UrduPoint:
2025-04-25@08:41:05 GMT

قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔

لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)

آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔

وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔

جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔

انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔

جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔

جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔

Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔

لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔

ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔

جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔

دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کلونیل دور ا نہیں کے لیے اس لیے

پڑھیں:

وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+خبر نگار) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا۔ 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں۔  دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔  اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی۔  اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔ مائنز اینڈ منرلز بل خیبر پی کے میں پیش کیا جاتا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ ان سے وضاحت طلب کر لی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے اگران کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو انکی رکنیت ختم کر دی جائے گی۔ 

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوجیوں کا مودی حکومت کے خلاف بغاوت آمیز بیان،بھارت آزاد نہیں،مودی ناکام ہو چکا،اب بھارت پر فوج حکومت کرے گی، بھارتی فوج پھٹ پڑی
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • دھاندی سے بنی وفاقی و صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکیں، کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ، فضل الرحمان
  • وفاقی حکومت ناکام ہوچکی کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ہے، فضل الرحمان
  • مریم نواز کے بیٹے جنید کی شادی کی ناکام کیوں ہوئی؟ شادی میں فوٹوگرافی کرنے والے عرفان احسن نے تقریب کا آنکھوں دیکھا حال سنا دیا 
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر