امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
حافظ نعیم الرحمن نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلاتمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط لکھ کر ان کی توجہ غزہ میں جاری صہیونی سفاکیت کی طرف دلائی ہے اور اہل فلسطین کی مدد کے لیے عملی اقدامات کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل جمعہ کو عالمی سطح پر یوم احتجاج منانے کی بھی تجویز دی ہے۔ مسلم سربراہان کے نام جاری خطوط میں انھوں نے کہا کہ وہ آپ کو غزہ میں جاری ہولناک انسانی بحران پر گہرے دکھ اور تشویش کے ساتھ یہ خط لکھ رہے ہیں۔ تباہی اور انسانی تکالیف کی شدت عالمی برادری کی فوری اور مشترکہ کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب ہولوکاسٹ، بوسنیا کی نسل کشی، یا کوسوو کے تنازعے جیسے شدید انسانی بحران پیش آئے، تو دنیا نے اہم موڑ پر انسانی وقار اور انصاف کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر قدم اٹھایا۔
انھوں نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلا تمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر جاری قتل عام کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔ جدید ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت جو اسرائیل کو آزادی سے اور غیرمتناسب طور پر میسر ہے، سوشل میڈیا اور براہِ راست نشریات کے ذریعے آج دنیا ان مظالم کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر شعور بے مثال ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اور امن پسند لوگ غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور درد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے ملک کے عوام بھی ہمارے درد اور غم میں برابر کے شریک ہیں، جیسا کہ دنیا کے بے شمار دوسرے لوگ بھی۔
انھوں نے مسلم سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جو جرات مندانہ اور اخلاقی قیادت کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم آپ سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر مسلم ممالک کے رہنماوں کا اجلاس بلایا جائے تاکہ ایک واضح اور اجتماعی حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ہم ایک اور انسانی ناکامی کے باب پر افسوس کرتے رہ جائیں گے بالکل جیسے روانڈا میں ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار پوری دنیا یہ سب براہِ راست دیکھ رہی ہے۔ ہم یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ تمام ریاستی سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے جس کا واحد ایجنڈا غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنا ہو۔ تعمیر نو اور بحالی کے اقدامات بعد میں کیے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے اس خونریزی کا خاتمہ ضروری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی سطح پر بین الاقوامی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے مثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ مزید برآں ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جمعہ، 20 اپریل کو سرکاری طور پر یوم عالمی احتجاج قرار دیا جائے۔ اس دن کو ریلیوں، جلوسوں، خصوصی دعاوں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی مظاہروں سے منایا جانا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اس اتحاد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے دن کی توثیق کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کرتے ہیں کہ انھوں نے رہے ہیں کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف تمل ناڈو میں احتجاج کی لہر، مسلم رہنماؤں کا اجلاس منعقد
مقررین نے کہا کہ وقف ایکٹ میں کی گئی ترمیمات نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہیں بلکہ یہ ہندوستان کے سیکولر آئینی ڈھانچے اور سماجی انصاف کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست تمل ناڈو کے مختلف علاقوں میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ضلع تروپتور کے شہر وانمباڑی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جوائنٹ کمیٹی، سیاسی جماعتوں، اسلامی فیڈریشنز اور مقامی سماجی کارکنوں نے مشترکہ طور پر ایک احتجاجی اجلاس منعقد کیا، جس میں مودی حکومت کے منظور کردہ نئے قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس اجلاس میں مقررین نے کہا کہ وقف ایکٹ میں کی گئی ترمیمات نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہیں بلکہ یہ ہندوستان کے سیکولر آئینی ڈھانچے اور سماجی انصاف کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ ترمیمی قانون کا مقصد وقف جائیدادوں کو صنعت کاروں اور کارپوریٹ اداروں کے حوالے کرنا ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
اجلاس کی صدارت وانمباڑی جوائنٹ کمیٹی کے صدر سی ایم وسیم احمد، تروپتور کے ضلعی قاضی مولانا سید عبدالرحمن، جمعیۃ علماء ہند کے ریاستی صدر مولانا مفتی سبیل احمد، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مفتی رحمت اللہ اور دیگر اہم رہنماؤں نے کی۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری محمد ارشاد خان، جمعیت اہلحدیث کے ریاستی صدر انیس الرحمن، جمعیۃ علماء ہند کے شہری صدر مفتی انعام الحق اور مفتی اقبال احمد بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں شامل خصوصی مہمانوں میں ہیومنسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر ایم تمیمون انصاری، سابق مرکزی وزیر سی ایم ابراہیم، رکن پارلیمان ٹی ایم کتھر آنند اور کرناٹک اسٹیٹ جمعیۃ علماء کے صدر افتخار احمد بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنے خطابات میں ترمیمی قانون کو اقلیتوں کے خلاف ایک منظم چال قرار دیا۔
کانگریس لیڈر ایڈووکیٹ سید برہان الدین، جو آل انڈیا کسان کانگریس کے نیشنل جوائنٹ کوآرڈینیٹر بھی ہیں، نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نیا قانون وقف بورڈز کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے، جس سے جائیدادوں پر قبضے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ قانون واپس لے تاکہ ملک میں سماجی توازن اور مذہبی ہم آہنگی برقرار رہے۔ احتجاجی اجلاس میں بڑی تعداد میں عوام، سیاسی کارکنان اور مختلف تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔ مظاہرین نے نعرے بازی کے ذریعے اپنے غصے اور عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر وقف جائیدادوں کو کارپوریٹ کے حوالے نہیں ہونے دیں گے۔ وانمباڑی کی جوائنٹ کمیٹی نے اعلان کیا کہ وہ ملک بھر میں اس قانون کے خلاف بیداری مہم اور قانونی جدوجہد جاری رکھے گی تاکہ اقلیتی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔