکام پر زور
  • افغان طالبان سے مذاکرات؛ پاکستان نے ثالثوں کو شواہد پر مبنی مطالبات فراہم کر دیے