فائل فوٹو

وزیر خارجہ اسحاق ڈار  کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آج کی کارروائی بھی دفاع میں کی، بھارت نے پاکستان کے پاس کوئی چوائس نہیں چھوڑی تھی۔

اسحاق ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی حملوں میں ہمارے 35 افراد شہید ہوئے، جبکہ بھارت کے 80 ڈرونز گرائے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے مزموم عزائم جاری تھے، نور خان، شور کوٹ، سکھر ایئرپورٹ پر حملے ہوئے ہیں،پاکستان جوابی کارروائی اپنے دفاع میں کررہا ہے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بھارت جارحیت سے باز نہیں آرہا، آج ہم نے ’بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص‘ آپریشن شروع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف امن کی بات اور دوسری طرف حملے، یہ بغل میں چھری، منہ میں رام رام والی بات ہے، ہم نے آپریشن شروع کردیا ہے، فتح ہماری ہوگی۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وہ بارڈر کی خلاف ورزی کریں گے تو ہم دفاع کا حق رکھتے ہیں، بھارت نے پاکستان پر الزامات لگائے، اب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ابھی کم سے کم ایکشن ہوا ہے، جنہوں نے پےلوڈ پاکستان پر پھینکا ان کو نشانہ بنایا گیا، ہم نے جواب دیا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، بھارت نے بےپناہ جھوٹ بولا، کہا 15 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اسحاق ڈار بھارت نے کہ بھارت کہا کہ

پڑھیں:

حقِّ دفاع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مفتی منیب الرحمن
بیرونی جارحیت کے مقابلے میں مَمالک، اَفراد اور قوموں کا حقِّ دفاع فطری، قانونی اور بنیادی حق ہے، اس کی اجازت دیتے ہوئے قرآنِ کریم نے اس کی حکمت کو بھی بیان کیا ہے: ’’اور اگر اللہ بعض (فسادی) لوگوں (کے شر) کو بعض (مصلحین) کے ذریعے دفع نہ فرماتا تو زمین ضرور تباہ ہوجاتی، لیکن اللہ تمام جہانوں پر فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ (البقرہ: 251) اس لیے اُس نے دنیا میں اعتدال وتوازن قائم کرنے کے لیے بعض انسانوں کو پیدا فرمایا اور اُن کے ذریعے اپنی زمین کو فساد اور مفسدین سے پاک کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اگر اللہ بعض لوگوں (کے شرکو) بعض دوسرے (اصلاح پسند) لوگوں کے ذریعے دفع نہ فرماتا تو (مسیحی راہبوں کی) خانقاہیں، (یہودو نصاریٰ کے) کلیسا اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، سب ڈھائے جاچکے ہوتے‘‘۔ (الحج: 40) احادیثِ مبارکہ میں بھی حقِ دفاع کو بنیادی اور مقدس فریضہ قرار دیتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو، وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو، وہ شہید ہے اور جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو، وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہوئے (ظلماً) قتل کیا گیا ہو، وہ شہید ہے‘‘۔ (سنن ترمذی) خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہؐ نے حقوقِ انسانی کے حوالے سے بنیادی مقدسات میں جان، مال اور آبرو کی حرمت کو تحفظ عطا کیا ہے۔ (بخاری)

اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 میں بھی رکن ممالک کو اپنے دفاع کاحق دیا ہے، اس کا متن درج ذیل ہے: ’’اس منشور میں کوئی چیز کسی رکن ملک، جس پر کسی جارح ملک نے حملہ کیا ہو، کے انفرادی یا اجتماعی دفاع کے بنیادی حق کو متاثر نہیں کرے گی تاوقتیکہ سلامتی کونسل نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کر لیے ہوں۔ اس حق کے استعمال کے بارے میں رکن ممالک کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو فوری طور پر سلامتی کونسل کو رپورٹ کیا جائے گا اور یہ اقدامات کسی بھی طرح سے سلامتی کونسل کی ذمہ داری اور اختیار کو متاثر نہیں کریں گے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کے لیے کسی بھی وقت ضروری کارروائی کرے‘‘۔ الغرض افراد کی جان، مال، آبرو، اہل وعیال کا تحفظ اور ممالک کی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ ہمیشہ سے انسانیت کی مسلّمہ، متفق علیہ اور مشترکہ اقدار میں شامل رہا ہے، بشرطیکہ معاشرے تہذیب وتمدّن اور باہمی حقوق کی پاسداری کے دائرے میں رہ رہے ہوں اور جنگل کا قانون رائج نہ ہوکہ جہاں صرف طاقت ور کو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اور کمزور و مظلوم افراد اور اقوام کو کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔

موجودہ دور میں مسلّمہ اور متفق علیہ اَقدار کی تعبیر، تشریح اور معنویت کو طاقت ور اقوام نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا قانون رائج ہے، اَقدار پامال ہوچکی ہیں، مُسلَّمات کی تشریحات پر طاقت ور اقوام کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے اور انسانیت بے بس ہے، اقوامِ متحدہ کا ادارہ عملاً مفلوج ہے، سلامتی کونسل پر حقِ تنسیخ رکھنے والی اقوام کا تسلّط ہے اور مظلوم انسانیت اور کمزور ممالک کے لیے عالمی سطح پر داد رسی کا کوئی نظام نہیں ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ امریکا اور تمام مغربی ممالک یک زبان ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دفاع کے معنی تو یہ ہیں کہ کوئی بیرونی جارح قوت حملہ کرے تو جارحیت کا شکار ملک اپنے دفاع کے لیے ہر حد تک جاسکتا ہے، مگر اسرائیل کے لیے جارحیت یعنی Offence & Aggression کو دفاع قرار دے دیا گیا ہے۔ کوئی بتائے کہ اسرائیل پر حملہ کس ملک نے کیا ہے، حملہ تو اسرائیل نے اپنی سرحد سے دوہزار کلومیٹر دور جاکر ایران پر کیا ہے، یہ دفاع کی کون سی تعریف میں آتا ہے، بھگت کبیر نے کہا ہے:

رنگی کو نارنگی کہیں، بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو یہ گاڑی کہے، دیکھ کبیراؔ رویا

مالٹے کو اردو میں ’’نارنگی‘‘ کہتے ہیں، اس کے لفظی معنی ہیں: جس کا کوئی رنگ نہ ہو، حالانکہ مالٹے کا پھل رنگین ہوتا ہے، اسی طرح جب دودھ کو پکا کر جمالیا جائے تو اُسے اردو میں ’’کھویا‘‘ کہتے ہیں اور کھونے کے معنی ہیں: ’’ضائع ہونا‘‘، حالانکہ اس میں تو دودھ کے جوہر کو محفوظ کرلیا جاتا ہے، اسی طرح ہر قسم کی گاڑی چلتی رہتی ہے، لیکن اس کا نام ’’گاڑی‘‘ رکھا ہوا ہے، حالانکہ گاڑنا کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کو کسی مقام پر نصب کردینا‘‘۔ الغرض بھگت کبیر کہتا ہے: اس معنوی تضاد پر مجھے رونا آتا ہے۔ تحریکِ آزادی کے رہنما اور مشہور شاعر حسرت موہانی نے بھی یہی بات کہی ہے:

خِرَد کا نام جُنوں پڑ گیا، جُنوں کا خِرَد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

خِرد کے معنی ہیں: ’’عقل ودانش‘‘، انگریزوں کے زمانے میں جن لوگوں نے آزادیِ وطن کے لیے آواز بلند کی، تحریکِ آزادی میں حصہ لیا، آزادی کی جنگ لڑی، وہ غدار کہلائے اور جنگ آزادی کا نام انگریزوں نے’’ غَدَر‘‘ یعنی بغاوت وسرکشی رکھا اور جو اُن کی غلامی میں خوش تھے، وہ آزاد منِش کہلائے۔ یہ بات آفتابِ نصف النّہار کی طرح روشن ہے کہ اسرائیل کا اِقدام جارحیت ہے اور جارحیت کے شکار ملک ایران کی جوابی کارروائی ہر اعتبار سے دفاع ہے۔ اسرائیل اگر این پی ٹی یعنی جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہ کرے تو اُسے اس کا حق حاصل ہے، لیکن اگر ایران یا کوئی اور ملک نہ کرے تو وہ جوہری پھیلائو کا مجرم قرار پاتا ہے۔

جب سے فساد فی الارض اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہوا ہے، یہی تضاد یہاں بھی جاری ہے، دہشت گرد آئے روز بے قصور انسانوں کو قتل کرتے ہیں، خود کش حملے کرکے درجنوں اور بعض صورتوں میں سیکڑوں افراد کی جان لے لیتے ہیں، بم دھماکے کرتے ہیں، اپنے اَہداف پر بم نصب کرکے دور بیٹھ کر برقی نظام سے اُسے دھماکے سے اڑادیتے ہیں، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بسوں سے اتار کر اور شناختی کارڈ چیک کرکے بے قصور لوگ قتل کردیے جاتے ہیںتو ایسے دہشت گردوں، مفسدین، تخریب کاروں اور قاتلوں کے جنازے اس طرح پڑھے جاتے ہیں، جیسے کوئی بطلِ جلیل ہو اور اس نے کوئی بڑا دینی، ملّی اور قومی کارنامہ انجام دیا ہو۔

ہم تو کہتے ہیں: اگر کوئی قاتل پکڑا بھی جائے اور تمام ثبوت وشواہد بھی مل جائیں اور عدالت سے سزائے موت صادر ہونے کی صورت میں اُسے سولی بھی چڑھا دیا جائے تو انصاف کا حق ادا نہیں ہوتا۔ کوئی مجرم کسی پارسا شخص، صاحبِ علم، صاحبِ تقویٰ یا زندگی کے کسی شعبے میں انسانیت کو فیض پہنچانے والے فرد کو قتل کردے تو کیا دونوں کی حیثیت ایک ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دہشت گرد بم دھماکا کرکے سو پچاس آدمیوں کی جان لے لے، تو اس کی ایک جان سو جانوں کا بدل ہوسکتی ہے۔ پس حقیقی انصاف تو آخرت میں ہوگا کہ جہنم میں ہرپل وہ جیے گا اور مرے گا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، ہم عنقریب انہیں جہنم میں جھونک دیں گے، جب اُن کی کھالیں (نارِ جہنم میں) خوب جل جائیں گی، تو ہم اُن کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں، بے شک اللہ بہت غالب حکمت والا ہے‘‘۔ (النسآء: 56) یہاں قرآنِ کریم نے جسم کے دوسرے حصوں کے بجائے خاص طور پر جلد کا ذکر کیا ہے، کیونکہ جِلد بہت حساس ہوتی ہے۔ الغرض قرآنِ کریم نے فساد فی الارض کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مکرم ؐ سے جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، اُن کی سزا یہ ہے کہ انہیں چُن چُن کر قتل کیا جائے یا انہیں سولی پر چڑھایا جائے یا مخالف سَمت سے اُن کے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیے جائیں یا انہیں زمین سے اٹھادیا جائے، یہ اُن کی دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے، ماسوا اُن لوگوں کے کہ جو تمہارے اُن پر قابو پانے سے پہلے وہ توبہ کرلیں (یعنی ہتھیار ڈال دیں)‘‘۔ (المائدہ: 33)

متعلقہ مضامین

  • حقِّ دفاع
  • ٹرمپ دنیا کا چودھری بنا ہوا، امریکا قابلِ بھروسہ نہیں، عبدالغفور حیدری
  • پہلے وہ لبنان پھر یمن اور اب ایران آگئے، اگر ہم نہ بولے تو وہ ہم پر آئیں گے تو کوئی بولنے والا نہیں ہوگا: بلاول
  • مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اسحاق ڈار
  • مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مظالم، مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • مسئلہ کشمیر کا یو این کی قرارداد کے مطابق حل چاہتے ہیں: اسحاق ڈار
  • اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں، اسحاق ڈار
  • بول، او آئی سی میں مقبوضہ جموں و کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس
  • پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی، اسحاق ڈار
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنےکو جنگ کے مترادف سمجھتے ہیں،اسحاق ڈار